اسرائیل: پاکستان کا نظریاتی مد مقابل(۱)
پاکستان میں دو موضوعات ہمیشہ سے ایسے رہے ہیں کہ جن پر قیامِ پاکستان سے پہلے بھی ہمدرددانہ گفتگو نہ صرف دینی حلقوں میںبلکہ دانشوروںکی بڑی اکثریت میں بھی شجر ممنوعہ سمجھی جاتی تھی۔ ایک سرزمین فلسطین پر یہودیوں کی آبادکاری اور پھر اسرائیل کی ناجائز ریاست کا قیام اور دوسرا فتنۂ قادیانیت۔ دینی حلقے تو ان دونوں کا جوازقرآن پاک کی تعلیم اور سیدالانبیاء ﷺ کی ہدایات سے دیتے تھے، لیکن برصغیر پاک و ہند کے دانشور طبقے کی اکثریت چونکہ مارکسزم سے شدیدمتاثر تھی، اس لئے وہ ان دونوں کو اس دور کی نو آبادیاتی طاقت ، برطانیہ کے لگائے ہوئے پودے تصور کرتی تھی۔لیکن گذشتہ چندسالوں سے ان دونوں موضوعات کے حق میں گفتگو مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح دھیرے دھیرے سنائی دے رہی ہے۔ یہ تبدیلی آہستہ آہستہ نہیںآئی،بلکہ اچانک اور یکدم آئی ہے۔ جس دن کیمونسٹ روس کا ہتھوڑے اور درانتی والا سرخ پرچم سرنگوں ہوا، پاکستان کے ترقی پسند، روشن خیال اور جدید خیالات کے امین دانشوروں، تجزیہ نگاروں، شاعروں اور ادیبوں میں جس سرعت سے ایکدم محبت اور نفرت کے معیارات بدلے ہیں، ویسے ہی اسرائیل کے لئے بھی ان کے دل میں میٹھی میٹھی، دبی دبی سی محبت بھی بیدارہوئی ہے ۔ یہ دانشور طبقہ قیامِ پاکستان سے لے کرسویت یونین کے خاتمے تک، فلسطین،، ویت نام اور انگولامیں لڑنے والے روس نواز حریّت پسند گروہوں کے لئے لاتعدادنظمیں اور افسانے لکھتا رہا۔جب تک سویت یونین قائم رہا،اسرائیل ان کے نزدیک امریکہ سے بھی بڑا مجرم تھا۔کیمونزم کی تحریک کے روح رواں اور ترقی پسندوں کے سرخیل شاعر فیض احمد فیض نے اپنی زندگی کے آخری سال بیروت سے نکلنے والے بائیں بازو کے رسالے ’’لوٹس‘‘(Lotus)کی ادارت اختیار کی۔ یہ رسالہ سویت یونین، مشرقی جرمنی، مصر اور فلسطین کی قوم پرست تحریک ،پی ایل او (PLO) کے مشترکہ سرمائے سے نکلتا تھا۔یہ رسالہ خطے میں اسرائیل کے خلاف لڑنے والی ہرلادین کیمونسٹ قوم پرست آوازکا علمبردار تھا۔جیسے ہی سوویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں ،اگلے سال اسرائیل اور شام نے بھی اپنی فوجیں لبنان میں اتار دیں۔ کشمکش بڑھی، حالات دگرگوں ہوئے توفیض بھی1982ء میں واپس لاہور آگئے۔ وہ اگلے دو سال زندہ رہے لیکن ان دو سالوں میں انہوں نے کبھی روس کے افغانستان میں داخل ہو کر افغان عوام کے قتل عام پر ایک لفظ بھی نہ لکھا ۔وضع دار آدمی تھے، شاید لکھنے بیٹھتے ہوں گے تو سامنے پڑا لینن ادبی ایوارڈ انہیں حق نمک یاد دلاتا ہوگا۔یہ حال صرف فیض احمد فیض کا ہی نہیںتھا، بلکہ ترقی پسندی کے خمار میں ڈوبے ہوئے ہر ادیب و شاعر کا ہی یہی عالم تھا، یہاں تک کہ ’’عظیم‘‘انقلابی شاعرحبیب جالب کو میں نے خود افغانستان میں روس کی فوج کے داخلے کو، پاکستان کے لیئے نوید مسرت بتاتے ہوئے سنا اور سر خوشی سے جھومتے دیکھا ہے۔