اتنی گہری لمبی نیند (2) – حسن نثار

hassan-nisar

عظیم صنعتی انقلاب کا دوسرا مرحلہ 1860پہلے سے بھی زیادہ شدید اور طاقتور تھا جس کے تین پہلو ایسے تھے جنہوں نے انسان کا تقریباً سب کچھ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ لوہے کو فولاد میں تبدیل کرنا کسی دھماکہ سے کم نہ تھا۔ ہزار سال پہلے بھی دمشق اپنی فولادی تلواروں کی وجہ سے مشہور تھا لیکن فولاد سازی بیحد مشکل، سست اور مہنگی تھی۔ 1856میں سر ہنری بیسمر نے ’’دریافت‘‘ کیا کہ اگر پگھلے ہوئے لوہے میں سے ہوا کے جھونکے گزارے جائیں تو تقریباً تمام کاربن نکل جاتی ہے اور لوہا فولاد یعنی سٹیل میں تبدیل ہو جاتا ہے (ہم نے سٹیل مل ’’کھانا‘‘ ایجاد کیا) اس پراسیس میں چند مزید ترامیم کے بعد 1880سے 1914کے درمیان برطانیہ میں 20لاکھ سے 70لاکھ، امریکہ میں 16سے 28لاکھ، جرمنی میں 10سے 20لاکھ ٹن تک کا اضافہ ہو گیا۔ جہاں جہاں لوہا استعمال ہوتا تھا وہاں سٹیل استعمال ہونے لگا۔

دوسرا پہلو تھا ’’ڈائینمو‘‘ کا استعمال جس کی تکمیل 1873ء میں ہوئی اور 1876ء میں INTERNAL COMBUSTIONانجن ایجاد ہوا۔ نتائج یہ تھے کہ لوہے کی جگہ سٹیل، توانائی کوئلے کی بجائے گیس اور پٹرول سے حاصل ہونے لگی۔ صنعتوں میں بجلی کا استعمال عام ہوا۔ خودکار یعنی آٹو میٹک مشینری بنی۔ ALLOYSکا استعمال عام ہوا اور صنعتی کیمیا کی پیداوار عام ہوئی۔ ذرائع نقل و حمل اور ذرائع ابلاغ میں انقلاب آگیا۔ سرمایہ کار تنظیموں کی نئی شکلیں وجود میں آئیں۔ انڈسٹریلائزیشن کا عمل پھیلتا گیا وغیرہ وغیرہ وغیرہ اور ہم یا ہم جیسے اُس وقت کیا کر رہے تھے؟ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔

پھر یوں ہوا کہ ڈائینمو (DYNAMO) کی ایجاد کے بعد کوئلے کی جگہ بجلی نے سنبھال لی ۔ مائیکل فاراڈے نے ڈائینمو کا اصول 1831میں ہی پیش کر دیا تھا جس کی عملی افادیت 1873میں سامنے آئی۔ رفتہ رفتہ سٹیم انجن پس منظر میں چلے گئے۔ انہیں زیادہ تر الیکٹرک جنریٹر چلا کر بجلی بنانے پر لگا دیا۔ جہاں کوئلے کی قلت تھی وہاں الیکٹرک جنریٹر چلانے کیلئے آبی وسائل استعمال ہوئے۔ توانائی کے نئے ذرائع میں ہونے والی ایک اہم پیشرفت پٹرول اور اس کی مصنوعات ہیں جن میں ہماری کنٹری بیوشن صرف اتنی ہے کہ اس کی قیمتوں میں اضافہ پر ماتم کرنا ہماری قومی ہابی ہے۔ پٹرول کی تاریخ اتنی دلچسپ لیکن طویل ہے کہ کالم اس کی طوالت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا لیکن ایک بات طے کہ یہ کسی طلسم ہوشربا سے کم نہیں۔ دوسری طرف صنعتی عمل کے آٹو مشین میں فوٹو الیکٹرک سیل کا کردار بہت اہم رہا جسے سوئچنگ، دروازے کھولنے، انڈوں کی چھانٹی، کاغذ گننے، ان کی موٹائی معلوم کرنے اور جعلی نوٹ شناخت کرنے میں استعمال کیا گیا۔ یہاں تک کے مشینوں کو ہدایات دینے اور انہیں چلانے کیلئے بھی مشینیں معرض وجود میں آنے لگیں۔ چلتے پھرتے ’’معدے‘‘ جانتے بھی نہیں کہ کن کن چیزوں کے استعمال پر انہیں کن کن کی محنت اور ذہانت کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ بڑے پیمانے کی پیداوار میں دیگر طریقوں کے علاوہ ’’کنویئر بیلٹ‘‘ جیسے آئیڈیاز کا کیا رول ہے؟ کیا کبھی کسی ڈنگر نما مخلوق نے ایئر پورٹ پر کھڑے ہو کر اس کے بارے میں سوچا؟

بزرگ کہا کرتے تھے کہ جو کم بخت انسان کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا وہ اپنے رب کا شکر بھی ادا نہیں کر سکتا۔ یہ طریقہ سب سے پہلے ہنری فورڈ نے 1908میں شکاگو کے گوشت پیک کرنے والوں کے ہاں دیکھا تھا۔ یہیں سے انسپائر ہو کر فورڈ اپنی فیکٹری کو وہاں تک لے گیا کہ اس کے مشہور ماڈل Tکی چیسز ایک گھنٹہ 33منٹ میں اسمبل ہو جاتی تھی۔ دنیا میں پروڈکشن کو اس حد تک بڑھانے اور قیمت کو عام لوگوں کی پہنچ میں لانے کیلئے اس ’’علم‘‘ کا رول بہت کلیدی ہے۔ اس سارے کھیل کے پیچھے اہم ترین بات یہ ہے کہ آہستہ آہستہ ہر پیداواری عمل پر سائنس کا غلبہ بڑھتا گیا۔

تیسری دنیا اس لئے تیسری دنیا ہے کہ نہ ان کی سوچ سائنسی ہے نہ ان کے اعمال سائنسی ہیں جبکہ یہ کائناتیں عظیم ترین سائنس کا کرشمہ ہیں کہ ایک حقیر ترین ذرے سے لیکر کہکشائوں تک مخصوص اصولوں پر چل رہی ہیں۔

ہم پہنچے ہوئے بابوں کی تلاش میں رینگتے رہ گئے اور کہیں بھی نہ پہنچ سکے جبکہ غوروفکر کرنے کے عادی چاند اور مریخ تک نہ صرف جا پہنچے بلکہ وہاں بستیاں آباد کرنے کے اولین مراحل میں بھی داخل ہو چکے۔

شاید ہمارے دن بھی پھر سکتے ہیں اگر ہمارے دل اور دماغ پھر جائیں لیکن ہماری تو ساری کائنات ہی ووٹ کو عزت دینے اور خود کو بے عزت رکھنے تک محدود ہے۔(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Itni Ghehri Lambi Neend 2 By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.