سرد جنگ نہیں کھلی عالمی جنگ اور پاکستان (آخری قسط)
جس لہجے میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چین کے بارے میں گفتگو کی ہے، یہ لہجہ امریکی حکمرانوں نے صرف چند ماہ پہلے ہی اختیار کیا ہے۔ یوں تو دھمکی آمیز گفتگو، سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر ڈانٹنا، جھڑکنا امریکہ کا معمول رہا ہے، مگر یہ ڈانٹ صرف چھوٹے ملکوں تک محدود ہوا کرتی تھی۔ آخری بڑی ڈانٹ جارج بش نے افغانستان پر حملہ آور ہونے کے چند ماہ بعد تین ممالک، ایران، عراق اور شمالی کوریا کو’’ شیاطینی مراکز‘‘ (Axis Of Evil) کا لقب دے کرپلائی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے شروع ہونے والی سرد جنگ جسے ’’دائیں اور بائیں بازو یا کیمونزم اور کیپٹل ازم‘‘ کی جنگ کہا جاتا ہے، یہ جنگ افغانستان میں روس کی شکست، روس میں گوربا چوف کے نظریات ’’پیرا سٹریکا‘‘ اور ’’گلاس نوسٹ‘‘ کے ساتھ کیمونسٹ روس کے خاتمے اور آخری بڑی کیمونسٹ طاقت چین کے جدید کارپوریٹ مالیاتی نظام میں داخلے کے بعد ختم ہوچکی ہے۔ تیس سالوں سے دنیا میں ایک ہی نظریہ باقی رہ گیا ہے اور یہ ایک ہی عالمی مالیاتی نظام آئی ایم ایف کے ذریعے راج کررہا ہے۔ اسی کے زیر اثر دنیا اب امریکہ کو واحد سپر پاور مان چکی ہے۔ امریکہ اور اس کی حواری مغربی حکومتیں دنیا کے لئیے جو بھی ایجنڈا منتخب کرتے، اگر کوئی قوم اس سے روگردانی کرتی تو ایسی حکومت کو عبرتناک انجام سے دوچار کر دیا جاتا۔ ’’صدام حسین‘‘ اور’’معمر قذافی‘‘ اس کی بدترین مثالیں ہیں۔ امریکہ نے ان 75 سالوں میں پوری دنیا کو میدانِ جنگ بنائے رکھا۔ لیکن امریکی ہوس اور امریکی معیشت کو مضبوطی کے لیے ،مسلسل خون، جنگ، بارود اور تباہی چاہیے، اسی لئیے امریکہ ادھر ایک محاذ سے لوٹتا ہے تو دوسرا اپنے لئے تیار کر چکا ہوتا ہے۔ مگر اس دفعہ میدانِ جنگ بھی بڑا ہے اور کھیل بھی بہت پیچیدہ۔ نظریات کی جنگ تو مدت ہوئی ختم ہو چکی تھی لیکن امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے تیس سال کے بعد یہ لفظ ’’کیمونزم‘‘ بول کر آنے والی جنگ کو ایک نظریے کا روپ دینے کی بھونڈی کوشش کی ہے۔ امریکی دفتر خارجہ نے اس کی جو تقریر جاری کی ہے اس کا عنوان ہے، ’’کیمونسٹ چین اور آزاد دنیا کا مستقبل‘‘۔ کس قدر جھوٹ اور فریب ہے اس عنوان میں، حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ چین نہ اب کیمونسٹ ہے اور نہ ہی باقی دنیا کے ممالک مکمل طور پر آزاد ہیں۔ لگتا ہے کہ مارکیٹ معیشت اور عسکری طاقت کی ویسی ہی جنگ کا آغاز ہوا چاہتا ہے جیسا پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ہوا تھا۔ اس وقت بھی تمام ممالک ایک جیسی معاشی اور معاشرتی دنیا میں رہتے تھے، لیکن جنگ چھیڑنے کے لئیے کوئی نہ کوئی نعرہ تو ضرور ہوتا ہے، اسی لئیے تو ہٹلر کو ’’فاشسٹ‘‘ یعنی آمریت پسند اور فسطائی کہا گیا۔ آئندہ لڑائی کے لئیے چین کو بدنام کرنے کے لئیے مسلمان شدت پسند تو کہا جا نہیں سکتاتھا، القاعدہ کا مرکز یا دہشت گردی کاسہولت کار بھی اسے گردانا نہیں جا سکتا تھا، مگر امریکہ کی معاشی برتری کیلئے جنگ کی مجبوری دیکھیئے کہ لڑائی شروع کرنے کے لئیے اسے اپنی پٹاری میں سے 75 سال پرانا گھسا پٹا لفظ ’’کیمونزم‘‘ نکال کر چین پر چسپاں کرنا پڑا۔ مائیک پومپیو نے تقریر کے آغاز میں ہی ان چینی افراد کا شکریہ ادا کیا جو اختلافِ رائے کی بنیاد پر چین کو چھوڑ کر امریکہ آئے ہیں اور اس تقریب میں شریک تھے۔ اس نے انہیں تاریخ کے بہادر افراد کہا، بالکل ویسے ہی جیسے امریکی صدر ’’رونالڈ ریگن‘‘ نے افغان مجاہدین کو امریکہ کی جنگ آزادی لڑنے والے سات رہنمائوں کے ہم پلہ قرار دیا تھا۔ پومپیو نے اس کے بعد اپنی ہی رپبلکن پارٹی کی وضع کردہ خارجہ پالیسی کے سب سے بڑے معرکے کو امریکہ کی ناکام ترین کوشش قرار دیا۔ یہ معرکہ امریکہ کی چین کے ساتھ دوستی کا آغاز تھا جو فروری 1972ء میں صدر نکسن نے کیا تھا۔ مائیک پومپیو نے اسی پالیسی کی ناکامی کا اعلان کرنے کے لئیے خاص طور پر رچرڈ نکسن کی یادگار کا انتخاب کیا۔ اس تقریب میں نکسن کی بیٹی ’’جولی نکسن‘‘ کو بھی مدعو کیا گیا تھا، جو ایک اور امریکی صدر ’’آئزن ہاور‘‘ کے پوتے کی بیوی بھی ہے۔ پومپیو نے کہا کہ ہم نے 1972ء میں چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اس کی عالمی تنہائی کو ختم کیا۔ اسے سکیورٹی کونسل کا مستقل ممبر بنوایا جس کے پاس اب ویٹو کے قوت بھی ہے۔ لیکن چین نے ہماری اس دوستی اور خیر خواہی کا غلط استعمال کیا۔ اس نے چین کے بارے میں تین انتہائی سخت اور غیر سفارتی الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ چین جھوٹ (Lie)، دھوکے (Cheat) اور چوری (Steal) سے اپنی طاقت اور خوشحالی میں اضافہ کرتا چلا آیا ہے اور اب وہ اس مقام پر آ چکا ہے کہ اس کی ترقی کو روکنے کے لئیے جمہوری قوتوں کا اتحاد ضروری ہو گیا ہے۔ دنیا کی یہ اتحادی طاقتیں مل کر چین میں تبدیلی کو برپا (Induce) کریں۔ اس نے کہا کہ جمہوری قوتوں کا بننے والا یہ نیا اتحاد کیمونسٹ چین پر واضح کردے گا کہ وہ کیمونسٹ پارٹی کو اپنا راستہ بدلنے پر مجبور کرے ورنہ عالمی تنہائی کا سامنا کرنے کے لئیے تیار ہو جائے۔ آزاد دنیا یعنی مغربی کارپوریٹ دنیا کے بارے میں اس نے ایک ہدف دیا ہے۔ اس نے کہا، "The Free World Must Triumph Over This New Tyranny” (آزاد دنیا ضرور اس نئے جبر و استبداد پر فتح حاصل کریــ)۔ اس کے بعد اس نے کہا، ’’ہم نے پچاس سال آنکھیں بند کر کے چین پر بھروسہ کیا اور دوستی رکھی، لیکن اب ہمیں یہ سب ختم کرنا ہوگا‘‘۔ چین کیخلاف اس طرح کی گفتگو اب امریکہ میں روز کا معمول بن چکا ہے۔ اسی ہفتے وزیردفاع مارک ایسپر، اٹارنی جنرل بل بار اور ایف بی آئی کے سربراہ کرسٹوفر واری نے بھی اسی لہجے میں چین کے خلاف گفتگو کی، لیکن مائیک پومپیو کی گفتگو ویسی ہی اہمیت کی حامل ہے جیسی چین سے دوستی کرتے وقت امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی بات بہت اہم تھی۔ پومپیو نے دہشت گردی کیخلاف جنگ والا پرانا لہجہ اختیار کیا اور کہا کہ ’’ اگر آزاد دنیا نے مل کر چین کو تبدیل نہ کیا تو کیمونسٹ چین ہمیں تبدیل کر کے رکھ دیگا۔ اگر مغربی دنیا چاہے تو چینی صدر ’’شی‘‘ کو چین کے اندر بھی اپنا جبر قائم کرنے سے روک سکتی ہے اور اپنے ملک سے باہر بھی چین کسی کو ڈرا نہیں سکے گا‘‘۔ یہ تقریر اور اس کے بعد کے سوال و جواب مستقبل کے اگلے چند سالوں کا نقشہ واضح کر رہے ہیں۔ چین کا سمندری گھیراؤ تو مکمل ہو چکا ہے۔ زمینی سطح پر اس سے لڑنے کے لئیے بھارت کو تیار کیا جا چکا ہے، جسکی جاپان اور آسٹریلیا بھی مدد کریں گے۔ لیکن چین کے اندر سے تبدیلی کا جو راستہ سوچا گیا ہے وہ بہت ہی خطرناک اور پاکستان کے لئیے تباہ کن ہے کیونکہ لگتا ہے اس راستے کا انتخاب پاکستان کو ذہن میں رکھ کر کیا گیا ہے۔ اس راستے پر امریکہ میں گذشتہ بیس سال سے کام ہو رہا تھا کہ کیسے چین کے مسلمانوں کو چین سے بغاوت پر اکسایا جائے۔ پراپیگنڈہ مشینری سرگرم ہے اور چینی پناہ گزینوں کو بھی منظم کیا جارہا ہے۔ لڑائی کے لئیے اب واضح لفظ ’’کیمونسٹ‘‘ اسلئیے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ الحاد کے خلاف مذہبی جذبات کو ابھارا جائے۔ چین کے اس جنوب مغربی خطے کی ایک تاریخ ہے جہاں مسلمان آباد ہیں۔ اس خطے میں 12نومبر 1933ء کو مشرقی ترکستان کی اسلامی جمہوریہ قائم ہوئی تھی جس نے چین سے آزادی حاصل کی تھی، کاشغر اس کا صدر مقام تھا اور یہ ریاست 1949ء تک قائم رہی۔ اس ریاست کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئیے چین میں اسلامی انقلاب اور جہاد کی لہر پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اس سارے کام کے لیے پاکستان کا کندھا استعمال کرنے کا سوچا جا رہا ہے۔ لیکن یہ پاکستانی کندھا امریکی بوجھ سے پہلے ہی بہت شل ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اب پاکستان اپنے اس کندھے کو ایک ہی جھٹکے میں امریکہ سے آزاد کرے، کیونکہ اسی میں ہماری عافیت ہے۔(ختم شد)