یہ تما م ’’دانشورانِ ملت ‘‘اسقدر خوش فہم تھے کہ خواب دیکھا کرتے تھے کہ، اب بس چند دنوں میں روس کی افواج طورخم اور چمن کے راستے پاکستان میں داخل ہوں گی، یہاں کے مولویوں کی داڑھیاں خون سے رنگین ہو جائیں گی ، امریکی نواز سرمایہ دارملک چھوڑ کر بھاگ جائیں گے، ملیں مزدوروں کی ملکیت ہوں گی اور کھیت مزارع اور ہاری کے قبضے میں چلے جائیں گے۔ مگر افغان عوام کی پر عزم جدوجہد، انکی عظیم قربانی اورضیاء الحق شہید کی بصیرت تھی کہ پاکستان کے بارے میں ان دانشوروں کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ورنہ آج پاکستان کا بھی وہی حال ہوتا جو کیمونسٹ روس کے زیرِ قبضہ ،تاجکستان اور ازبکستان جیسی مسلمان ریاستوں کاہوا تھا۔ اسلام انکی زندگی سے مکمل طور پرنکل گیا۔پچھتر سال مسجدوں کو تالے لگے رہے اور قرآن کے مصحف تک ضائع کر دیے گئے لیکن جب پچھتر سال کے بعد یہ ریاستیںآزاد ہوئیں تو غربت اور افلاس کی بھی بدترین تصویر تھیں۔پاکستان اور دنیا بھر کا ترقی پسند ادیب، فلسطین لبریشن آرگنائیزیشن کا اس لئے مداح تھا کہ یہ تنظیمجب2 جون 1964ء کو مصر کے شہر قاہرہ میں قائم ہوئی تو اس کی نظریاتی بنیاد کے لئے ایک ’’اقرار نامہ‘‘(Palestinian National Covenant)لکھا گیا۔ اس کے تحت اس تنظیم کا مقصدفلسطینیوں کے وطن کی بحالی کی جدوجہد کرنا تھااور اس جدوجہد کا کسی بھی مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہوگا۔ تنظیم کا قیام بھی سویت کیمپ کے مصری صدرجمال عبدالناصر کی کوششوں سے ہوا اور اس کانفرنس کا اہتمام بھی قوم پرست علاقائی تنظیم ’’عرب لیگ‘‘ نے کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام کیمونزم نوازدانشوروں کی محبتوں کا مرکز، فلسطین تھا۔ وقت نے کروٹ لی، افغان سرزمین پر بہنے والے افغانوں کے مقدس خون نے تاریخ کا نقشہ ایسا بدلا کے وہ ادیب اوردانشور جو امریکہ اور اس کے حواریوںکو گالیاں دیا کرتے تھے،اسی امریکہ کے آگے یکدم سربسجودہو گئے ۔اپنی اس ’’لوٹا کریسی ‘‘ کو چھپانے کے لئے کیسے کیسے سوانگ رچائے گئے، کیسے کیسے لبادے اوڑھے گئے، این جی اوز، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے علم بردار، حقوق نسواں کے پرچم بردار۔ اسقدر بے پیندے کے لوٹے شاید ہی کسی اور گروہ میں نظر آئیں جتنے آپ کو پاکستان کے قدیم ’’ترقی پسند‘‘ اور موجودہ ’’روشن خیال‘‘ دانشوروں اور سیاست دانوں میں نظر آئیں گے۔ جب روس کی افواج افغانوں کا خون بہانے وہاں داخل ہوئیں تو خان عبدالولی خان، محمود خان اچکزئی اور اس قبیل کے سیاست دانوں اورحبیب جالب جیسے انقلاب آفریں دانشوروں تک ،سب سوویت فوج کا ساتھ دیتے تھے اور امریکہ کو گالی دیتے ہوئے یہ بھی کہتے تھے کہ پاکستان نے افغان جہاد میں امریکہ کی مدد کرکے اپنی بربادی پر دستخط کر دئیے ہیں اور اب یہ ملک ختم ہو جائے گا۔ پاکستان تو میرے اللہ کی مہربانی سے آج تک قائم ہے، مگر ان دانشوروں کے خوابوں کی سرزمین۔۔ سوویت یونین 1992ء میں دنیا کے نقشے سے غائب ہو گئی۔اس سانحے کے ٹھیک نو سال بعد جب امریکہ نے بھی اپنی افواج افغانستان میں داخل کیں تو اس وقت یہی سیاست دان اور دانشوراسی امریکہ کے ساتھ ہو گئے جسے وہ بائیس سال قبل افغان مجاہدین کا ساتھ دینے پر گالیاں دیا کرتے تھے۔ سویت یونین ختم ہوا تو فلسطین کی جدوجہد بھی ایک نئے مختلف نظریاتی مرحلے میں داخل ہو گئی۔اب وہاں جو بھی اسرائیل کے خلاف لڑرہا ہے، وہ صرف اور صرف اس سرزمین پر اللہ کی حاکمیت کے قیام کے لئے لڑرہا ہے۔ حماس ہو یا حزب اللہ یا کوئی اور تنظیم اب گفتگو صرف ایک ہی ہوتی ہے کہ ہم اس ’’دجالی‘‘یہودی مذہبی منصوبے’’ گریٹر اسرائیل ‘‘اور یہودیوں کے ’’مسیحا ‘‘کی عالمی حکومت کے قیام کے خلاف لڑیں گے۔ اب فلسطین کے لئے لڑنے والوں کے دلوںمیں قومیت کے نعرے باقی ہیں اورنہ ہی سرخ انقلاب کی صدائیں۔ اب یہ وہ فلسطینی نہیں رہے ،جنہوں نے کبھی اپنی جلاوطنی کے ایام میں خود کو مذہب سے دور ثابت کرنے کے لئے ا ردن اور لبنان میں مذہب بیزاری کے جلوس نکالے تھے۔آج اسرائیل کے خلاف جنگ، زمین سے زیادہ نظریے کی جنگ بن چکی ہے۔ایسی جنگ کے فیصلے عالمی برادری یا علاقائی قوتیں نہیں کیا کرتیں۔ ایسی جنگ کسی ایک گروپ کی فتح کے بغیر ختم نہیں ہوتی، جیسے افغانستان میں طالبان کی امریکہ پر فتح کے بعد ہی امن کا سفر شروع ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج اسرائیل اور اس میں آباد91لاکھ 36ہزار یہودی یہ فیصلہ کر یں گے کہ وہ کل سے اپنی زمین تک محدود ہو جائیں گے اور خطے میں امن قائم کریں گے؟ ہرگز نہیں۔ اسلئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خودیا انکے آباء و اجداد پیرس، لندن، برلن، نیویارک اور برسلز جیسی خوبصورت آبادیاں، اربوں ڈالر کا کاروبار اور کروڑوں ڈالرز کی جائیدادیں چھوڑ کر حیفہ اور تل ابیب جیسے صحرائی خطے میں ایک مقصد کی تکمیل کے لئے آکر آباد ہوئے تھے۔ ان کے دلوں میں صرف اور صرف ایک ہی خواب دھڑکتا تھاکہ ایک دن ایسا وقت اس سرزمین پر ضرور آئے گا جب دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک یہودیوں کی عظیم اور پرشکوہ حکومت قائم ہوگی، جس کا حکمران ایک ایسا ’’مسیحا‘‘ ہوگا جس کی خبر تورات اور تالمود میں دی گئی ہے اور جس کا ہر یہودی دوہزار سال سے انتظار کر رہا ہے۔ یہودیوں کا مسیحا۔۔ ایک ایسا عظیم روحانی بادشاہ جو ہیکل سلیمانی میں تخت دائودی پر بیٹھ کر اپنی حکومت کے ذریعے صرف اس خطے پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر حکمرانی کرے گا۔ (جاری ہے)