اسلامی کانفرنس اور دشنام طرازی
دنیا بھر میں جس سیکولر‘ لبرل اور ملحد نے اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے خلاف دشنام طرازی کرنا ہو اور فساد خلق کے ڈر سے ہمت نہ پاتا ہو تو وہ ایک زمانے سے مولوی کو گالی دے کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرلیا کرتا تھا بلکہ آج بھی اس نے اسلام کے خلاف زبان درازی کا یہی آسان راستہ ڈھونڈا ہوا ہے لیکن بھلا ہو ذوالفقار علی بھٹو کی عالمی لیڈر کہلانے کی ہوس کا کہ اس نے 1974ء میں لاہور شہر میں اسلامی کانفرنس بلا کر اسلام کے خلاف اپنا بغض نکالنے والوں کو ایک اور آسان راستہ عطا کردیا۔ بھٹو اس اسلامی کانفرنس کے انعقاد کی آڑ میں بنگلہ دیش کی تخلیق کو تسلیم کرنا چاہتا تھا۔ اسے عوام کے جذبات سے کھیلنا آتا تھا لیکن لاہور کے ایک بہت بڑے جلسے میں جب اس نے لوگوں کے سامنے بنگلہ دیش منظور کرنے کی تجویز رکھی تو پورا جلسہ نامنظور نامنظور کے نعروں سے گونج اٹھا اور سیخ پا بھٹو شدید غصے میں ’’جہنم میں جائو‘‘ کہتا ہوا سٹیج سے نیچے اتر گیا۔ اسلامی کانفرنس کے انعقاد سے وہ اس مقصد میں کامیاب ہوگیا۔ جاوید ہاشمی کی قیادت میں پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے جن طلبہ نے احتجاج کیا انہیں بری طرح زدوکوب کر کے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا اور شیخ مجیب الرحمن کا بحیثیت حکمران لاہور میں استقبال بھی ہوا اور پنجاب اسمبلی کی عمارت کے باہر دیگر اسلامی ملکوں کے ساتھ اس کا جھنڈا بھی لہرایا گیا۔ اس دور میں وہ لوگ جنہیں تخلیق پاکستان اور وجہ تخلیق پاکستان یعنی اسلام سے چڑ تھی‘ ان کی تحریریں اور تقریریں بنگلہ دیش بننے پر خوشی کو چھپا نہیں پاتی تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عالمی حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی ملک کا کوئی حصہ اگر جارحیت اور بیرونی مداخلت سے اس سے علیحدہ کیا جائے تو بھلے وہ اسے واپس حاصل کرے یا نہ کرے،اسے تسلیم ہرگز نہیں کرتا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد چین سے علیحدہ کیا جانے والا حصہ تائیوان جو 1949ء میں ماوزئے تنگ کے کمیونسٹ انقلاب کے لانگ مارچ کے وقت امریکی افواج کا اڈا تھا اور اسے امریکہ نے بادشاہ چیانگ کائی شیک کی حمایت میں ماوزئے تنگ کے خلاف استعمال کیا تھا‘ پھر شکست کے بعد اسے ایک علیحدہ ملک بنا دیا تھا‘ اسے چین نے بحیثیت ایک آزاد خود مختار ملک تسلیم نہیں کیا۔ پوری عالمی برادری اسے چین کہتی رہی‘ وہ سکیورٹی کونسل کے ان پانچ اراکین میں بھی شامل رہا جنہیں ویٹو کا حق حاصل تھا۔ چین اس وقت تک عسکری اور معاشی طور پر کمزور تھا لیکن جب وہ اس قدر طاقت ور ہوگیا کہ مغرب کی ضرورت بن گیا تو 25 اکتوبر 1971ء کو اقوام متحدہ نے قرارداد نمبر 2758 پاس کی۔ تائیوان کو کان پکڑ کر مستقل رکن کی سیٹ سے نکالا اور ماوزئے تنگ کے چین کو وہاں بٹھا کر ویٹو کی تلوار بھی تھما دی۔ لیکن پاکستان کے ’’عظیم‘‘ دانشوروں اور ’’عالمی مرتبت‘‘ رہنمائوں کو بہت جلدی تھی‘ شاید وہ سمجھتے ہوں گے کہ ایسا کرنے سے مسلمانوں کے دلوں سے دو قومی نظریے کا خواب ٹوٹ جائے گا‘ بکھر جائے گا۔ بھٹو نے ایسے لاتعداد مقاصد کے لیے اسلامی کانفرنس تو بلا لی لیکن اس کانفرنس میں بھی وہ مسلمان ملکوں کے مسلمان کہلانے والے سیکولر لبرل بادشاہوں اور روس نواز جمہوری حکمرانوں کو اکٹھا نہ کر سکا۔ پوری ’’امت‘‘ میں سے ایران نے شامل ہونے سے انکار کردیا۔ امریکہ نواز ایران نے ایسی کسی میز پر بیٹھنے سے انکار کیا جس میں روس نواز لیبیا کا قذافی موجود ہوگا۔ کانفرنس ختم ہوئی‘ بھٹو نے قذافی کے ساتھ فیروز پور روڈ پر واقع کرکٹ سٹیڈیم میں جلسہ کیا اور سٹیڈیم کا نام بھی قذافی سٹیڈیم رکھ دیا گیا۔ تالیوں کی گونج میں بھٹو فخر ایشیا اور اسلامی دنیا کا قائد بن گیا۔ بھٹو کے دوست پیلو مودی نے اپنی کتا ب’’زلفی مائی فرینڈ‘‘ میں لکھا ہے کہ جب میں نے اسے کیلیفورنیا یونیورسٹی میں پوچھا کرتا کہ ’’کیا تم پاکستان کی قیادت کا خواب دیکھتے ہو‘‘ تو وہ کہتا پاکستان میرے لیے بہت چھوٹا میدان عمل ہے‘ میں زیادہ سے زیادہ عالمی اور کم از کم علاقائی لیڈر کی حیثیت سے ابھرنا چاہتا ہوں۔ بھٹو کا یہ خواب تو پورا ہوگیا لیکن جب تک اسلامی کانفرنس کی یہ تنظیم قائم ہے یار لوگوں کو دشنام دینے کا بہانہ ضرور ملتا رہے گا۔ کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ پوری دنیا میں اس طرح کی لاتعداد علاقائی تنظیمیں ہیں جو مختلف ملکوں نے مل کر بنائی ہیں جن کی کارکردگی صرف اور صرف ایک گفتگو کے فورم (Debating Club) سے زیادہ نہیں ہے لیکن ان کی افادیت اور کارکردگی پر سوال نہیں اٹھایا۔ خود پاکستان دو بڑی علاقائی تنظیموں کارکن ہے جن میں سے ایک سارک (SAARC) ہے جو 1985ء میں بنی،جس میں بھوٹان‘ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ مالدیپ‘ نیپال اور سری لنکا شامل تھے اور 2007ء میں افغانستان کو بھی اس کا حصہ بنایا گیا۔ دوسری بڑی علاقائی تنظیم اکنامک کو آپریشن آرگنائزیشن (ECO) ہے جس میں تمام مسلم ممالک ہی شامل ہیں۔ یہ پہلے آر سی ڈی تھی جو ایران‘ ترکی اور پاکستان پر مشتمل تھی‘ پھر اس میں آذربائیجان‘ ازبکستان‘ کرغستان‘ قازقستان‘ تاجکستان‘ ترکمانستان اور افغانستان بھی شامل کرلیے گئے۔ جب کبھی پاکستان پر کوئی افتاد ٹوٹتی ہے‘ کشمیر پر آواز بلند کرنے کی بات ہوتی ہے تو کوئی ان دونوں علاقائی تنظیموں کی طرف انگلی نہیں اٹھاتا۔ وجہ صرف ایک ہے کہ ان کے نام کے ساتھ لفظ اسلامی نہیں لکھا ہوا اور ایسا کرنے سے کچھ کلیجوں میں ٹھنڈ نہیں پڑتی۔ دنیا بھر میں جتنی بھی علاقائی تنظیمیں موجود ہیں کوئی بتا سکتا ہے کہ ان کی کارکردگی کیا ہے۔ انہوں نے اپنے علاقوں کے کون سے مسئلے حل کرائے‘ کون سی جنگیں رکوائیں‘ کتنے ملکوں کو قحط‘ غربت اور افلاس سے نجات دلائی۔ افریقن یونین میں الجزائر سے لے کر زمبابوے تک پورا افریقہ شامل ہے لیکن کیا وہ لیبیا پر حملہ رکوا سکی۔ صومالیہ کی جنگ روکوا سکی‘ روانڈا کا قتل عام ختم کروا سکی۔ اسی طرح 1967ء میں قائم ہونے والی آسیان (ASEAN) جس میں برونائی سے لے کر ویت نام تک تمام علاقائی ملک شامل ہیں اوراب تو پاکستان بھی اس کا ممبر ہے‘ اس کا کیا کردار ہے‘ کیا وہ برما کے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام رکوا سکی۔ جنوبی امریکہ کے ممالک کی تنظیم الادی (ALADI) نے کیا کیا ہے۔ مسلمانوں کی ایک تنظیم ایسی بھی ہے جسے خالصتاً قومت کی بنیاد پر 1945ء میں قائم کیا گیا۔ اسے عرب لیگ کہتے ہیں۔ یہ صرف ایک دفعہ حرکت میں آئی تھی جب چودہ مئی 1941ء کو اسرائیل قائم ہوا تھا تو اس نے 15 مئی 1948ء سے 10 مارچ 1949ء تک نو ماہ تین سال اور دو دن جنگ لڑی تھی۔ اس جنگ میں مصر‘ اردن‘ عراق‘ شام‘ لبنان‘ سعودی عرب اور یمن کے علاوہ کوئی دوسرا اسلامی ملک شامل نہیں ہوا تھا۔ ترکی اور ایران نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا تھا۔ اس جنگ میں اردن نے مغربی کنارے کا علاقہ فتح کرلیا تھا۔ اس جنگ کے بعد سے عرب لیگ قائم ہے لیکن وہ کسی عرب ملک میں جنگ‘ قتل و غارت اور بیرونی مداخلت کو رکوا سکی۔ لیکن اسے کوئی کچھ نہیں کہتا کیونکہ اس کے نام کے ساتھ لفظ اسلامی نہیں لکھا ہوا۔ آج بھی اگر اسلامی کانفرنس سے لفظ اسلامی اتار کرتنظیم برائے مڈل‘ سینٹرل و جنوبی ممالک رکھ دیا جائے توساری زبانیں گنگ ہو جائیں‘ سب کو قرار آ جائے‘ سب چین سے بیٹھ جائیں۔