تیسری عالمگیر جنگ: کیا محاذ گرم ہوچکا

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

جس تیزی سے یہ پورا خطہ جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے، اس کا اندازہ یہاں کی حکومتوں اور عوام کو تو شاید نہ ہو، لیکن چین جس کی تباہی کے لئیے یہ میدانِ جنگ سجایا گیا ہے، اسے اس کا بخوبی علم ہے اور وہ گذشتہ دس سال سے ایک ایسے جاندار کی طرح پنجوں پر کھڑا ہے جسے خونخوار درندوں نے گھیر رکھا ہو۔ امریکی صدر ’’بارک اوباما‘‘نے 2016ء میں بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، کہ بھارت اور امریکہ اکیسویں صدی کے مشترکہ دوست اور مشترکہ دشمن رکھتے ہیں اور بھارت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ تم ’’اب صرف مشرق کی سمت دیکھو‘‘۔ اس مشورے کا مطلب یہ تھا کہ جاپان، بھارت اور آسٹریلیا کا اتحاد بننا چاہیے جو اس خطے میں چین کی ترقی کو لگام ڈال سکے۔ اسی سال وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے انڈونیشیا کو تیسری بڑی جمہوریت اور جی 20کے ممبر کی حیثیت سے اپنے مشترکہ دوستوں کی فہرست میں ازسرنو شامل کیا تھا۔ امریکہ اس ریجن میں دوستوں کی تلاش میں اس لئے نکل کھڑا ہوا کیوں کہ اس کے معاشی ماہرین نے2008ء میں یہ خبر دے دی تھی کہ گذشتہ دس سالوں کی جنگوں نے امریکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور وہ اب ایک مسلمہ عالمی طاقت کی حیثیت سے کسی بڑی جنگ کو تنہا لڑنے کے قابل نہیں رہ گیا۔ اس زوال کی وجوہات میں (۱) دہشت گردی کے خلاف جنگ (۲) بجٹ کے اندر مسلسل کفایت شعاری، فنونِ حرب کی نئی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی کمی اور (۳) انسانی حقوق اور عالمی سیکولر لبرل ایجنڈا کی الجھنیں، بتائی گئیں۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ اس ہند چینی (Indo-Pacific) ریجن میں امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کرایک اکیلے چین کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے اور دوسری جانب چین کی ’’جوابی مداخلت‘‘ سسٹم کا پھیلاؤ اتنا ہے کہ اس نے اس خطے میں امریکہ کی حیثیت کو کمزور بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2018ء کی ’’پینٹاگون نیشنل ڈیفنس سٹریٹجی‘‘ نے امریکہ کے دفاعی دیوالیہ پن کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہم ہند چینی کے علاقے میں دیگر اہم ممالک کے اشتراک کے بغیر چین کا تنہا مقابلہ نہیں کر سکتے‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد بننے والی یہ پہلی ڈیفنس سٹریٹجی تھی، جس میں جنگِ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد سے پہلی دفعہ ’’بڑی طاقتوں کا مقابلہ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ گذشتہ ستر سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ نے اس طرح کی کھلم کھلا حکمتِ عملی کا اظہار کیا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے سرد جنگ کے زمانے میں جنگ کے لئے مختلف نظریاتی نعروں کا سہارا لیا جاتا تھا۔ ہم دنیا میں جمہوریت کے قیام کے لئے، کیمونزم سے نجات کیلئے، انسانی حقوق کی بالادستی کے لئے اور آمریت کے خاتمے کیلئے جنگ لڑرہے ہیں۔ یہ جنگیں ویت نام، کیوبا، انگولا، افغانستان یا عراق جیسے ممالک میں لڑی گئیں۔ لیکن اس دفعہ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ہند چینی کے سمندروں پر غلبے کی جنگ کو ’’بڑی طاقتوں کی جنگ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ دوست ممالک کے علاوہ اس وقت بحرہند اور بحر اوقیانوس میں امریکہ نے خود سے جو اپنی افواج صف آراء کی ہیں، ان کی تعداد پر غور کریں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ کچھ عرصے میں اس خطے میں کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ امریکہ کی ہند چینی (Indo-Pacific) کمانڈ کے تحت تین لاکھ پچھتر ہزار سپاہی ہیں۔ امریکہ کی پوری نیوی کے 60 فیصد جہاز اس خطے میں بھیجے جا چکے ہیں، فوج کے 60 فیصد سپاہی اس جنگ کے لئے مختص کر دئیے گئے ہیں اور میرین کور (Marine Corps) جو فوری حملے کے لئے مستعد فوجی گروہ ہے، اس کے 79 فیصد جوان اسی خطے میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ تین جنگی بحری بیڑے اور دوسو کے قریب جنگی جہاز وہاں منڈلارہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں چین نے بھی 4 مارچ 2012ء کو اپنے فوجی بجٹ میں 11.2 فیصد اضافہ کر کے اسے 106 ارب ڈالر تک پہنچا دیا تھا اور آج آٹھ سال بعد چین کا سالانہ عسکری بجٹ 200 ارب ڈالر کے برابر ہے۔ چین نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں، بلسٹک اور کروز میزائلوں کے پروگرام میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ امریکہ نے اس خطے کے تقریباً پندرہ قریبی ممالک کو اپنا اتحادی بنایا ہے جن میں بھارت، جاپان اور آسٹریلیا تین بنیادی اراکین ہیں۔ امریکہ نے اپنا سب سے پہلا فوجی اڈہ آج سے ایک سو بیس سال قبل 1898ء میں فلپائن میں بنایا تھا جہاں اس کی افواج آج بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا میںموجود امریکی اڈہ بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یوں تو یہاں صرف 19 ہزارامریکی سپاہی ہیں لیکن پوری جنوبی کوریا کی فوج امریکی اشارے پر مستعد ہے۔ اس ملک کے ہوائی اڈوں پر امریکی ائیرفورس کے جہازوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ دوسرا ملک جاپان ہے جہاں اس وقت بھی امریکہ کے پچاس ہزار سپاہی مختلف اڈوں پر موجود ہیں اور جاپان کی فوج بھی امریکی اتحادی ہے۔ امریکہ کا ساتواں بحری بیڑہ اس خطے میں موجود ہے۔ دو اور بحری بیڑے ’’رونالڈویگن‘‘ اور ’’تھیورڈر روزویلٹ‘‘ بھی اسی جنوب مشرقی بحر الکاہل میں گشت کر رہے ہیں۔ گوام یوں تو ایک چھوٹا سا ملک ہے، لیکن وہاں امریکہ کا بہت بڑا فوجی اڈہ کیل کانٹے سے لیس ہے۔ سمندر میں امریکہ کے دوسو بحری جہاز موجود ہیں، جن میں پانچ بڑے جہاز ہیں، جن پر فائٹر طیارے موجود ہیں اور وہ ان بحری جہازوں سے حملے کیلئے پرواز کر سکتے ہیں۔ یہ وہ نقشہ ہے جو اس خطے میں موجود افواج کا ہے۔ اس کے علاوہ اس خطے میں جنگ کی صورت میں فوری طور مستعد ریزرو میں گیارہ سو فائٹر جہاز اور ایک لاکھ تیس ہزار نیوی کے سپاہی بھی امریکی چھاونیوں میں مختص کردئیے گئے ہیں۔ یہ تمام عسکری قوت صرف اور صرف امریکہ کی ہے۔ اتنی بڑی عسکری قوت کے بارے میں امریکی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ یہ چین کا مقابلہ کرنے کے لئے تھوڑی ہے۔ امریکہ کو آسٹریلیا، جاپان اور بھارت کے علاوہ دیگر ایک درجن ممالک کو بھی اس مقصد کے لئے ساتھ ملانا چاہیے تاکہ چین کی ترقی اور قوت کو لگام ڈالی جاسکے۔ سر پر کھڑی ہوئی جنگ کا یہ سمندری میدان ہے، جس کا بنیادی ہدف چین کی بڑھتی ہوئی قوت اور پھیلتی ہوئی تجارت کو روکنا ہے۔ لیکن چین اسے بڑے سمندری راستوں کی ناکہ بندی کی صورت میں زمینی راستوں پر اپنا ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کا منصوبہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ آئندہ محاذِ جنگ اس منصوبے کو روکنے کیلئے کھولا جائیگا۔ اس منصوبے کی اہم ترین کڑی کاشغر سے گوادر تک کا راستہ ہے۔ چین نے مغربی سمت یورپ اور دیگر ملکوں سے معاہدات کے بعد خود کو مضبوط کر لیا ہے، لیکن جنگ میں ایک لفظ استعمال ہوتا ہے ’’Soft Belly‘‘ یعنی وہ نرم جگہ جہاں جنگ چھیڑ کر کسی ملک کی معیشت کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ مقام لداخ سے کشمیر اور سکم سے نیپال تک کا علاقہ ہے۔ اس جنگ میں اترنے کیلئے بھارت کو تیار کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے بھارت کو امریکہ نے اکیسویں صدی کا پارٹنر کہا ہے۔ اس جنگ کا ٹریلر چند ماہ پہلے لداخ میں چل چکا ہے، اور اب پوری جنگ اپنے آغاز کیلئے تیار ہے۔ سمندر کی افواج تو ناکہ بندی کے لئے تیار ہیں لیکن میدان تو زمین پر سجے گا۔ اصل جنگ تو یہاں پر ہوگی، چین، بھارت اور پاکستان میں۔ وہ لوگ جو سیدالانبیائؐ کی پیشن گوئیوں کا انکار کرتے تھے، انہیں اسماء الرجال کے پیمانوں میں تول کر جھوٹی ثابت کرتے تھے، کیا آج ان کے پاس کوئی جواب ہے کہ وہ چین جس نے ماضی میں کبھی ہندوستان سے جنگ نہ کی ہو، اس کی لڑائی تو ہمیشہ منگولوں سے رہی ہو اور ہمیشہ شکست چین کا مقدر بنی ہو، لیکن، میرے آقا سید الانبیائؐ نے چودہ سو سال پہلے اس عرب میں بیٹھ کر جو تہذیب سے کٹا ہوا تھا، جہاں کوئی حکومت تک نہ تھی، جو عالمی امور سے آشنا تھا، آپ نے وہاں یہ اعلان فرمایا کہ، ’’ھند کی تباہی چین سے‘‘ اور آج یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے۔ ایسے پیغمبر ﷺکی حقانیت پر کوئی جاہل، کوڑھ مغز اور متعصب شخص ہی ہوگا جو ایمان نہ لائے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.