حکمرانی: عوام کی تابع یا اللہ کی تابع
جدید جمہوری طرزِ معاشرت کا سب سے اہم تقاضا یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ جمہوریت کے بغیر انسانیت کی بقا ممکن نہیں۔ اس تصور نے دنیا بھر کے انسانوں حتیٰ کہ دانشوروں، فلاسفروں، سیاسی تجزیہ نگاروں، غرض سوچنے سمجھنے اور وسیع المطالعہ رکھنے والے ماہرین کی بصارت کوبھی محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ لوگ اب معاشروں کو اچھے برے، ظالم مظلوم ، جابرانصاف پسندیا خیر اور شرکی بنیاد پر تقسیم نہیں کرتے، بلکہ جمہوری اور غیر جمہوری معاشروں کی بنیاد پر انہیں پرکھتے ، تولتے اور جانچتے ہیں۔ ایک جمہوری معاشرہ خواہ اس میں انصاف نام کا کوئی تصور نہ ہو، اقلیتیں دن رات ظلم کی چکی میں پس رہی ہوںمگر عالمی برادری اس کے ظلم ، جبر، قتل اور بدمعاشی اس لئے معاف کرتی چلی جائے گی کیونکہ اس ملک میں ایک جمہوری تسلسل ہے، کبھی فوج نے وہاں آئین نہیں توڑا اور کوئی طالع آزما وہاں کبھی برسراقتدارنہیں آیا۔ بھارت اور اسرائیل ایسے ’’جمہوری‘‘ معاشروں کی روشن مثالیں ہیں۔ اسی طرح اگر آج کے دورمیںکہیںبادشاہت یا ڈکٹیٹر شپ میں لوگ خوشحال ہوں، انصاف کا بول بالا ہو، اجتماعی اور انفرادی زندگی خوشگوار ہو، پوری دنیا سے لوگ وہاں آکر رزق کما رہے ہوں،مگر ان سب کے باوجودیہی عالمی برادری ایسے ملکوں کو حقارت اور نفرت سے دیکھے گی، کیونکہ وہاں حکمرانی کے لئے جمہوریت کی سیڑھی استعمال نہیں ہوئی۔ سنگاپور، قطر، بحرین، مسقط و عمان اور متحدہ عرب امارات ایسے خوشحال معاشرے اسکی شاندار مثالیں ہیں۔ ان ملکوں میں جمہوریت نام کو نہیں مگر خوشحالی، امن اور انصاف بے شمار ہے۔ ان خلیجی ریاستوں میں امن، خوشحالی اور انصاف کی عموماً یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ امن تیل کی دولت کی خوشحالی کی وجہ سے ہے، جو لوگوں کو جرم سے روکتی ہے۔ نائیجیریا کے پاس ان تمام خلیجی ریاستوں کے کل ملا کر تیل کے ذخائر سے زیادہ تیل موجود ہے، لیکن اس ملک میں جمہوریت کی ’’برکات‘‘ کی وجہ سے نائیجیریا میں کرپشن ایک مسلسل رویّے کے طور پر نظر آتی ہے۔ دنیا کے بددیانت ترین ممالک کی فہرست جو 180اقوام پر مشتمل ہے، اس میں نائیجیریا 143ویں نمبر پر ہے۔ یہ وہ بدقسمت ملک ہے جو تیل اور گیس کی دولت سے بھی مالا مال ہے اور وہاں فیڈرل جمہوری نظام بھی نافذ ہے، مگر اس ملک کی چالیس فیصد عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔ گذشتہ سال یعنی مارچ 2019ء میںتقریباً ستر لاکھ افراد ایسے تھے، جو قحط سالی اور خانہ جنگی کی وجہ سے بے گھر ہوئے اور تیل کی دولت سے مالا مال اس جمہوری ملک میں یو ایس ایڈ کے ادارے امن کے لئے خوراک ’’Food For Peace‘‘ نے انہیں خوراک فراہم کی۔ ان تمام حقائق اور جمہوری معاشروں میں ظلم، تشدد، اقلیتوں پر جبر و استبدار، بھوک، بیماری، بدحالی، کرپشن اور لوٹ مار کے باوجود آپ ’’جدید مہذب‘‘ دنیا کے دانشوروں کے ہجوم میں کبھی جمہوریت یا جمہوری نظام کے خلاف کوئی ایک فقرہ بول کر دیکھیں،سب آپ پر ایسے ٹوٹ پڑیں گے، جیسے آپ نے کوئی گالی دی ہو۔ اس رویّے کی بنیادیہ ہے، کہ گذشتہ تین سو سالوں سے ایک منصوبے کے تحت نصاب کی کتب سے لے کر اعلیٰ ترین تحقیقی اداروں کی تصنیفات تک ہرجگہ انسانی ترقی کی معراج صرف جمہوریت اور جمہوری معاشرے کو قرار دیا گیا ہے اور کسی بھی جمہوری معاشرے کی ایک ہی پہچان ہے کہ وہاں عوام کی اکثریت کی حاکمیت قائم ہو۔حقیقت یہ ہے کہ اکثریت کی یہ حکومت ایک دن ’’اکثریت کی آمریت‘‘ میں خودبخود بدل جایا کرتی ہے۔ مگر جدید علم جو نصابی کتب اور جدید علمی ذخیرے کی صورت موجود ہے اسکی لوریوں میں پلنے والے ہمیشہ جمہوریت سے ہی محبت کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ محدود نظری یا سوچنے اور مشاہدے کی سرنگی بصارت ۔ دنیا میں ازل سے لے کر آج تک انسانی تاریخ میں حکمرانی کے دو نظریات ہمیشہ سے ایک دوسرے سے متصادم رہے ہیں۔ ایک ایسی بادشاہت کا نظریہ جو ذاتی اقتدار، توسیع سلطنت اور غلبے کیلئے قائم ہوتی ہے۔ فراعنہِ مصر اور نمرودانِ عراق سے لے کر دارا و رسکندر تک سب ایسی ہی حکومتوں کے نقیب تھے۔ یہ حکمران خود ہی قانون بناتے، توڑتے اور خود ہی جیسا چاہتے انصاف کرتے جبکہ دوسرا نظریۂ حکمرانی وہ تھا جسے اللہ نے پیغمبروں کے ذریعے پیش کیا۔اسکے مطابق اس کائنات کو اللہ نے تخلیق کیا ہے اور یہ اللہ ہی کا حق ہے کہ اس دنیا پر اس کے حکم کو نافذ کیا جائے۔ دنیا میں انہی دونوں نظریات کی بنیاد پر آج تک آدابِ حکمرانی کی بے شمار کتب تحریر ہوتی چلی آرہی ہیں اور رہنمائی کے اصول مرتب ہوتے رہے ہیں۔ایک جانب افلاطون، چانکیہ اور میکائولی کی کتب ہیں جبکہ دوسری جانب قرآن و سنت کے اصولوں پر مبنی کتب ہیں۔پہلے انبیاء کر ام آتے تھے اور ہر معاشرے کو سدھارنے کیلئے اصول بتاتے، لیکن اب سید الانبیاء ؐچونکہ آخری نبی ہیںاس لئے قیامت تک رہنے والی کتاب ’’قرآن‘‘ کی تعلیمات اور سنتِ نبوی ؐکی بنیاد پر ہی لاتعداد آداب حکمرانی کی کتب تحریر کی گئیں۔ ان تحریروں کی ایک تاریخ ہے جو رسول اکرمؐ کی معاذ بن جبل کو یمن کا حاکم بنانے پر دی جانے والی ہدایات سے شروع ہوتی ہے اور اس کے بعدحضرت عمر ؓ کا وہ خط جس کا اصولی فقرہ، ’’مائوں نے لوگوں کو آزاد جنا، تم نے انہیں غلام بنانا کہاں سے سیکھ لیا‘‘، پھرحضرت علیؓ کے مالک الاشتر کے نام خط سے لیکر بنگال کے حاکم ’’فخر الدین مبارک شاہ المعروف فخرمدبر غزنوی‘‘ کی کتاب ’’آداب الملوک و کفایت الملوک‘‘ تک چلی آتی ہے۔ فخرالدین مبارک شاہ کی کتاب کاتذکرہ میں نے گذشتہ کالم میں کیا تھا، جس میں اس نے کسی بادشاہ کو اللہ کا سایہ اسی صورت میں گردانا ہے جب وہ امن اور انصاف قائم کرے۔ آج اس کتاب کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو جس میں اس نے حکمران کی ذمہ داریاں گنوائی ہیں، ’’احکام شرع میں سے چند امور بادشاہوں کی ذات اور ان کے فرمان سے متعلق ہیں۔ مثلاً جمعہ اور عیدین کا خطبہ، حدود و جہات کا تعین، خراج اور صدقات لینا، جنگ کرنا، فریقین کے درمیان جھگڑے کا فیصلہ کرنا، مقدمے سننا، ملک کو دشمن کی افواج سے محفوظ رکھنا، لشکروں کو ترتیب دینا، لڑنے والوں کی روزی کا انتظام کرنا، رعایا کی بھلائی کے لئے مختلف احکام صادر کرنا، مختلف سزائوں کا نافذ کرنا، عوام میں انصاف کرنا اور مظلوموںکی دادرسی کرنا‘‘۔ رسول اکرمؐ کی حدیث ہے، ’’ایک گھڑی کا انصاف ساٹھ سالہ عبادت سے بہتر ہے‘‘۔ ایک اور جگہ آپؐ فرماتے ہیں، ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک پل کا انصاف اس شخص کی عبادت سے بہتر ہے جس نے مسلسل ساٹھ سال تک راتیں نماز میں گزاریں اور دن کو روزے رکھے ہوں‘‘۔ علاوہ ازیں مفسدوں کی بیخ کنی کرنا، مختلف بدعتوں اور ناپسندیدہ کاموں کو مٹانا، لوگوں کی دولت و زندگی، ان کی عورتوں اور جائیداد پر ظالموں کی دست درازی کو روکنا، اپنی رعایا کی غم خواری اور ان کے لئے روزی مہیا کرنا، بیت المال کا مال ان مستحق لوگوں پر صرف کرنا جن کے بارے میں اللہ جل جلالہ، نے قرآن کریم میں فرمایا ہے، ’’خیرات فقرا، مساکین اور صدقات وصول کرنے والے کارکنوں، ان لوگوں کے لئے جن کی تالیف قلب منظور ہے، غلاموں، قرض داروں، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے اور وہ جاننے والا دانا ہے‘‘۔ فخر الدین مبارک شاہ نے ان تمام امور کی بجا آوری کیلئے تفصیلی ابواب تحریر کیے ہیں اور ہر جگہ قرآن و سنت سے دلائل درج کیے ہیں۔ اللہ کے احکامات کی تابع حکومت میں جہاں انصاف کی بالا دستی اہم ہے، وہاں جوابدہی کے لئے بالا ترذاتِ الٰہی کا خوف بھی ہے۔ لیکن جدید جمہوری معاشرے کی ترقی کے بنیادی پیمانوں میں صرف اور صرف جمہوری تسلسل اہم ہے۔ عوام کی حاکمیت کا قیام اس بات کا ہدف ہے خواہ اس حاکمیت کے پائوں تلے اقلیت چیونٹیوں کی طرح مسلی جا رہی ہو۔