اڈیالہ جیل یا ایک مذاق؟ – حامد میر
نواز شریف کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں بند کر دیا گیا ہے۔ 13جولائی کی شب لندن سے واپسی پر اُنہیں اڈیالہ جیل بھیجا گیا تو اُن کے کئی ناقدین اور سیاسی مخالفین کے لئے یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی کیونکہ الیکشن سے کچھ دن پہلے کسی سیاستدان کو جیل میں بند کرنے کے واقعات کو ہم اپنی تاریخ میں آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں۔ جس الیکشن میں نواز شریف کو زبردستی ایک بڑی اکثریت دلوائی گئی تھی وہ الیکشن 24اکتوبر 1990ءکو منعقد ہوا اور اس الیکشن سے صرف دو ہفتے قبل آصف علی زرداری کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس وقت تک زرداری صاحب باقاعدہ سیاست میں نہیں آئے تھے لیکن ان کی گرفتاری نے اُنہیں سیاستدان بنا دیا اور پھر انہوں نے جیل سے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ نواز شریف کو 25جولائی کے الیکشن سے 12دن قبل گرفتار کیا گیا۔ وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے لیکن اگر اُنہیں الیکشن سے پہلے ضمانت پر رہائی مل جاتی تو کم از کم چوہدری نثار علی خان کے لئے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا مشکل تھا۔ 17جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی درخواست ضمانت پر کارروائی کا آغاز ہوا اور سماعت 30جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔ اتنی لمبی تاریخ پر قانونی ماہرین بہت سے سوالات اٹھا رہے ہیں لیکن میں کسی قانونی بحث میں نہیں الجھتا۔ میری ناچیز رائے
میں نواز شریف کو 25جولائی سے پہلے ضمانت پر رہائی مل جاتی تو الیکشن کی کچھ نہ کچھ عزت باقی رہ جاتی۔ یہ بہت مشکل تھا تو کم از کم سماعت کو طویل عرصہ کے لئے ملتوی نہ کیا جاتا لیکن اس سماعت کو کئی دنوں کے لئے ملتوی کر کے نواز شریف کے لئے ہمدردیوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کچھ لوگ 25جولائی کے الیکشن کو ملتوی کرانے کے درپے تھے۔ الیکشن ملتوی نہ ہو سکا لیکن بدقسمتی سے 25جولائی سے قبل ہی اس الیکشن کی ساکھ مجروح ہو چکی ہے۔ کم از کم چھ اہم جماعتیں الیکشن سے پہلے سیاسی انجینئرنگ کی شکایت کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے علاوہ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی اور بی این پی کے سربراہ اختر مینگل کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم پاکستان کے کئی رہنما بھی یہ شکایات کر رہے ہیں کہ ایک مخصوص جماعت کو فائدہ پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے یا من پسند افراد کو جتوانے کے جتن کئے جا رہے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے 1990ء کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ مت بھولئے کہ 2002ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف پاکستان میں نہیں تھے۔ عدلیہ اور میڈیا بھی ایک ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی جیب میں تھے لیکن 10اکتوبر 2002ء کو ہونے والے انتخابات میں تمام ریاستی ادارے مل کر بھی مسلم لیگ (ق) کو سادہ اکثریت نہ دلوا سکے تھے۔
18فروری 2008ء کو ہونے والے الیکشن کے دنوں میں مجھ پر پابندی تھی۔ مشرف حکومت نے اس الیکشن سے قبل بنائی گئی نگران حکومت میں کچھ ٹی وی اینکرز کو شامل کر لیا اور کچھ ٹی وی اینکرز کو اسکرین سے غائب کر دیا لیکن وہ بھی مطلوبہ رزلٹ حاصل نہ کر سکے۔ گیارہ مئی 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کا شور صرف تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) والوں نے بھی مچایا لیکن چیف جسٹس ناصر الملک صاحب کے سامنے کچھ ثابت نہ کیا جا سکا۔ اب وہی ناصر الملک نگران وزیر اعظم ہیں اور 25جولائی کے الیکشن سے قبل ہی دھاندلی کا شور مچ چکا ہے لیکن اس کے باوجود 25جولائی کو وہ نتائج نہیں آئیں گے جن کی پیشین گوئیاں کی جا رہی ہیں اور الیکشن کے بعد آپ کو کچھ ایسے لوگ بھی روتے اور چیخیں مارتے نظر آئیں گے جو آج کل کسی اور کی طاقت کے بل بوتے پر فاتحانہ بڑھکیں مار رہے ہیں۔ ہوش مندی سے کام نہ لیا گیا تو 25جولائی کے بعد ملک میں ایک بہت بڑا سیاسی طوفان آئے گا اور اگر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے، اے این پی اور کچھ دیگر اہم جماعتیں اکٹھی ہو گئیں تو اس دفعہ نہ تو ق لیگ کام آئے گی اور نہ ہی جیپ والے کسی کی مدد کر سکیں گے۔ دو ریاستی اداروں کو اپنی ساکھ بچانے کے لئے جیلیں بھرنی پڑ جائیں گی۔ اڈیالہ جیل چھوٹی پڑ جائے گی۔
