عوام، اداروں اور عمران خان کا امتحان – حسن نثار
وہ پروٹوکول کو ناپسند کرتا ہے، لینے سے یکسر انکاریاس نے عوام کی عسرت و افلاس دیکھتے ہوئے کہا کہ اسے 135ایکڑ یعنی5مربع 10ایکڑ پر محیط پر تعیش اور مہنگے ترین وزیر اعظم ہائوس میں رہتے ہوئے شرم آئے گی جس میں 50افسران پر مشتمل پروٹوکول دستہ، لاتعداد دیگر ملازم ہیں جن کا خرچ 70کروڑ، سیکورٹی کے نام پر سالانہ 10کروڑ، مہمان نوازی اور تزئین و آرائش پر بھی کئی کروڑ خرچ ہوتے ہیں …….واقعی بے شرمی کے ساتھ ہی وہاں رہا جاسکتا ہے ورنہ جس ملک میں کروڑوں لوگ خط غربت پر رینگ رہے ہوں کروڑوں بچےا سکولوں سے باہر ہوں، کروڑوں نوجوان بیروزگاری کے جہنم سے گزر رہے ہوں، وہاں کا وزیراعظم ایسی عیاشیاں کیسے افورڈ کر سکتا ہے لیکن شرط تو شرم کی ہے ۔ادھر چھوٹے میاں کی سن لیں جاتی امرا میں 500اہلکاروں کے علاوہ 2700سے زائد پولیس ملازم حبیب جالب گانے والے کی سیکورٹی پر مامور تھے’’ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا‘‘ صرف 8سالوں میں ساڑھے سات ارب روپیہ اس ’’عرشی مخلوق‘‘ کی حفاظت پر خرچ ہوا اور اس کھرب پتی خاندان کا یہ غیر اخلاقی کارنامہ تو ناقابل بیان حد تک بے رحمانہ و سفاکانہ ہے کہ غریب عوام کے پیٹ کاٹ کر انہوں نے 3ارب 60کروڑ روپیہ اپنی ذاتی رہائش گاہوں کی حفاظتی دیوار پر خرچ کر دیا کیونکہ انہیں یقین تھا کہ یہ احتساب سے بالاتر اور
ناقابل تسخیر ہو چکے ہیں، عوام ان کے غلام ،آئین و قانون ان کی کنیزیں اور خواجہ سرا لیکن پھر قدرت کو رحم آگیا۔ایک غیر سیاسی ،کھلاڑی، شکاری اور ’’اناڑی‘‘ میدان میں اترا اور اس کی جاں لیوا انتھک محنت اور اللہ پر ایمان راسخ کے نتیجہ میں یہ سارے بت منہ کے بل زمین پر آ رہے ۔یہ سیاست نہیں معجزہ ہے، یہ انہونی ہو چکیاور اگلا مرحلہ بھی ناقابل فراموش، ناقابل یقین کہ عمران خان منسٹرز انکلیو کے عام سے گھر میں رہے گا اس گھر کی ریپیئر اینڈ مینٹینس کا خرچ بھی خود ادا کرے گا اور ذاتی گھر بنی گالہ کی سیکورٹی کا بوجھ بھی خود برداشت کرے گا۔ یہ سب غلیظ ، آدم خور، عوام دشمن حکمرانہ کلچر کو یکسر تبدیل کر دینے کی طرف اٹھ چکا فیصلہ کن قدم ہے اور عوام کے ساتھ اپنی جڑت کا اعلان کہ یہی عمران خان کی اصل پہچان ہے کہ وہ چند مرلوں کی کٹیا میں بھی رہے تو عمران خان ہے جبکہ دوسرے ہزاروں کنالوں میں بھی رہیں تو اکلوتی شناخت صرف اتنی کہ ………’’سارا ٹبر چور ہے‘‘11اگست 2018ء کا اک روزنامہ میرے سامنے ہے اور اس کی سرخیوں میں ایک سطر بھی میری نہیں۔’’شہباز شریف 10 سال ….. 5وزیر اعلیٰ ہائوس، 5سیکرٹریٹ چلاتے رہے ۔قومی خزانے کو اربوں کا نقصان‘‘’’پنجاب کے ہر ادارے میں اربوں کی کرپشن۔ ایک دھیلہ کی کرپشن نکل آئے تو پھانسی پر لٹکا دیں ‘‘ والے بیان کا اب کیا ہوگا ؟‘‘’’سرکاری ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کا بے دریغ استعمال، 8کلب پر حمزہ شہباز نے قبضہ جمائے رکھا، ہر طرف کرپشن کا راج رہا ‘‘’’شہباز شریف کے دور میں ایوان وزیر اعلیٰ کے شاہانہ اخراجات کی تحقیقات شروع‘‘’’اکائونٹنٹ جنرل پنجاب ایوان وزیر اعلیٰ، ماڈل ٹائون پر کئے گئے 4ارب روپے کے اخراجات کا آڈٹ کریں گے‘‘’’90شاہراہ اور ایوان وزیر اعلیٰ اور ماڈل ٹائون سیکرٹریٹ پر کروڑوں کے اخراجات کئے گئے تھے‘‘’’مال مفت دل بے رحم‘‘ جیسا محاورہ مذاق لگتا ہے‘‘’’حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ ‘‘ جیسا محاورہ بھی کتنا گھٹیا، فضول اور کمینہ محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے تو پورے پاکستان کو حلوائی کی دکان بنائے رکھا اور ڈھٹائی کی انتہا یہ کہ ………’’اک واری فیر شیر ‘‘”I LOVE YOY TOO”پاکستان ضرورت سے زیادہ جان دار ہے ورنہ ان جیسوں کے ہوتے ہوئے آدھی آبادی بھوک سے مر گئی ہوتی لیکن ا للہ پاک پالن ہار ہے ورنہ جو حقائق سامنے رکھے، ان میں لوٹ مار کاتو ایک روپیہ شامل نہیں اور تردید کوئی بے غیرت بھی نہیں کر سکتا ۔اسی لئے یہ بات ہمیشہ میرے سیاسی ایمان کا حصہ رہی ہے کہ اگر پاکستان کو صرف کھانا، نوچنا، بھنبھوڑنا ،نچوڑنا ہی بند کر دیا جائے تو یہ ملک فیز ایبل ہے اور وائے ایبل بھی ۔جہاں دھواں ہو، وہاں آگ ضرور ہوتی ہے ۔کسی نئے NORکے ساتھ ساتھ ’’پلی پارگین‘‘ کی کہانیاں بھی گردش کر رہی ہیں تو مشتری ہشیار باش ………جاگتے رہنا ہو گا اور یہ عوام، اداروں اور عمران کا مشترکہ امتحان ہو گا جو پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کر دے گا۔میں پاکستان سے صرف چند سال چھوٹا، 60کی دہائی میں ہوں حلفاً عرض کر رہا ہوں کہ جب سے سچ مچ ہوش سنبھالا تب سے لیکر اب تک عوام کو اداروں پر اس قدر متخجر کبھی نہیں دیکھا ۔بدمعاش کہتے ہیں جس کا معاش بد ہو۔ پہلی بار بدمعاشوں میں سہم سرایت ہوتے دیکھ رہا ہوں اور سچ مچ کی شریفوں میں اعتماد کی جھلکیاں تو یہ سرمایہ لٹانے والا نہیں کہ بھیڑیے کے ساتھ رحم بھیڑوں کے ساتھ بے رحمی ہے ۔چلتے چلتے اک ہلکی پھلکی بات۔ میں جانتا ہوں قاعدہ قاعدہ، ضابطہ ضابطہ ہوتا ہے عمران خان نے ووٹ کی رازداری ’’پامال‘‘ ہونے پر معذرت طلب کی جو قبول بھی ہو چکی لیکن پارٹی سربراہ کے ووٹ کی رازداری کیا ؟کیا اس نے آصف زرداری، نواز، شہباز یا فضل الرحمن کو وٹ دینا تھا؟اصل رازداری تو NORاور پلی بارگین ہے اور یہی عوام، اداروں اور عمران کا اصل امتحان بھی ۔
Comments are closed.