اسرائیل: پاکستان کا نظریاتی مد مقابل …(3)
اپنی ہنستی بستی دنیا کو چھوڑ کر ویرانوں میں جا کر آباد ہونے کے محض دو مقاصد ہوا کرتے ہیں۔ پہلا یہ کہ آپ پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہواور چھپتے چھپاتے ایسی جگہ جا کر آباد ہو جائیں جہاں کوئی تلاش نہ کر سکے اور دوسرا یہ کہ آپ عشق و محبت کی وارفتگی میں مجنوں ہو جائیں یا گیان کی منزلوں کے راہی بنے ہوئے ہوں۔ لیکن اسرائیل کے ویرانوں میں یہودیوں کی واپسی، عام انسانوں کی ہجرتوں سے بالکل مختلف تھی۔ وہ روزگار کی تلاش میں یہاں آئے تھے اور نہ سرسبز و شاداب کھیتوں کی آباد ی کے لئے۔ انہیں اس ویرانے میں آباد ہونے کی لوریاں گذشتہ دو ہزار سال سے دی جاتی رہی ہیں۔ ہر یہودی بچے کو اس خواب کے ساتھ پروان چڑھایا جاتا رہا کہ وہ ایک دن ارض مقدسہ جائے گا، جہاں اس آنے والے عظیم ’’مسیحا‘‘ کی فوج کا حصہ بن کر لڑے گا جسکی پوری دنیا پر عالمی حکومت قائم ہوگی۔ اسی لئے اسرائیل کی ساخت ایک قومی ریاست نہیں بلکہ ایک گیریژن یعنی چھاؤنی جیسی ہے۔ آپ اسرائیل کے تمام قوانین، اصولِ حکمرانی، طرزِ زندگی یہاں تک کے شہروں اور علاقوں کے دفاعی نظام کا مطالعہ کر لیں، یہ آپ کو ایک بہت بڑا کنٹونمنٹ نظر آئے گاجس کے ہر شہری کیلئے کم از کم تین سال فوج کی ملازمت ضروری ہے۔ اسرائیل کا وجود ایک خالصتاً مذہبی عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر استوار ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ریاست نے اپنا کوئی تحریری آئین نہیں بنایا، بلکہ وہ تورات اور تالمود کو اپنا آئین سمجھتے ہیں۔ اسرائیل کے عالمی حکومت کے اس مذہبی عقیدے کے مقابلے میں ’’اسلام‘‘ نے بھی علاماتِ قیامت اور آخر الزمان کے بارے میں اپنا ایک تصور دیا، جو وضاحت کے ساتھ قیامت سے پہلے برپا ہونیوالے آخری معرکۂ خیر و شر یعنی ’’ملحمتہ الکبریٰ‘‘ کے بارے میں بتاتا ہے۔ سید الابنیاء ﷺ کی پیش گوئیوں کے مطابق یہ معرکہ اسی سرزمین میں برپا ہونا ہے جسے ’’ارض شام‘‘ کہتے ہیں اور جس کے ایک حصے میں فلسطین یا موجودہ اسرائیل پر آخری محاذ آرائی ہوگی، جس میں آخر کار مسلمان فتح یاب ہوں گے۔ قرآن پاک نے بنی اسرائیل کی تاریخ بتاتے ہوئے آخر میں اس معرکے کے متعلق فرمایا ہے، ’’ اب تم زمین میں بسو، پھر جب آخری وعدے کا وقت آئیگا تو ہم تمہیں ایک ساتھ اکٹھا کر دیں گے (بنی اسرائیل:104)۔ اس سے پہلے بنی اسرائیل کو زمین میں منتشر کرنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے، ارشاد ہے، ’’ہم نے ان کو زمین میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے بہت سی قوموں میں تقسیم کر دیا‘‘ (الاعراف: 168)۔ قرآن پاک نے یہودیوں کے دو ہزار سال تک زمین میں بکھرنے اور پھر آخری معرکیلئے یروشلم میں جمع ہونے کا ذکر کرنے کے بعد اس واپسی کا مقصد بھی بیان کردیا ہے، فرمایا،’’ہو سکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے۔ لیکن اگر تم نے اپنی سابقہ روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی اپنی سزا کا اعادہ کریں گے (بنی اسرائیل: 8)۔ یہ کونسی سزاجس کا اعادہ ہو گا۔ اللہ نے گذشتہ دو سزائوں کا ذکر کیا ہے۔ فرمایا، ’’جب پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا تو اے بنی اسرائیل! ہم نے تمہارے مقابلے پر ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھس کے ہر طرف پھیل گئے۔ یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہو کر رہنا تھا (بنی اسرائیل: 5)۔ یہ یروشلم کے پہلے ہیکل سلیمانی کی تباہی کا تذکرہ ہے، جب 589قبل مسیح میں بابل کے حکمران بنو کدنضر دوم ( ii) نے اس شہر کا محاصرہ کیا جو تیس مہینوں تک جاری رہا۔ ہیکل سلیمانی گرادیا گیا، تمام اہل اور کار آمد لوگ غلام بنا لئے گئے اور پورا شہر زمین بوس کردیا گیا۔ اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے بنی اسرائیل پر دوبارہ فضل و کرم کا ذکر کیا ہے۔ یروشلم میں واپسی کے بعد یہودیوں نے سیدنا عیسیٰ ؑ کی مخالفت کی اور انہیں اپنی دانست میں مصلوب کیا تو اللہ نے بنی اسرائیل پر دوسری سزا مسلط کی جس کا ذکر یوں ہے، ’’پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اسے تباہ کر کے رکھ دیں‘‘(بنی اسرائیل: 7)۔ قرآن میں درج یہ دوسری تباہی 70عیسوی میں آئی۔ رومن جرنیل ’’ٹائٹس ویسپاسیان‘‘ نے بیس ہزار فوجیوں کیساتھ 14اپریل 70ء کو یروشلم کا محاصرہ کیا جو چار ماہ تین ہفتے اور چار دن جاری رہا۔ گیارہ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا اور 97ہزار کو غلام بنا لیا گیا اور اب اللہ نے آخری معرکے کیلئے یہودیوں کو واپس یروشلم میں اکٹھا کرلیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ اس بار اگر تم نے سرکشی کی تو سزا بھی بالکل پہلے جیسی ہو گی۔ یہ سزا کن کے ہاتھوں سے دی جائے گی؟ اس کی وضاحت سیدالانبیاء ﷺ کی احادیث میں تفصیلاً موجود ہے۔ آپؐ نے فرمایا، ’’تم یہودیوں سے جنگ کرو گے یہاں تک کہ اگر کوئی یہودی کسی پتھر کے پیچھے چھپا ہوگا تو وہ پتھربول کر کہے گا: اللہ کے بندے! یہ میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے اسے قتل کر ڈالو‘‘ (صحیح بخاری: 2925)۔ یہ ہے وہ آخری معرکہ جو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان اسی سرزمینِ فلسطین پر برپا ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیش بندی کے طور پر اسرائیل کے قیام سے پہلے ہی ایک سازش کے تحت ارد گرد آباد مسلمانوں کو قومیت کے نام پر مصر، شام، اردن، لبنان اور دیگر ریاستوں میں تقسیم کیا گیا اور ان میں عرب قومیت کی چنگاری سلگائی گئی۔ یہودیوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ جب تک مسلمان قومیت کے نام پر ان سے لڑیں گے تو شکست کھائیں گے۔ لیکن اگر وہ بحیثیت امتِ مسلمہ لڑے تو یہ جنگ اسرائیل کو بہت مہنگی پـڑ سکتی ہے۔ مگر میرے اللہ کے بھی اپنے منصوبے ہیں۔ احادیث کے مطابق یہودیوں سے ہونے والی آخری لڑائی کی فاتح قوم نہ عرب ہوگی نہ عجم۔ عرب تو صفحہ ہستی سے مکمل طور پر مٹ جائیں گے، فرمایا’’سب سے پہلے لوگوں میں فارس والے ہلاک ہوں گے پھر ان کے پیچھے عرب والے‘‘ (کتاب الفتن: 56)۔ عربوں کی مکمل تباہی کا ذکر تو لاتعداد احادیث کا مستقل مضمون ہے۔ بیت المقدس کی سرزمین پر جس قوم کے جھنڈے گاڑے جائیں گے وہ دریائے سندھ سے دریائے ایموں کے درمیان آباد ’’خراسان‘‘ کی سرزمین سے آئے گی۔ دو مختلف احادیث ہیں، ایک جگہ لفظ ’’مشرق‘‘ استعمال ہوا ہے اور دوسری جگہ ’’خراسان‘‘، فرمایا’’خراسان (مشرق) سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے اور انہیں کوئی طاقت واپس نہیں پھیر سکے گی، یہاں تک کہ وہ ایلیا (بیت المقدس) میں گاڑ دئیے جائیں گے‘‘(ترمذی، مسند احمد)۔ اللہ کے منصوبوں کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ یہودیوں نے عالمی طاقتوں کی مدد سے امتِ مسلمہ کو قومیت کے نام پر تقسیم کر دیا اور اطمینان سے اسرائیل کے قیام کی طرف بڑھ رہے تھے، مگر اللہ نے اسرائیل کے قیام سے ٹھیک نو ماہ قبل 14اگست کو اسی خراسان و مشرق کے علاقے میں ’’پاکستان‘‘ نام کی ایسی ریاست قائم کردی جس کی بنیاد کلمۂ طیبہ ہے۔ یہی وہ پاکستان ہے جس کے بارے میں اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بین گوریان نے 1967ء کی جنگ جیتنے کے بعد پیرس میں فتح کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے خبردار کیا تھا۔ یہ تقریر 1967 ء کے ’’Jewish Chronicle‘‘ میں چھپی ہے۔ ’’دنیا بھر کی صہیونی تحریک کو پاکستان کی جانب سے خطرات سے خبردار رہنا چاہیے اور اب پاکستان ہمارا پہلا نشانہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ نظریاتی ریاست ہماری بقا کے لئے خطرہ ہے، پورے کا پورا پاکستان یہودیوں سے نفرت اور عربوں سے محبت کرتا ہے۔ یہ عربوں کا دلدادہ، عربوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ اسی لئے وقت آگیا ہے کہ عالمی صہیونی تحریک فوری طور پر پاکستان کے خلاف قدم اٹھائے۔ بھارت کے ہندو پاکستانیوں سے نفرت کرتے ہیں، اس لئے بھارت پاکستان کے خلاف کام کرنے کے لئے بہترین ملک ثابت ہو سکتا ہے‘‘۔ (جاری ہے)