آج کا پاکستان – حسن نثار
گزشتہ کالم کا یہ جملہ بہت تازہ ہے کہ….. ’’الیکشنز کے نتائج روایتی لیڈروں کے لئے عوام کی نفرت کا اعلان ہیں‘‘ میرے نزدیک یہی کچھ حالیہ انتخابات کا خاصا بھی ہے، خلاصہ بھی اور خوشخبری بھی ورنہ دونوں حلقوں سے ہارنے والے مولانا فضل الرحمٰن کشمیر کمیٹی والے، اکرم درانی بنوں والے اور شاہد خاقان عباسی مری والے دیگر ہم نوائوں سمیت، ہم جیسوں کو کہاں جینے دیتے تھے؟ ایسی ہی چند شکلوں کا نام تو جمہوریت تھا جنہیں لوگوں نے جڑوں سے اکھاڑ دیا۔ عوام کو سلام۔ویسے سچی بات یہ کہ دھاندلی تو ہوئی ہے اور وہ بھی دو قسم کی۔اول یہ کہ دھاندلی زادوں کو دھاندلی کرنے نہیں دی گئی اور دوسرا یہ کہ ووٹر کو ’’دھاندلی‘‘ کی ’’کھلی چھٹی‘‘ دے دی گئی کہ جسے چاہے اٹھا کر باہر پھینک دے۔ دنیا بھر نے سراہا لیکن نواز شریف کو اندر بیٹھے علم ہو گیا کہ ’’الیکشن چوری کر لئے گئے‘‘ چوری کا لفظ میاں صاحب کے منہ پر کتنا جچتاہوگا جس کا آغاز بھی چوری تھا انجام بھی چوری ہے۔کچھ اورجمہوری شرفا بھی حلف نہ اٹھانے، تحریک چلانے کی باتیں کر رہےہیں تو میرا خیال ہے کہ اگر یہ سب ارب پتی الیکشن کے اخراجات اٹھانے پر آمادہ ہوں تو دوبارہ الیکشن کرانے میں کوئی مضائقہ نہیں تاکہ ضمانتیں ضبط کرانے کے ذلت آمیز تجربے سے بھی گزر سکیں کہ اس سے کم پر انہیں قرار
نصیب نہ ہوگا۔ پاکستان حلوائی کی دکان نہیں جس پرباربار ان کی سیاسی فاتحہ پڑھی جائے لیکن اگر یہ خود خرچہ اٹھالیں تو سر آنکھوں پر۔میرے 24جولائی کے کالم کا عنوان تھا ’’سعودی نہ سہی چینی ماڈل ہی آزمالیں‘‘ عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں عندیہ دیا ہے کہ ’’چین سے کرپشن ختم کرنے کا طریقہ سیکھیں گے‘‘ بے شک حصول علم کے لئے چین تک جانے کا حکم بھی ہے سو جلدی کریں اور یہ طریقہ پاکستان میں آزمائیں کہ اس سے پاکستان مالی ہی نہیں سیاسی طور پر بھی پاک صاف ہو جائے گا ورنہ جن کے جبڑوں کو اک خاص قسم کی جمہوریت بلکہ جمہور کا خون لگ چکاہے وہ شب خون مارنے سے باز نہیںآئیں گے۔ یہ سب سیاسی اسپیڈ بریکرز ہیں۔ادھر شیر کی کھال اوڑھے گیدڑ پنجاب کے لئے تن من دھن کی بازی لگائیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر پنجاب ہاتھ سے نکل گیا توقیامت ہوگی۔’’اور رسوا تیری گلیوںمیں ’’خیانت‘‘ ہوگی‘‘گزشتہ دس سال کے دوران پنجاب میں جو جو کچھ ہواہے۔ اسے جاننے، جانچنے، سوچنے، سمجھنے، بوجھنے اور اس کا نتیجہ خیز سائنٹفک پوسٹ مارٹم کرنے کےلئے کم ازکم پانچ سال درکار ہوں گے جو ہر قیمت پر ملنے چاہئیں تاکہ بہت سوں کابخار اتر سکے۔ پنجاب میں ایسے ایسے باریک بخئے لگے ہیں، ایسی ایسی رفوگری ہوئی ہے، ایسی ایسی رشیدہ کی کشیدہ کاری ہوئی ہے کہ اگر اس کا ¼حصہ بازار میں آگیا تو ’’گرمی ٔ بازار‘‘ سننے دیکھنے کے لائق ہوگی۔ ایسے ایسے پول کھلیں گے کہ دنیا توبہ توبہ کر اٹھےگی اور ’’جناب اسپیکر! یہ ہیں وہ چندوجوہات جن کی بناپرمیری خواہش ہے کہ پنجاب میں ’’کنٹی نیوٹی‘‘ سے ہر قیمت پر بچا جائے اور چیف منسٹر کا انتخاب کرتے وقت گہرائی اور گیرائی سے کام لیاجائے کہ چیف منسٹر پنجاب کا رول کئی حوالوں سے بہت ہی فیصلہ کن ہوگا جو کسی اناڑی اور للوپنجو کے بس کی بات نہیں۔ ’’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘‘والا کیس ہے۔ آزاد ارکان سے بھی اپیل ہے کہ ’’ڈیل‘‘ کرتے وقت جو بھی کریں، پاکستان کے مفاداور مستقبل کو سرفہرست رکھیں۔اوریہ جو ’’اے پی سی‘‘ ٹائپ پیشہ ور ہیں انہیں ’’موسم کی تبدیلی‘‘ پرغور کرناچاہئے۔ سوچنا چاہئے کہ دوسری پارٹیوں سے تحریک ِ انصاف پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش میں ناکام نام نہاد الیکٹیبلز کی بھاری اکثریت عبرت ناک انجام کو کیوں پہنچی؟ اس پیغام کو سمجھو ورنہ…..آخر پہ مجھے عمران خان کی اہلیہ بی بی بشریٰ کے اس سادہ سے بغیر سیاسی نیم روحانی پیغام کا ذکر کرناہے جس میں عوام سے کہاگیا،’’اللہ نے آپ کووہ لیڈر دیا جو آپ کاخیال رکھے گا، آپ کی حفاظت کرے گا‘‘بظاہر بہت معمولی سی بات ہے لیکن یہی تو غیرمعمولی پن کی انتہا ہے۔ “Leaders are like fathers & teachers” حقیقی لیڈر باپ اور استاد کا امتزاج ہوتاہے جو اپنے کنبے کاخیال رکھتاہے۔ اس کی حفاظت کرتاہے اور اسے اس کی منزل تک پہنچاتاہے۔اے رب العزت! پاکستانی کنبےاور اس کے سربراہ پر رحم فرما….. رستہ دکھااور ان کی مشکلیں آسان فرما۔ آمین
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Comments are closed.