آزادیٔ اظہار کے نام نہاد ٹھیکیدار
سیدالانبیاء ﷺ کی اس حدیث کو تو مسلمان ملکوں پر حکمران سیکولر لبرل، آمر، ڈکٹیٹر اور خاندانی بادشاہ بھی علمائے کرام کو مساجد کے منبروں پر نہیں پڑھنے دیتے اور مقام حیرت ہے کہ امریکی صدارتی امیدوار ’’جوبائیڈن‘‘ نے اپنی تقریر ہی اس عظیم حدیث پر ختم کی ہے۔ (مسلم امّہ کے ستاون ملکوں پر جتنے بھی ڈکٹیٹر یا جمہوری حکمران مسلط ہیں، ان کی اکثریت سیکولر لبرل آئیڈیالوجی کی حامل ہے، اسی لئیے میں انہیں مسلمان حکمران کہہ کر اسلام کو بدنام کرنے کی سازش میں شریک نہیں ہوسکتا)۔ بات یہاں تک رہتی تو پھر بھی ٹھیک تھا، لیکن وہ جدید میڈیا جس کی تخلیق ہی سچ کی آواز دبانے اور جھوٹی اطلاعات کو سچی بنا کر پیش کرنے کے مقاصد پر ہوئی تھی، اسی کے ایک چینل ’’وائس آف امریکہ‘‘ نے اس تقریر میں سے خاص طور پر وہ حصہ نکالا جس میں وہ فرمانِ رسولِ اکرم ﷺ تھا اور پھر امریکی مسلمانوں سے متعلق ایک وڈیوبنا کر نشر کردی۔ پوری دنیا پر مسلّط آزادی اظہار کے ’’نام نہاد ٹھیکیدار‘‘ وہ ہیں، جو دنیا بھر میں ’’نفرت انگیز مواد‘‘ (Hate Speech)کے نام کی تلوار لہراتے پھرتے ہیں اور اس کی آڑ میں ہر اس آواز کا گلا گھونٹتے ہیں جو ان کی مخالف ہو، ہر اس شخص پرمقدمہ بنواتے ہیں، سزائیں دلواتے ہیں، جو ان کے لبرل سیکولر نظر یات کا ناقد ہو اور ہر اس اثرپذیرمقرر کے داخلے پر اپنے ملکوں میں پابندی لگواتے ہیں، جس کے خیالات کی سچائی لوگوں کے دلوں پر جادو کرتی ہو۔ اس وڈیو پر یہ ’’ٹھیکیدار‘‘ ایک دم چونک اٹھے، چونکہ یہ ویڈیو وائس آف امریکہ کی اردو سروس نے بنائی تھی، اس لئیے فوراً اس کی سربراہ مشہور صحافی ’’تابندہ نعیم‘‘ کو معطل کرکے جبری رخصت پر بھیج دیا گیا، جس کا منطقی انجام نوکری سے برخاستگی ہے۔ اس کے ساتھ ہی چار دیگر ملازمین کو بھی معطل کرکے 11 اگست 2020ء کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کر دئیے گئے۔ ان میں سے تین نے اپنے جوابات جمع کروادئیے ہیں، جبکہ چوتھے نے کہا ہے کہ میں عدالت میں اپنا مقدمہ لے کر جائوں گا۔ اگر ان تین کے جوابات بھی تسلی بخش نہ ہوئے، تو انہیں 19اگست 2020ء کو نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ وائس آف امریکہ کے موجودہ سربراہ ’’مائیکل پیک‘‘ (Michael Pack)نے جون میں اس ادارے کا چارج سنبھالا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا کچھ ہو جائے گا۔ جوبائیڈن والی اس وڈیو نے تو وہاں طوفان کھڑا کر دیا، اور مائیکل پیک نے اردو سروس کے علاوہ سات دیگر سینئر پروڈیوسر کو بھی براستہ کورئیر سروس ایسے خطوط بھجوائے ہیں، کہ نوکری سے پہلے جو ان کی سیکورٹی کلیئرنس ہوئی تھی، اسے ختم کیا جاتا ہے اور اب انہیں ازسرِ نو اپنی سکیورٹی کلیئرنس کرواناپڑے گی۔ جوبائیڈن کی اس وڈیو کے بارے میں سب سے بڑا الزام یہ ہے، کہ اس کے بنانے والوں نے اس نظریاتی تصور کی خلاف ورزی کی ہے، جو امریکہ پوری دنیا میں اپنے نشریاتی ادارے کے ذیعے پھیلاتا ہے۔ اس وڈیو کے نشر ہونے کے فوراً بعد وائس آف امریکہ کے بھرتی کے سارے نظام کا ازسرِنو جائزہ لیا جارہا ہے۔ وائس آف امریکہ کے پندرہ سو ملازمین ہیں، جن میں سے اکثریت بیرون ملک افراد کی ہے، کیونکہ نشریات کئی زبانوںمیں ہوتی ہیں۔ اب ہر ملازم کو انفرادی طور پر سکیورٹی کلیئرنس کی چھلنی میں سے دوبارہ چھانا جارہاہے۔ وائس آف امریکہ کے آزادیٔ اظہار کے ’’ٹھیکیداروں‘‘ نے اپنے وضاحتی بیان میں وہی روایتی باتیں کی ہیںکہ ہم تحقیق کررہے ہیں کہ یہ وڈیو کہیں جانبدارانہ مواد تو نہیں رکھتی اور اس میں کہیں دونوں طرف کا موقف بیان کرنے میں کوتاہی تو نہیں ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ امریکہ نے جو 2018ء کی امیگریشن پالیسی بنائی تھی، اسے چونکہ سپریم کورٹ نے بھی صحیح قرار دیا تھا، اس لئیے اس پر گفتگو عدالت کی توہین تو نہیں۔ توہینِ عدالت کی تلوار بھی ساتھ ہی لٹکادی گئی۔ کسقدر منافقت ہے کہ اس صدارتی امیدوار جوبائیڈن نے جو کہا ہے، آپ اس پر اسے عدالت میں نہیں گھسیٹتے، بلکہ میڈیا پر تلوار چلاتے ہیں تاکہ آئندہ میڈیا والوں کو سبق ہو جائے۔ اس وڈیو میں کیا ہے، جسے اب تک کروڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔ وڈیو انگریزی میں ہے، لیکن اس کی اردو سب ٹائٹلنگ کی گئی ہے، جو غالباً اردو سروس کے ناظرین کے لئیے تھی۔ وڈیو جو بائیڈن کے کلوزاپ میں کہے گئے اس فقرے سے شروع ہوتی ہے، ’’صدارت کے پہلے دن ہی میں مسلمانوں پر پابندی کا خاتمہ کردوں گا‘‘۔ اس کے بعد یہ ٹائٹل آتا ہے، ’’صدارتی امیدوار جوبائیڈن کا امریکی مسلمانوں سے خطاب، خطاب کا اختتام حدیث پر کیا گیا‘‘، اس کے بعد پھر جوبائیڈن کی تقریر کا وہ حصہ بتایا جاتا ہے جس میں یہ حدیث ہے۔ ’’پیغمبر اسلام‘‘ کی حدیث ہمیں سکھاتی ہے، ’’تم لوگوںمیں سے جو کوئی غلط ہوتا دیکھے اسے ہاتھ سے روکے، اگر ایسا نہ کرسکے تو زبان سے روکے، یہ بھی نہ کر سکے تو دل میں برا جانے‘‘۔ اس کے بعد جوبائیڈن کے وہ فقرے ہیں کہ ’’تمہاری آواز تمہارا ووٹ ہے اور مسلمان امریکیوں کی آواز بہت اہم ہے، میں ایک ایسا امریکی صدر بنوں گا جو روزمرہ کے معاملات میں مسلمانوں کے خیالات اور تجاویز کو سنے گا۔ میں مسلمانوں کو اپنی انتظامیہ کا حصہ بنائوںگا‘‘۔ اس کے بعد دکھایاگیا ہے کہ امریکہ کی مسلمان تنظیمیں جو بائیڈن کی حمایت کررہی ہیں، جن میں مسلمان اراکین کانگریس بھی شامل ہیں۔ آخر میں مختلف مسلمانوں کو دکھا کر یہ فقرہ لکھا ہوا ہے، ’’ہم تاریخ کا رخ موڑ سکتے ہیں‘‘ (We Can Change The Course Of History)۔ یہ صرف دو منٹ کی وڈیو ہے، جس کے نشر ہونے پر پوری امریکی نشریاتی دنیا میں ایک بھونچال آگیا ہے۔ اظہار رائے کی اخلاقیات کے داعی وائس آف امریکہ، دیگر امریکی ادارے اور یورپی میڈیا کی تو تاریخ ہی جھوٹ، فریب، دھوکے اور حقائق کو مسخ کرنے والی خبروں اور وڈیوز سے عبارت رہی ہے۔ آخری جھوٹ صدام حسین کے کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں بولا گیا تھا اور بار بار بولا گیا اور اس کے بعد لاکھوں لوگوں کو قتل کرکے معافی مانگ لی گئی تھی۔ صرف ایک ادارے بی بی سی کے نوے فیصد پروگرام کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں جھوٹ پر مبنی تھے اور اس مقابلے میں وہ لوگ جو لندن میں جنگ کے خلاف مظاہرے کررہے تھے، ان کو صرف 2فیصد دکھایا گیا تھا۔ مارچ 1968ء کی 16تاریخ کو، جب ویت نام میں ’’مائی لائی‘‘ کا قتل عام ہوا تھا، اس دن وہاں 649رپورٹر موجود تھے، لیکن ایک بھی قتل کی خبر نشر نہیں ہوئی تھی۔ میڈیا کی اس جھوٹ، فریب اور دھوکے کی تاریخ پر ہزاروں صفحات لکھے جا سکتے ہیں۔لیکن یہاں معاملہ کچھ اور بھی ہے اور وہ ہے، حضرت ابوسعید خذری کی روایت کردہ اس حدیث کا جو صحیح مسلم، مسند احمد بن حنبل اور سنن ابی دائود میں صحیح اسناد کے ساتھ موجود ہے۔ اس حدیث کو مسلمانوں کے ذہن سے کھرچنے کی کوششیں گذشتہ کئی سو سالوں سے ہورہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حدیث پہلے درجے پر اس شخص کے ایمان کو رکھتی ہے، جو برائی کو ہاتھ سے روکے اور ان لوگوں کو جو برائی کو دل سے بھی برا نہ سمجھیں انہیں تو ایمان کے نچلے درجے سے بھی خارج قرار دیتی ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد پرویزمشرف دور میں اس حدیث کو بیان کرنے والے علماء کو اٹھالیا جاتا تھا اور آج تک یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ یہ حدیث ایک ایسا ترازو ہے، جس میں ’’نہی عن المنکر‘‘ یعنی برائی کو روکنے کی ذمہ داری تو لی جاتی ہے۔ اس حدیث سے جہاں ستاون اسلامی ممالک کے سیکولر، لبرل آمر اور بادشاہ و حکمران خائف ہیں، وہیںآزادیٔ اظہار کا ’’ٹھیکیدار‘‘ میڈیا بھی بہت خوفزدہ ہے۔ اسی حدیث کے انکار پر ہی تو پورا قادیانی مذہب کھڑا ہے کہ مرزا غلام احمد سے یہ اعلان کروایا گیا تھا کہ میرے ’’نبی‘‘ ہونے بعد اب جہاد حرام ہوچکا ہے۔ کس قدر حیران کن بات ہے کہ یہ حدیث اس شخص کے منہ سے میرے اللہ نے نکلوائی، جو آٹھ سال امریکہ کا نائب صدر رہا اور اب صدارتی امیدوار ہے۔ میرے اللہ کا امر سب پر غالب ہے۔