زمین پھٹنے دو اور آسمان گرنے دو – حسن نثار
کچھ عرصہ سے شہر سیاست و دانش میں کچھ’’فیشن‘‘ ضرورت سے زیادہ ہی ان ہوگئے ہیں۔ مقبول ترین فیشن یہ فلسفہ ہے کہ میاں برادران ’’کھاتے ہیں تو کچھ لگاتے بھی ہیں‘‘ ایسا سوچنے والوں کی ذہنی اور اخلاقی حالت پر تو کسی تبصرے کی بھی ضرورت نہیں کہ جیسی تعلیم اور تربیت ہوگی ماشاءاللہ ویسا ہی مائنڈ سیٹ معرض وجود اور پھر مارکیٹ میں نہیںآئے گا تو کیا ہوگا؟مصیبت یہ ہے کہ اس’’کھاتے اور لگاتے‘‘ والے فلسفہ بدی میں ایک کجی ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اتنا بھی نہ لگائیں تو اگلی بار کیا دکھائیں اور کیسےاقتدار میں آئیں؟ دوسری بات یہ کہ کھاتے بہت ہی زیادہ اور لگاتے بہت ہی کم اور وہ بھی بےحد بھونڈے بھدے انداز میں جسے یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ لگانے میں تو جو کھاتے ہیں سو کھاتے ہیں۔۔۔۔۔گراتے یعنی ضائع بھی بےتحاشہ کرتے ہیں جسے یقین نہ آئے پروفیشنلز کا گروپ بٹھا کر صرف اورنج اور میٹرو کا کثیرالجہتی آڈٹ کرالے، چودہ طبق روشن ہوجائیں گے کہ جس ملک میں کروڑوں بچے کم خوراکی اور بےتعلیمی کا شکار ہوں اس کا ایک ایک روپیہ ،روٹی کا ایک ایک لقمہ بہت قیمتی ہوتا ہے لیکن یہاں کھربوں روپیہ احمقانہ تجربوں میں جھونک دیا جاتا ہے۔ معمولی ترین مثال یہ کہ صاف پانی کے نام پر400کروڑ کھاگئے، غارت کرگئےاور لوگوں کوایک قطرہ صاف پانی
نصیب نہ ہوا تو خدا کے لئے ، اپنے بچوں کے صدقہ کے طور پر ہی ان بچوں کا سوچو جو آرسینک اور فضلہ زدہ پانی پی پی کر قسطوں میں مررہے ہیں۔دوسرا معصومانہ’’سکول آف تھاٹ‘‘ یہ ہے کہ کیا ’’نواز شریف اکیلا ہی کرپٹ ہے؟‘‘ جی ہاں یہ’’اکیلا‘‘ ہی کرپٹ ہے کیونکہ کوئی دوسرا ایسا نہیں جو تین بار وزیر اعظم رہا ہو۔ دوسری بات یہ کہ بھائی کہیں نہ کہیں سے تو’’ہفتہ صفائی‘‘ شروع ہونا تھا اور اسے’’ٹاپ‘‘ سے ہی شروع ہونا چاہئے تھا کہ حکم بھی یہی ہے اور حکمت کا تقاضا بھی۔ تیسری گزارش یہ ہے کہ معاملہ نہ صرف آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ صاحبہ تک بھی دراز ہوچکا ہے۔ ان کے دیگر ساتھی اور سہولت کار بھی پہلے سے گرفتار ہیں اور سلسلہ چل سو چل اور اگلی عرض یہ ہے کہ’’پاناما‘‘ والی لسٹ بھی زیر غو ر رہنے کے بعد اگلے مرحلہ میںداخل ہوچکی۔ سہج پکے سو میٹھا ہو، دھیرج مہاراج! سری پایوں کی پوری دیگ ہلکی آنچ پر دھری ہے۔ دیر ہوسکتی ہے، اندھیر والے کھاتے بند سمجھو کہ ملک انہی لوگوں کی وجہ سے بند گلی میں دھکیلا گیا ہے اور اگر آج بھی کرپشن سیلاب کے سامنے مضبوط بند نہ باندھے گئے تو سب کچھ بہہ جائے گا۔ ان کرپٹوں کے تو باہر بے شمار ’’فول پروف‘‘ بندوبست ہیں لیکن یہ جو باقی 22کروڑ شناختی کارڈ نمبر ہیں۔۔۔۔یہ کہاں جائیں گے؟ کیا کریں گے؟ کس کی اماں جان کو ماسی کہیں گے کہ’’مائیں بہنیں سانجھی ہوتی ہیں‘‘ جیسے جملے صرف ٹی وی ا سکرینوں اور زبانوں تک ہی محدود ہوتے ہیں۔ گلیوں بازاروں، فیکٹریوں،ملوں ، کھیتوں کھلیانوں میں تو ان کا نام و نشان بھی موجود نہیں۔ وہاں بختاور، آصفہ، مریم اور شیداں پھاماں میں زمین و آسمان سے زیادہ کا فرق ہے ورنہ حبیب جالب کو یہ نوحہ نما نظم نہ لکھنی پڑتی کہ؎ہر بلاول ہے دیس کا، مقروضپائوں ننگے ہیں بینظیروں کےبینظیر انکم سپورٹ کارڈ پروگرام کی بھیک جیسے بہلاوے کب تک؟ کبھی ساحر نے لکھا تھا؎ملیں اسی لئے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیںکہ دختران وطن تار تار کو ترسیںمحاورہ تب بھی یہی چلتا تھا کہ’’مائیں بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں‘‘ عملاً یہ تب بھی جھوٹ تھا، آج بھی جھوٹ ہے۔ میں کیسے مان لوں کہ رکشہ کے اندر یا سڑک کے کنارے سرعام ’’اقبال کے شاہین‘‘ کو جنم دینے والی اور کسی ایسی شہزادی میں کوئی سانجھ، کوئی قدر مشترک موجود ہے جس کا ایک پرس ہی کئی کئی لاکھ کا ہے، جس کی ایک سینڈل کی قیمت میں سو بچیوں کے ہاتھ پیلے ہوسکتے ہیں۔کس کو بے وقوف بنارہے ہو؟ایک اور’’حلقہ طفیلیاں‘‘ میں اس بات کافیشن بھی زوروں پر ہے کہ اگر یہ احتسابی سلسلہ یونہی چلتا رہا تو زمین پھٹ جائے گی، آسمان گرپڑے گا۔’’شریف پورہ‘‘ کے یہ ’’نیک معاش‘‘ ریلیکس کریں کچھ نہیں ہوگا۔ پاکستان کو ’’نازک مرحلوں‘‘ سے گزرنے کی زبردست پریکٹس ہے۔ ہاں یہ تیزابی احتسابی سلسلہ رکا تو یقیناً زمین پھٹ جائے گی، آسمان گر پڑے گا اور پھر اس سےفرق کسے پڑے گا؟ اس ملک کی بھاری ترین اکثریت کے پائوں تلے تو پہلے ہی زمین نہیں، سروں پر آسمان نہیں ورنہ منیر نیازی نہ لکھتے؎اس شہر سنگدل کو جلا دینا چاہئےپھر اس کی راکھ کو بھی اڑا دینا چاہئےملتی نہیں اماں ہمیں جس زمین پراک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہئےاحتسابی عمل جاری رہےآسمان گرنے اور زمین پھٹنے سے مت ڈرائو کہ عوام کب کے ان مراحل سے گزر چکے، اب نام نہاد معززین اور شرفاء کو گزرنا ہوگا۔
Comments are closed.