’’آلاتِ‘‘ حاضرہ! – عطا ء الحق قاسمی
میں روزانہ ٹی وی چینلز پر مختلف سیاسی جماعتوں کے جلسے دیکھتا ہوں اور ان کے قائدین کی تقریریں سنتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے مقبول ترین لیڈر اس وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں۔ ان کی بیٹی مریم اور داماد بھی جیل میں ہیں، الیکشن سے پہلے ان سب کو قید کردینا چونکہ عدالتی فیصلہ ہے، لہٰذا میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ نواز شریف کو کچھ عرصہ قبل لندن میں ہارٹ سرجری کے دوران بہت زیادہ خون بہنے اور خون کی رفتار نہ رکنے کی وجہ سے ان کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہوگیاتھا۔ وہ اللہ کے فضل سے بچ گئے مگر تاحال وہ ہارٹ کے مریض ہیں، ان کی بیٹی مریم کو شوگر کا پرابلم ہے اور بیگم کلثوم نواز کئی ہفتوں سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، مگر اس کے باوجود نواز شریف اپنی بیٹی کے ساتھ جیل جانے کے لئے لندن سے پاکستان آئے۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے قائدین خصوصاً وزرائے اعظم اور ان کے خاندان کو اس طرح کے مراحل سے گزرنے کی روایت موجود ہے اور نواز شریف بھی اپنے ایک پیشرو ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پوری پامردی سے جسمانی اور ذہنی اذیت کا یہ عرصہ گزار رہے ہیں۔تاہم ایک خوشگوار حیرت یہ ہے کہ ان کی جماعت نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا، ورنہ ایسے حالات میں کنونشن لیگ کے قیام میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگا
کرتا تھا۔ صرف یہی نہیں نواز شریف کے بھائی شہباز شریف نے اپنی تمام تر توانائیاں انتخابی مہم پر صرف کردی ہیں، انہوں نے بہت بڑے بڑے اور پرجوش جلسے کرکے ثابت کردیا ہے کہ ایک تو وہ عوام میں کتنے مقبول ہیں اوردوسرے مسلم لیگی ووٹر مسلم لیگ(ن) پر بہت بڑی ابتلا کے باوجود پوری طرح اپنی جماعت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ شہباز شریف نے اس موقع پر اپنی لیڈری چمکانے کی بھی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی عوام کے لئے کئے گئے کاموں کا کریڈٹ اپنے قائد نواز شریف اور ان کی رہنمائی کو دیا۔ اس موقع پر حمزہ شہباز بھی پیچھے نہیں رہے، وہ بھی مختلف جلسوں سے خطاب کرتے رہے اور یوں جو لوگ دو بھائیوں میں اختلافات کا پروپیگنڈہ کرتے چلے آرہے تھے انہیں اس کا جواب خود بخود مل گیا۔ کچھ لوگوں نے یہ اعتراض بھی کیا کہ میاں نواز شریف کے لاہور پہنچنے پر شہباز شریف اپنی بہت بڑی ریلی ائیر پورٹ تک کیوں نہیں لے کر گئے۔ میں اس ضمن میں محمود صادق صاحب کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں کہ اس صورت میں بہت بڑی بدمزگی پیدا ہوتی اور اداروں سے ٹکرائو پیدا ہوتا اور یہ چیز ملک و قوم کیلئے خطرناک ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کا مفاد ہے، ہمیں اور اداروں کو بھی یہی مفاد ملحوظ رکھنا چاہئے۔
انتخابات سے عین تین دن پہلے حنیف عباسی کو افراتفری کے عالم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی، جس سے ایک بار پھر ٹکرائو کا اندیشہ تھا، مگرخدا کا شکر ہے کہ مسلم لیگ کے ووٹرز نے ملک و قوم کے مفاد میں یہ کڑوی گولی بھی نگل لی۔ مگر ہرمکتب فکر کے تجزیہ نگار نے اس فیصلے کو نہ صرف قبول نہیں کیا بلکہ فیصلہ سنانے والے جج کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ شیخ رشید کیلئے میدان خالی چھوڑ دینا الیکشن کی شفافیت پر ایک اور دھبہ تھا۔ حامد میر نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اس موقع پر عمر قید کی سزا حنیف عباسی کو نہیں سنائی گئی بلکہ متعلقہ جج نے یہ سزا خود کو سنائی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی ہماری صاف ستھری عدلیہ کی پاک دامنی کو کیوں داغدار کیا جارہا ہے۔ اچھے سے اچھے کام اور برے سے برے کام کو بھی سلیقے اور رکھ رکھائو سے کیا جاسکتا ہے لیکن سب کچھ بھونڈے طریقے سے ہورہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان کی جیت کے لئے راہ ہموار کی جارہی ہے مگر مجھے ایسا نہیں لگتاعمران خان کے کچھ نادان دوست ہونگے جو ایسا کررہے ہونگے اگر واقعی کررہے ہونگے مگر میں نہیں سمجھتا کہ بالغرض محال عمران کے کچھ نادان دوست کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو ایک ایسی کامیابی سے عمران کو دلی خوشی حاصل نہیں ہوگی، وہ عمر بھر ضمیر کی خلش کا شکار رہیں گے اور اگر انہوں نے ضمیر کو سمجھا بجھا کر سلادیا ہے تو بھی نہ تو وہ چل سکیں گے اور نہ ہی انہیں چلنے دیا جائے گا کیونکہ ان کے نادان دوست اس عرصے میں انکی اہلیت سے واقف ہوچکے ہوں گے۔
میں نے کالم کا آغاز نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفد ر کے قید و بند کے تذکرے سے کیا تھا، ان کی سزائوں کے حوالے سے قانون دان اپنی آراء کا اظہار کھل کرچکے ہیں، چنانچہ میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ رہا۔ نواز شریف نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا راستہ اپنی مرضی سے منتخب کیا ہے ، وہ اور انکا خاندان اس کی کڑی سزا بھگت رہے ہیں اور نواز شریف اس سے بھی کہیں کڑی سزا کیلئے ابھی سے سینہ سپر نظر آتے ہیں۔ وہ 68برس کی عمر میں ہارٹ کے مریض ہونے کے باوجود جیل میں کسی اضافی رعایت کے طلبگار نہیں، لیکن انہیں اور ان کی فیملی کو جیل میں میڈیکل کے مطابق سہولتیں تو فراہم کی جائیں۔
انہیں مختلف طریقوں سے ذہنی اذیت تو نہ پہنچائی جائے۔ ایک ہی جیل میں ہوتے ہوئے باپ، بیٹی اور داماد کو ملنے کی سہولت تو دی جائے اور آخر میں ایک درخواست میاں نواز شریف سے جو یہاں بہت عجیب لگے گی، مگر میڈیا کے اس دور میں بہت ضروری ہے اور وہ یہ کہ مریم اورنگزیب کی جگہ وہ کسی اور کو اپنا ترجمان مقرر کریں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Comments are closed.