سیاسی لوگوں کو جیلوں میں بند کرنے سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بندش کسی مسئلے کا حل نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ 1993ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم بنیں تو انہوں نے ایف آئی اے کے ایک افسر رحمان ملک کو شریف برادران کے پیچھے لگا دیا۔ شہباز شریف کو گرفتار کر کے اڈیالہ جیل میں بند کر دیا گیا۔ میں کبھی کبھی شہباز شریف کو ملنے اڈیالہ جیل جایا کرتا تو وہ مجھے بتاتے کہ جیل میں اُن کے ساتھ بہت بُرا سلوک ہوتا ہے۔ اسی زمانے میں چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی سے بھی اسی جیل میں ملاقاتیں ہوتیں۔ ایک دن ہم اسلام آباد کے پنجاب ہائوس میں گورنر چوہدری الطاف حسین کے پاس بیٹھے تھے کہ وہاں ایک صاحب آئے اور ہمارے سامنے انہیں ایک دستاویز دی۔ گورنر صاحب نے دستاویز پر نظر ڈالی اور کہا پانچ نہیں سات سال۔ ان صاحب نے مودبانہ انداز میں وہ دستاویز واپس لی اور چلے گئے۔ پتہ چلا کہ یہ ایک جج صاحب تھے جو کلاشنکوف کیس میں شیخ رشید احمد کی سزا لکھ کر لائے تھے لیکن گورنر صاحب نے کم سزا پر ناگواری کا اظہار کیا۔ اگلے ہی دن میں اور عامر متین اڈیالہ جیل پہنچے اور شیخ رشید احمد کو بتایا کہ آپ کو سات سال قید ہونے والی ہے۔ شیخ صاحب نے جیل سے نواز شریف کو پیغام بھیجا کہ میری سزا کے خلاف شور مچائیں لیکن نواز شریف خاموش رہے۔ 1997ء میں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو سینیٹر سیف الرحمان نے جسٹس ملک قیوم کے ذریعہ آصف زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف فیصلہ حاصل کیا لیکن کچھ عرصہ بعد سیف الرحمان بھی اڈیالہ جیل میں زرداری صاحب کے ساتھ بند کر دیئے گئے۔ پھر میری گناہ گار آنکھوں نے مشرف دور میں احتساب عدالت کے اندر وہ منظر بھی دیکھا جب سیف الرحمان دھڑام سے آصف زرداری کے قدموں میں گرے اور معافی مانگتے ہوئے کہا میں نے نواز شریف کے دبائو پر آپ کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے۔
اسی اڈیالہ جیل میں جاوید ہاشمی کو ملنے جایا کرتا تھا تو وہاں یوسف رضا گیلانی سے بھی ملاقات ہوتی تھی۔ رحمان ملک بھی اسی اڈیالہ جیل سے مجھے خط لکھا کرتے تھے اور جس کھولی نمبر ایک میں رحمان ملک نے وقت گزرا یہاں آصف زرداری، شہباز شریف اور شیخ رشید بھی وقت گزار چکے ہیں۔ اب اسی کھولی نمبر ایک میں نواز شریف کو بند کیا گیا ہے۔ اڈیالہ جیل کے ویمن ونگ میں مریم نواز بند ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ایان علی کو بند کیا گیا۔ کیپٹن صفدر اس بات پر خوش ہیں کہ اُنہیں ایک ایسی جیل میں وقت گزارنے کا موقع ملا جہاں ممتاز قادری نے قید کاٹی تھی۔ اڈیالہ جیل میں سیاستدانوں کا آنا جانا لگا رہے گا۔ یہ سیاستدان جب حکومت میں ہوتے ہیں تو اس جیل کے باتھ روم بہتر بنانے پر توجہ نہیں دیتے جب اس جیل میں قید ہو جاتے ہیں تو باتھ روم کی خستہ حالی پر رونے لگتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں نے تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے اسی لئے بار بار جیل میں پہنچتے ہیں۔ وہ لوگ جو سیاستدانوں کو بار بار جیل بھیجتے ہیں انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ جیل کا خوف اب کوئی خوف نہیں رہا۔ آپ نے خود ہی قانون کو ایک مذاق بنا دیا ہے کیونکہ یہ قانون پرویز مشرف کے سامنے بے بس ہے۔ لوگوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ اڈیالہ جیل میں آصف زرداری اور نواز شریف تو جا سکتے ہیں لیکن مشرف نہیں جا سکتا۔ یہ جیل بھی ایک مذاق بن گئی ہے اور یہی ہماری ریاست کا بڑا المیہ ہے۔
Comments are closed.