حساب کتاب – عبدالقادر حسن

Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

خبر چھپی ہے کہ میاں نواز شریف نے جیل میں فلاحی کاموں کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔ سابق وزیر اعظم اپنی جیب سے رقم ادا کر کے غریب قیدیوں کو رہائی دلائیں گے، جیل میں پانی کی کمی دور کرنے کے لیے بورنگ کروائیں گے، قیدیوں کی بیرکوں کے باہر شیڈ بنوائیں گے، قیدیوں کی فلاح و بہبود اور تعلیم کے لیے کام کریں گے۔

ایسے قیدی جو اپنی قید کی مدت پوری کر چکے ہیں لیکن جرمانہ کی رقم نہ ہونے کی وجہ سے قید میں ہیں ان کی فہرست تیار ہو رہی ہے اور میاں نواز شریف اپنی جیب سے ان کی رقم ادا کریں گے تا کہ ان کو رہائی مل سکے۔ خبر کے مندرجات کے مطابق میاں نواز شریف نے جیل کی حالت سدھارنے کے لیے جیل انتظامیہ سے تجاویز طلب کر لی ہیں ۔ بقول فیضؔ صاحب:

ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو

جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب کے سامنے لائے دیتے ہیں

دامن میں ہے مشت خاکِ جگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مے

لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام اُلٹائے دیتے ہیں

فیضؔ صاحب کا ہی ایک واقعہ یاد آ رہا ہے کہ ایک دفعہ پولیس والے ان کو کچہری لے جا رہے تھے پہلے تو انھوں نے اس شریف قیدی کو ہتھکڑی نہ پہنائی لیکن پھر اس ڈر سے کہ کوئی افسر دیکھ نہ لے شاعر قیدی کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال دی گئی اور یوں ایک ٹانگے میں بر سرِ عام جب فیضؔ صاحب کی بھرے بازاروں میں نمائش کی گئی تو وہ مشہور نظم تخلیق ہوئی جس کا عنوان ہے ’’آج بازار میں پابجولاں چلو‘‘ صرف ایک بند ملاحظہ کیجیے:

دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو

خاک برسر چلو خوں بداماں چلو

راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو

اس نظم کا آخری شعر ہے:

رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو

پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو

میاں نواز شریف کے لیے اب جیل کوئی نئی نہیں رہی، اس سے پہلے بھی وہ جیل میں رہ چکے ہیں اور رہائی کے بعد مختلف حالات سے گزرتے ہوئے وہ ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم بن گئے۔ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد میاں نواز شریف ایک مرتبہ پھر جیل میں ہیں اور یہ قید انھوں نے بڑی جرات مندی سے قبول کی ہے ورنہ وہ لندن میں ہی بیٹھے رہتے تو آج آزاد زندگی گزار رہے ہوتے۔ لیکن انھوں نے اپنی صاحبزادی سمیت وطن واپسی کا فیصلہ کیا اور دونوں سیدھے جیل پہنچا دیے گئے۔ جیل میں رہ کر انھیں قیدیوں کی مشکلات کا اندازہ ہوا۔ ان مشکلات کے حل اور تکالیف کو دور کرنے کے لیے وہ ذاتی طور پر ادائیگیاں کر کے قیدیوں کو سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کی شہرت ایک خدا ترس اور شریف النفس انسان کی ہے اس لیے جیل میں قیدیوں کی حالت زار دیکھ کر ان کا پریشان ہونا فطری بات ہے اور پھر جب خود پر ایسے ہی حالات گزر رہے ہوں تو دوسرے ساتھیوں کا احساس بھی ہوتا ہے۔

میاں نواز شریف جو کہ تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہے یہ ان کی کوتاہی ہی تھی کہ ان کی حکمرانی میں قیدی جیل میں بنیادی سہولتوں سے محروم رہے۔ اور کون نہیں جانتا کہ جیلوں میں کرپشن کا کیا عالم ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی سہولت کے لیے بھی جیل حکام کی جیب گرم کرنا پڑتی ہے۔ اگر آ پ بااثر قیدی ہیں آپ کے پاس روپے پیسے کی فراوانی ہے تو پھر آپ کے لیے جیل میں کوئی مشکل نہیں۔ ہر کام کا حل پیسہ ہے بلکہ آپ کو خدمت گار بھی مل جاتے ہیں۔

دیر آید درست آید، میاں صاحب کو یہ احساس تو ہو گیا ہے کہ ان کی حکومت میں قیدیوں کی کیا حالت تھی یہ تو وہ تجربہ ہے جو خود وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور ان کے ارد گرد ہو رہا ہے۔ وہ خود تو ان بااثر قیدیوں میں شامل ہیں جن کو مشقتی کی سہولت بھی موجود ہے، ان کو جیل میں بی کلاس فراہم کر دی گئی ہے لیکن دوسرے قیدیوں کی حالت دیکھ کر وہ پریشان ہیں حالانکہ اگر وہ اپنی حکمرانی کے دور میں عوام میں گھوم پھر کر دیکھتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ عوام کی حالت کیا ہے۔ بہرحال میاں نواز شریف کی وجہ سے کم از کم اڈیالہ جیل کے قیدیوں کی بھی سنی گئی۔ دوسری جیلوں کے قیدی بھی رشک سے اڈیالہ جیل کے قیدیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں اور دل ہی دل میں کہہ رہے کہ کاش میاں صاحب ان کی جیل میں قید کر دیے جائیں تا کہ ان کو بھی کچھ سہولت مل جائے۔

میرے گائوں کا ایک نوجوان جو کہ میانوالی جیل میں قید ہے اس نے کسی ذریعے سے مجھے پیغام بجھوایا ہے کہ اس کا تبادلہ اڈیالہ جیل میں کرانے کے لیے سفارش کی جائے۔ میں اب ذرائع تلاش کر رہا ہوں تا کہ اپنے گائوں کے نوجوان کو اڈیالہ جیل منتقل کرا دوں، اور پھر مجھے وہاں سے مصدقہ خبریں مل سکیں گی جنھیں میں اپنے قارئین تک پہنچا سکوں۔ جہاں تک میری معلومات ہیں ہر سیاسی دور میں اسمبلی ممبران نے اپنے مخالفین کو جعلی مقدموں کے اندراج اور تھانیداروں سے تنگ کرایا۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے آس پاس موجود ہیں۔ انصاف کی فی الفور فراہمی کے لیے قابل ذکر کوششیں نہیں کی گئیں اور آج بھی عدالتوں کے حالات جوں کے توں ہیں۔ عوام انصاف کے لیے در بدر اور برسوں ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ یہ سب حکومتوں کے کام تھے جو انھوں نے نہیں کیے۔

دراصل عوام اور حکمرانوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سیاستدان عوام سے ووٹ کے حصول کے بعد ان کو اگلے الیکشن تک بھول جاتے ہیں۔ لیکن اس دفعہ جو الیکشن ہونے جا رہے ہیں ان میں عوام اپنے نمائندوں کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں وہ عوام کے اس غصے کا اظہار ہے جو ان کو پچھلے پانچ برس سے اپنے نمائندوں پر تھا اور اب جب یہ نمائندے عوام میں دوبارہ پہنچے ہیں تو عوام ان کی گوشمالی کر رہے ہیں اور ان سے حساب مانگ رہے ہیں۔ حساب کتاب کا یہ سلسلہ اب جاری رہے گا۔

Comments are closed.