بہت بے آبرو ہو کر
بھارت کو اس خطے سے نکل جانے کا اشارہ آج سے آٹھ سال پہلے ہی مل چکا تھا، جب امریکہ نے باراک اوباما کے زمانے میں افغانستان کے محاذ سے بوریا بستر لپیٹنے کا ارادہ کیا تھا۔ امریکہ کے تمام تھنک ٹینک اسے متنبہ کر رہے تھے کہ اگر امریکہ مزید اس جنگ میں الجھا رہا تو ایک دن ایسا آئے گا کہ خاموشی سے معاشی ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا چین، امریکہ کا اس خطے سے بوریا بستر گول کردے گا۔ 16دسمبر 2010ء کو باراک نے اعلان کردیا کہ وہ افغانستان سے امریکی فوجوں کو مرحلہ وار واپس بلائے گا۔ اس فیصلے پر 13جولائی 2011ء کو عمل درآمد شروع ہوا جب 650امریکی فوجیوں کا پہلا قافلہ وطن واپس روانہ ہو گیا۔ شکاگو میں 21مئی2012ء کو نیٹو کانفرنس ہوئی اور طے ہو گیا کہ 2013ء کے وسط تک افغان افواج کو کمان دے دی جائے گی اور دسمبر 2014ء تک افغان سرزمین پر موجود نیٹو ممالک کی ایک لاکھ تیس ہزار افواج واپس چلی جائیں گی۔ بھارت سے افغانستان میں دو ارب ڈالر کے قریب سرمایہ کاری کروائی گئی۔ اسے افغان پولیس اور خفیہ اداروں کو ٹریننگ دینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ان خدمات کے صلے میں بھارت کو افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی مکمل اجازت تھی۔ بلوچستان میں تمام افراتفری اور مسلح کارروائیوں کو افغانستان میں بیٹھ کر ہی کنٹرول کیا جاتا تھا اور ایک بہت بڑا نیٹ ورک وہاں بھارتی کونسل خانوں کے زیرِسایہ کام کرتا تھا جس کا کام سرمایہ فراہم کرنا، ٹریننگ دینا اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں کومنظم کرنا تھا۔ بھارت کا افغانستان میں صرف اور صرف ایک ہی مفاد تھا کہ وہ اس سرزمین پر بیٹھ کر پاکستان کو مغربی جانب سے بھی غیر محفوظ بنادے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امریکی حکومت اور نیٹو نے افغانستان سے نکلنے کا یکطرفہ فیصلہ کیا توبھارت بہت تلملایا۔ امریکہ کو ایسا ساتھی قراردیا گیا، جو بغیر بتائے پیٹھ میں خنجر گھونپتا ہے۔ اب بھارت نے براستہ ایران، افغانستان میں داخل ہونے پرمزید توجہ دینا شروع کیا۔ بھارت ایک طویل عرصے سے افغانستان کے مفاد کو پاکستان سے توڑکر ایران کے راستے دنیا سے جوڑنے پر کام کر رہا تھا اور اس نے افغانستان 152 ملین ڈالرز کی لاگت سے دلاآرام سے زرنج تک 218کلومیٹر روڈ جنوری 2009ء میں مکمل کرکے افغان حکومت کے حوالے کی تھی۔ یہ سڑک افغان علاقوں ہیلمند اور نیمرروز سے گزر کر ایران میں داخل ہوتی ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستانی بندرگاہ کراچی پر افغانستان کا انحصار ختم کرکے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار سے جوڑ دیا جائے۔ اسی مقصد کے لئے بھارت نے چاہ بہار کی بندرگاہ کو بہتر بنانے اور اس کا انتظام و انصرام اپنے پاس رکھنے کا بھی معاہدہ ایران سے کیا ہوا تھا۔ اس سارے علاقائی منظرنامے میں بھونچال اس وقت آیا جب جون 2013ء میں طالبان نے قطر کے شہر دوہا میں اپنا دفتر قائم کیا اور اماراتِ اسلامی افغانستان کا پرچم لہرادیا۔ اس دفتر کو کھولنے کے پیچھے لاتعداد مقاصد چھپے ہوئے تھے۔ امریکہ سمجھتا تھا کہ اس طرح طالبان قیادت کے ساتھ افغان حکومت کے مذاکرات اور گفت و شنید سے ایک ایسا افغانستان معرضِ وجود میں آسکتا ہے جو امریکہ اور عالمی طاقتوں کے لئے قابلِ قبول ہو گا، یعنی ایک نیم سیکولر، نیم اسلامی افغانستان۔ لیکن طالبان کی استقامت نے امریکہ کے سارے منصوبے خاک میں ملادیئے۔ امریکہ اپنے پیچھے ایسا افغانستان کو چھوڑ کر جانا چاہتا تھا جس میں اس کا عمل دخل موجود رہے اور اگر ایساممکن نہ ہو تو پھر منقسم اور منتشر افغانستان باقی رہے۔ آج آٹھ سال گذرنے کے بعد امریکہ کے دونوں خواب چکنا چور ہو گئے اور امریکہ کو افغانستان طالبان کے حوالے کرنا پڑرہا ہے جو اسے پرامن رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس ملک کے خواب مکمل طور پر ٹوٹے ہیں اور جسے تقریباً کان سے پکڑ کر اس خطے سے نکالا گیا ہے وہ بھارت ہے۔ چاہ بہار کی بندرگاہ سے افغانستان کو ملانے کا خواب اسی دن چکنا چور ہو گیا تھا جب طالبان نے زرنج دلاآرام روڈ کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور یہ قبضہ آج تک قائم اور مستحکم ہے۔ اس کے باوجود بھارت افغانستان میں براستہ ایران موجود رہنے کے لئے مسلسل کوشش کرتا رہا۔ لیکن جیسے جیسے امریکہ کے ساتھ طالبان کے مذاکرات کامیاب ہوتے گئے، اسی رفتار سے بھارت کی افغانستان سے رخصتی کا وقت قریب آتا گیا۔ افغانستان اور عراق جنگ میں الجھے ہوئے امریکہ کو یہ احساس تک نہ ہوسکا کہ کچھوے کی چال چلتا ہوا چین نہ صرف اقتصادی بلکہ علاقائی عسکری بالادستی کے معاملے میں بھی بہت آگے نکل چکا ہے۔ اپنی معاشی قوت کے بل بوتے پر وہ خطے کے ممالک کو جن مراعات اور سرمایہ کاری کی پیش کش کرسکتا ہے، امریکہ کا بجٹ اب اس کا مقابلہ کرنے کا متحمل ہی نہیں ہے۔ دوسری جنگِ عظیم سے لیکر اب تک امریکہ، ستر سال سے بحرھند اور بحراوقیانوس کے علاقوں پر مکمل اختیار رکھتا تھا۔ جاپان کے ساحلوں سے فلپائن، انڈونیشیا، ویت نام اور کوریا جیسے ممالک پر اس نے اپنی طاقت سے اپنا غلبہ مسلط کیا ہوا تھا۔ اپنا یہ اختیار قائم رکھنے کیلئے اس نے ویت نام، لاؤس، کمبوڈیا اور کوریا جیسے ممالک میں طویل جنگیں لڑیں، لیکن مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان میں الجھ کر امریکہ نے اپنا اسقدر نقصان کرلیا ہے کہ اب دوبارہ اسے علاقے میں غلبہ قائم رکھنے کیلئے اسے ایک نئے اتحاد کی بنیاد رکھنا پڑی۔ 2019ء سے پہلے اقوامِ متحدہ اور عالمی طاقتوں نے ایک علاقائی تقسیم کر رکھی تھی جسے ایشیاء پیسفک کہتے تھے۔ اس میں افغانستان سے لے کر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے اردگرد کے جزائر شامل کئے گئے۔ اس ریجن کے لئے بنکاک میں اقوامِ متحدہ کا ایک علاقائی دفتر بھی قائم کیا گیا تھا۔ یہ اچھے دنوں کی بات ہے، جب چین بھی اس کا رکن تھا۔ لیکن گذشتہ سال سے امریکہ نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ایک نئے اتحاد کا آغاز کیا ہے جس کا نام انڈوپیسفک ہے۔ اس اتحاد میں افغانستان، پاکستان اور چین شامل نہیں۔ اس خطے کے لئے امریکہ نے باقاعدہ انڈوپی کوم کے نام سے اپنی افواج کی ایک کمان بھی بنائی ہے۔ اس ضمن میں امریکہ نے جاپان اور بھارت کے تعلقات کو بہتر بنوایا، تاکہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت کے مقابلے میں استعمال کیا جاسکے۔ خطے کے پندرہ ممالک کو بھارت اور جاپان کے گرد جمع کیا جارہا ہے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو چین کے خطرے سے ڈرایا گیا ہے۔ لیکن دوسری جانب چین نے بھی ان تمام چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے جو بھارت کے غلبے سے تنگ تھیں۔ افغانستان میں بھی اس وقت سب سے زیادہ سرمایہ کاری چین کی ہے۔ بھارت اور اس خطے کے دیگر ممالک کے بارے میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ سمند کے ساتھ آباد ممالک کو امریکی اثرورسوخ کے تحت منظم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور چین اپنے اردگرد اس سے تنگ ہوتے ہوئے اس گھیرے سے باہر نکلنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔ پہلے اس کے لئے پاکستان ایک راستہ تھا جس کے ذریعے وہ افریقہ، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ تک پہنچ سکتا تھا۔ اب ایران سے معاہدے کے بعد وہ براستہ آزربائیجان اور ترکمانستان یورپ ممالک تک رسائی حاصل کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ 2011ء میں بھارت کی افغانستان میں رہنے کی جو امید ٹوٹی تھی اور اس نے ایران کی رسی پکڑی تھی، اب وہ رسی بھی اس کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ امریکہ نے چین کے مقابل آنا تو ہے لیکن زمین پر چین سے جنگ صرف ایک ملک کے ذریعے ہی کی جاسکتی ہے اور وہ ہے بھارت اور اس جنگ کا انجام بھارت کی مکمل تباہی ہے۔ سید الانبیاء ؐ نے اسی کی تو خبر دی تھی، ’’ہند کی بربادی چین سے‘‘۔