تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ پنجاب
پرویز مشرف کی آمریت کے کندھوں پر سوار ہوکر جو لبرل اور سیکولر ملحدین کا جتھہ اس ملک پر مسلط ہو اتھا، مشرف کے جانے کے بعد بھی آج تک جمہوری حکومتوں کی راھداریوں میں زہریلے ناگوں کی طرح پھنکارتا پھر رہا ہے۔ ان کے زہر کا نشانہ اس ملک کی آئندہ آنے والی نسلیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صرف اور صرف نظامِ تعلیم اور خصوصاً نصابِ تعلیم پر حملہ کیا اور اس میں سے ہر اس تصور کو کھرچنے کی کوشش کی جس کا تعلق ہماری اسلامی اساس، طرزِ معاشرت، خاندانی زندگی اور اخلاقی اقدار سے تھا۔ انہوں نے ان تمام تعلیمات کو نظامِ تعلیم سے نکالنے کے بعد ان کی جگہ جدید مغربی تہذیب، ان کی طرزِ زندگی اور ان کے ہیروز کے متعلق لکھے گئے تحریری مواد کو رنگین، جاذبِ نظر اور تصوراتی خوبصورتی میں لپیٹ کر نصاب کا حصہ بنادیا۔ انہیں اس اسلامی ملک پاکستان میں اپنی اس بے بسی اور مجبوری کا احساس تھا، کہ وہ فوراً اسلامی تاریخ کے صفحات کتابوں سے نہیں نکال سکتے تھے۔ ایسا کرتے تو ملک بھر میں ہنگامہ کھڑا ہو جاتا۔ انہیں دل پر بھاری پتھر رکھ کر سید الانبیاء ﷺ، اہل بیت، صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کو کتابوں میں مجبوراً جگہ دینا پڑی۔ ایسا کرتے ہوئے بھی وہ شرارت سے باز نہ آئے۔ انہوں نے ایک مکارانہ طریقۂ تحریر اپنایا جو انتہائی خطرناک تھا۔ ایک مسلمان بچہ شروع دن ہی سے جب رسول اکرم ؐ، صحابہ کرام یا اہل بیت کا نام لیتا تھا تو وہ ان کے ساتھ ادب و احترام کے سابقے اور لاحقے لازماً استعمال کرتا تھا۔ اس کے نزدیک ’’ﷺ‘‘ رسول اکرم کے نام کا حصہ تھا، اسی طرح ’’علیہ اسلام‘‘ تمام پیغمبروں کے نام کا جز اور ’’رضی اللہ تعالیٰ‘‘ تمام صحابہ اکرام اور اہل بیت کے ناموں کے ساتھ لکھنا اور بولنا لازم سمجھا جاتا تھا۔ جوبچہ یا بڑا ایسا نہ کرتا تو اسے اپنے ہی دوست نہ صرف حیرت سے دیکھتے بلکہ سختی سے اس کی سرزنش بھی کرتے۔ یہ ہم ایک معاشرتی ذمہ داری کے طور پر آج بھی ادا کرتے تھے۔ یہ تمام احترامی القابات جو اسلامی شعار کا حصہ سمجھے جاتے ہیں، انہیں سب سے پہلے انگریزی میڈیم کی نصابی کتابوں سے حذف کیا گیا۔ اسلامیات کی وہ کتابیں جو ایسے بچوں کو دی گئیں جو ’’اے لیول‘‘ یا ’’او لیول‘‘ میں پڑھتے تھے، ان میں اکثر غیر ملکی مصنفین کی لکھی ہوئی ہوتیں اور ان کو بیرون ملک ہی سے درآمد کیا جاتا۔ ایسی کتب میں وہ تمام احترامی القابات ناپید ہوتے، مثلاً فقرے یوں ہوتے، ’’Abubakar Said To Ali‘‘ یا پھر یوں ’’Ayesha Told About Fatima‘‘، ایسا طرزِ کلام اور طرزِ تحریر ان کتابوں میں اختیار کیا گیا ہوتا۔ اگر کوئی غصے میں آکر اعتراض کرتا تو اس کا جواب یہ دیا جاتا کہ وہ دیکھو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ’’Jesus‘‘ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی تو ’’Moses‘‘ بھی تو لکھا ہوا ہے۔ کیا عیسائی اور یہودی اپنے پیغمبروں کی عزت نہیں کرتے۔ اسطرح خاموشی سے ایک سیکولر تصورِ تعلیم نافذ ہوتا چلا گیا جس کے تحت دنیا کا ہر ہیرو یا اہم شخص دراصل ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ ’’الیگزینڈر‘‘ سے لے کر ’’سیزر‘‘ تک اور ’’چنگیز خان‘‘ سے لے کر ’’جارج واشنگٹن‘‘ تک سب تاریخی شخصیات ہی تو تھیں جنہوں نے تاریخ کے چہرے پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اسی طرح تمام مذہبی شخصیات بھی اب اسی تاریخ ہی کا حصہ ہیں، اسلئیے سب کا برابر احترام اور سب سے برابر سلوک ضروری ہے۔ اگر ہم باقیوں کے ناموں کے ساتھ کچھ سابقہ لاحقہ استعمال نہیں کرتے تو پھر رسولِ اکرم ﷺ، حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام لکھنا عجیب لگتا ہے۔ اس تصور کو راسخ کرنے کیلئے پوری دنیا میں جتنے بڑے بڑے تاریخی ہیروز ہیں، ان کی مختصر سی سوانح عمریاں بھی نصابی کتابوں میں داخل کی گئیں جو ایسے لکھی گئی تھیں جیسے ان کی شخصیت میں کوئی خامی، خرابی نہیں تھی۔ مثلاً الیگزینڈر جو ایک انتہائی ظالم اور قاتل شخص تھا، جس نے پورے تھیبس (Thebis) شہر کے قتلِ عام میں ایک سال کے بچے سے لے کر نوے سال کے بوڑھے تک ہر مرد و زن کو قتل کیا، جس نے ایران کا کتب خانہ جلایا، پارسیوں کی عبادت گاہ کو مسمار کیا، ایسے ظالم اور غیر انسانی خصوصیات والے شخص کو کتب میں ایک فاتح، ہیرو اور کامیاب انسان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کا نام ’’الیگزینڈر دی گریٹ‘‘ لکھا جاتا ہے۔ یہی حال تاریخ کی دوسری شخصیات کا ہے جیسے انسانی کھوپڑیوںکے مینار بنانے والے اور شہروں کو آگ لگانے والے چنگیز خان کی جو مختصر سوانح عمری بچوں کو پڑھائی جاتی ہے، اس میں اس کی کامیابیوں کی داستان کو آئیڈیل بنانے کے لئیے اس کی فتوحات کو عظمت (Glory)کامینار بتایا جاتا ہے۔ یہ تو تھی تاریخ کی داستانیں جن کو بیک وقت مذہبی داستانوں سے ملا کر یوں پڑھایا جاتا ہے تاکہ ایک بچہ دونوں میں تمیز نہ کرسکے اور وہ اپنی محبوب ترین ’’پرعظمت اسلامی شخصیات‘‘ کا بھی ذہن پر اتنا ہی اثر لے جتنا دیگر شخصیات کا لیتا ہے۔ عموماً ہمارے ہاں بڑوں میں بھی وہ کتابیں بہت مقبول سمجھی جاتی ہیں جن میں شخصیات کی ایک ترتیب وار فہرست مرتب ہوتی ہے۔ ان کتابوں میں شخصیتوں کے ناپنے کے تمام پیمانے دنیاوی، مادی اور سیکولر نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ہم ان کتابوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ دیکھو اس مصنف نے نبی اکرم ﷺ کا نام سب سے اوپر رکھا۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسی کتابوں میں کہیں گاندھی اور مارٹن لوتھر کنگ اوپر ہوتے ہیں اور حضرت علی ؓاور حضرت ابوبکرؓ نیچے ہوتے ہیں۔ ایسی کتابوں کو لکھنے اور ان کی اشاعت کا بنیادی مقصد صرف ایک ہوتا ہے کہ انسان کی کامیابی کو اس مادی دنیا کے سیکولر پیمانوں سے ناپا جائے۔ جو شخص ان پیمانوں کے مطابق دنیا میں کامیاب نہیں نظر آتا، اسے بڑے لوگوں کی فہرست سے خارج کر دیا جائے۔ اس پیمانے کے مطابق ہزاروں پیغمبر کامیاب انسانوں کی فہرست سے خارج ہوجاتے ہیں، کیونکہ روزِ محشر ایسے لاتعداد پیغمبر ہوں گے جن کے پیچھے ایک بھی امتی نہیں ہوگا۔ اسی عمومی تصور کو سامنے رکھ کر دنیا بھر میں نصاب بھی ترتیب دئیے جاتے ہیں۔ مذہبی تاریخی شخصیات کو سیکولر تاریخی شخصیات کے رنگ روپ میں تحریر کرنے کا طریقہ ہی اسی لئیے اختیار کیا جاتا ہے تاکہ بچوں بلکہ بڑوں کے دل سے بھی اس احترام کو ختم کیا جائے جو ان کا اپنی مذہبی شخصیات سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے ایک اور چال پوشیدہ بھی تھی اور وہ یہ کہ بچوں کے دماغ میں یہ بات ذہن نشین کروادی جائے کہ کامیابی اور ناکامی کے تمام میعارات صرف اور صرف اس دنیا ہی تک محدود ہیں۔ جو یہاں ناکام ہے وہ کتنا بھی آخرت کی زندگی میں کامیاب ہو، وہاں کی نعمتوں سے سرفراز ہو، شخصیت ناپنے کے سیکولر پیمانے کے مطابق ناکام ہی کہلائے گا۔ کس قدر عیاری سے بچوں کے دلوں سے مذہب اور اس سے وابستہ شخصیات کا احترام ختم کیا گیا اور اس کا پہلا زینہ ان اسلامی شخصیات کے ناموں سے وابستہ احترامی القابات کا ہٹانا تھا۔ گذشتہ بیس سالہ دور کی سیکولرلبرل اخلاقیات نہیں بلکہ بداخلاقیات کے سیلاب پر پہلا بند حکومتِ پنجاب نے ’’تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ 2020ئ‘‘ کی صورت باندھا ہے، اس ایکٹ کے تحت ان تمام اسلامی شخصیات کے ساتھ وہ تمام سابقے اور لاحقے لگانا لازم قرار دئیے گئے ہیں جو اسلامی شعار کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ رسولِ اکرم ؐ، صحابہ کرام، اہل بیت و اطہار، کتب آسمانی، پیغمبروں، امہات المومنین، خلفائے راشدین وغیرہ کے بارے میں تنقید و تنقیص اور تمسخر کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔ ایسے جرم کی سزا پانچ سال قید رکھی گئی ہے۔ یہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا تقریباً تیس سال کے بعد آیا ہے۔ تیس سال سے ہمارے نصاب کو جس طرح زہر آلود کیا گیا، جیسے ایک سازش کے تحت ہماری نسلوں کو دین سے بیگانہ کیاگیا، اس میں نوازشریف سے بے نظیر اور زرداری تک سب کے سب مشرف کی سیکولر آمریت کے ساتھی نظر آتے ہیں۔ لیکن اللہ جسے توفیق دے، یہ اس کی عنایت ہے۔ اس نے یہ سہرا عثمان بزدار کے سر سجایا ہے اور وہی تحسین کا مستحق ہے۔ یقینا یہ ایکٹ آنے والے دنوں میں اپنے نام کی طرح ایک بنیاد ثابت ہوگا۔ کاش ! عمران خان صاحب بھی پورے ملک میں اسے نافذ کرکے یہ سہرا اپنے ماتھے پر بھی سجا لیں۔