ایماندار ’’سول سرونٹ‘‘ پر کاری وار
مجھے وہ دن، وہ وقت اور زمان پارک کا وہ گھر اچھی طرح یاد ہے جب عمران خان صاحب، موجودہ وزیراعظم پاکستان اور حال مقیم بنی گالہ اپنے اس آبائی گھر میں اکثر جلوہ افروز ہوا کرتے تھے۔ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کا شٹل کاک مصطفیٰ کھر کہلاتا تھا ویسے ہی خان صاحب کا شٹل کاک ہمارا دوست حفیظ اللہ نیازی تھا۔ وہ اکثر خان صاحب کو اپنے صحافی دوستوں سے متعارف کروانے کے لئے اپنے ہاں کھانے کا اہتمام کرتا رہتا۔ ایک وسیع دسترخوان رکھنے والا یہ نیازی اپنے اس برادر نسبتی عمران خان کا حاشیہ بردار تھا اور فریفتہ بھی۔ ایسی ہی ایک محفل جو زمان پارک کے گھر میں 2003ء میں برپا تھی، اس میں دیگر احباب کے ہمراہ میں بھی شریک تھا۔ میں چونکہ صحافی نہیں تھا، سرکاری ملازم تھا اور دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے کالم لکھتا تھا، اس لئے میں بہت کم ایسی محفلوں میں شریک ہوتا اور بہت کم سوال کرتا۔ ان دنوں نیب کا بہت چرچا تھا کہ وہ ’’سیاسی انجینئرنگ‘‘ کررہی ہے۔ اس دن عمران خان محفل میں بہت سیخ پا تھے کہ ان کے فرسٹ کزن، ان کی والدہ محترمہ شوکت خانم کے بھانجے، ایوب خان کے منظور نظر جنرل برکی کے بیٹے، سابق کپتان کرکٹ ٹیم اور سابق بیوروکریٹ جاوید برکی کو نیب اٹھا کر لے گئی تھی۔ جاوید برکی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے کزن مزمل نیازی کے ساتھ ایک کمپنی ’’ٹرانس موبائل‘‘ چلا رہا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے جنرل اسلم بیگ کے زمانے میں فوج کو ٹرک سپلائی کرنے کے ٹھیکے میں گھپلے کرنے کیلئے سرکاری اثرورسوخ استعمال کیا۔ جاوید برکی ان دنوں بحیثیت فیڈرل سیکرٹری تعینات تھا۔ زمان پارک کے اس گھرمیں احباب کی اس محفل میں عمران خان سخت غصے میں بولے جارہے تھے کہ جاوید برکی کو مجھ پر دبائو ڈالنے کیلئے اٹھا یا گیا ہے۔ عمران خان کا اپنے بیوروکریٹ کزن کی گرفتاری پر غصہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی گونج عالمی اخبارات میں بھی دیر تک سنائی دیتی رہی۔ برطانیہ کے اخبار ’’The Times‘‘ کی 27جون 2003ء کی اشاعت میں سرورق پر ’’آئیوؤٹینینٹ‘‘کا مضمون شائع ہوا۔ یہ وہی آئیوؤ ٹینینٹ ہے جس نے عمران خان پر 1994ء میں کتاب تحریر کی تھی۔ اپنے اس مضمون میں ٹینینٹ نے لکھا کہ عمران خان کے کزن جاوید برکی کو گذشتہ چھ ماہ سے ایک ’’فوجی انتظام‘‘کے تحت چلنے والے ادارے ’’نیب‘‘ نے گرفتار کیا ہوا ہے۔ اس پر چھ ماہ ہو چکنے کے بعد بھی کسی قسم کی فرد جرم نہیں عائد کی گئی اور نہ ہی الزامات کی فہرست جاری ہوئی ہے۔ یہ خالصتاً ’’سیاسی دبائو‘‘ہے جو ’’ذاتی دشمنی‘‘کا نتیجہ ہے۔ اس دن، عمران خان اس نیب کیس کے بارے میں بتارہے تھے کہ میں جاوید برکی کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، وہ ایک ایماندار بیوروکریٹ رہا ہے لیکن اسے میری وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ خان صاحب کے غصے اور پریشانی کو دیکھ میں نے محفل میں صرف ایک بات کی کہ جس دن سے ذوالفقار علی بھٹو نے سول سرونٹ کے لئے ’’آئینی تحفظات‘‘ ختم کیں اس دن سے پوری سول سروس سیاست دانوں اور فوجی آمروں کے رحم و کرم پر آگئی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان صاحب نے میری اس دلیل کی تائید بھی کی تھی اور اس کی حمایت میں چند فقرے مزید بھی کہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے 1973ء کے سول سرونٹ ایکٹ نے جو آئینی تحفظات ختم کئے تھے، اس کے خلاف ایماندار بیوروکریٹس نے مسلسل بہت جدوجہد کی تھی۔ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا کر وہ کسی حد تک اپنے لئے عدالتی احکامات اور فیصلوں سے تحفظات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور یوں اب ایک ایماندار سول سرونٹ کو نوکری سے نکالنا یا اس کی ترقی کو روکنا خاصہ مشکل بن چکا تھا۔ لیکن 15اپریل 2020ء کو آنے والے سول سروس رولز نے پوری سرکاری بیوروکریسی کی کمر ہی مکمل طور پر توڑ کر رکھ دی ہے۔ یہ رولز ایسے ماحول میں لائے گئے ہیں، جس میں بیوروکریسی کی اکثریت پہلے ہی سیاسی گروہ بندی میں تقسیم ہے اور ہر جائز و ناجائز کام کرنے پر آمادہ ہے۔ ایسے ماحول میں ان نئے رولز کے نفاد کے بعد ایک ایماندار اور اہل سول سرونٹ کا نوکری میں سانس لینا بھی مشکل ہو جائے گا۔ پاکستان کی تاریخ کے ابتدائی دس سالوں میں جس ادارے نے پاکستان کو سنبھالا دیا، اسے پائوں پر کھڑا کیا اور اسے ایوب خان کے مارشل لالگنے تک ایک بھرپور معاشی قوت بنایا، وہ یہی انگریز کی تیار کردہ بیوروکریسی تھی۔ ایوب خان کے مارشل لانے اس پر دبائو توڈالے، لیکن اس دور میں آئینی تحفظات کی وجہ سے ایک ایماندار آفیسر ناجائز احکامات ماننے سے انکار کی جرأت کر لیتا تھا۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے سول سرونٹ ایکٹ نے ان کی کمر دھری کر کے رکھ دی۔ بھٹو نے آغاز میں ہی چودہ سوافسروں کو نوکری سے نکال کر یہ خوف دلوں میں بٹھانے کی کوشش کی کہ جو کوئی اسکا حکم نہیں مانے گا، اس کا انجام ایسا ہی ہوگا۔ ان آفیسران میں الطاف گوہر بھی شامل تھے، جنہوں نے بھٹو کے چھبیس اسلحہ لائسنسوں کی موجودگی میں انہیںستائیسواںلائسنس نہیں دیا تھا اور بشارت رسول بھی تھے، جنہوں نے ڈی سی لاڑکانہ کی حیثیت سے بھٹو کی زمینوں پر سرکاری ٹریکٹر مفت استعمال کے لئے نہیں دیا تھا۔ ساری لسٹ ذاتی دشمنیوں کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔ یہاں تک کہ کوثر نیازی کو پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار محمد افضل سے ذاتی پرخاش تھی، اس بیچارے کا بیوروکریسی سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ اس کا نام بھی ڈال کر چودہ سو کا ہندسہ پورا کیا گیا اور لوگوں کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ ضیاء الحق نے اپنے دور میں کافی لوگوں کو واپس لانے کے احکامات جارکیے لیکن آئینی تحفظات بحال نہیںکیے۔ اس لئے اب کسی کو بھی ایک آزاد، ایماندار اور مضبوط سول سروس نہیں چاہیے تھی۔ سب اسے اپنے رحم و کرم پر رکھنا چاہتے تھے، اور اسے موم کی ناک اور مرغ باد نما بنانا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ضیاء الحق کے بعد سے پاکستان کی سول سروس، سیاست دانوں کے دروازوں کی دربان بن چکی ہے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے اپنے اپنے بڑے گروپ بنالئے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے اپنے بیوروکریٹ ہیں اور اسی طرح بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں جمیعت، ، بی این پی اور اے این پی کے اپنے اپنے بیوروکریٹ ہیں۔ ایک پارٹی کا ایمانداراور دوسری کا کرپٹ اور دوسری کا ایماندار پہلی کا کرپٹ تصور ہوتا تھا۔ لیکن عمران خان صاحب کی موجودہ ریفارمز سول سروس میں ایک ایسا ماحول پیداکردیں گی، جس میں ہر کوئی یہ سمجھنے لگے گا کہ اس کے پاس اب نوکری کی ’’مہلت‘‘ بہت کم ہے۔ پہلے ایک بیوروکریٹ اوسطاً 32سال کی نوکری کرتا تھا، لیکن وہ بیس گریڈ میں سترہ سے بیس سال تک پہنچ جاتا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت اب بیس گریڈ پر پہنچتے ہی اسے نوکری سے فارغ کیا جاسکتا ہے۔ فارغ کرنے کی وجوہات کمال کی ہیں، (۱) اس کے باس نے اسکی خفیہ رپورٹس منفی لکھی ہوں، دو دفعہ اسے ترقی نہ دی گئی ہو، اس نے کسی کیس میں پلی بارگین کیا ہو یا پھر پرموشن بورڈ نے اسے کیٹگری (c)میں رکھا ہو۔ ان تمام میں پلی بارگین کی شق کو چھوڑ کر باقی تمام شقیں ایک ملازم کو اعلیٰ سرکاری آفیسروں کے رحم و کرم پر رکھ دیں گے۔ اگر کسی پرنسپل سیکرٹری یا سیکرٹری نے سیاست دان کا ناجائز حکم نیچے پہنچایا اور اس پر ایماندار آفیسر ڈٹ گیا، حکم ماننے سے انکار کردیا، تو پھر خفیہ منفی رپورٹس اس کا کیرئیر اس خاموشی سے اس طرح تباہ کردیں گی کہ اسے پتہ تک نہ چلے گا اور وہ سترہ سال بعد نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ دوسری جانب بددیانت آفیسر یہ سمجھے گا کہ پہلے وہ جتنا کچھ 32سال میں کماتا تھا، اب اسے صرف سترہ سال میں ہی کمانا ہے۔ خوب کمائو، جوانی میں ریٹائر ہو کر الیکشن لڑو اور ممکن ہو تو وزیر بھی بن جائو۔ عمران خان صاحب کے یہ رولز ایک ایماندار بیوروکریٹ کا گلا گھونٹ دیں گے اور بے ایمان کی بددیانتی اور کرپشن کو تیز سے تیز تر کردیں گے۔