قوم انتظار میں ہے – عبدالقادر حسن

Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ملک کی فضا میں عمران خان کی جیت اور ان کی تقریر کے چرچے ہیں، عمران خان کے سیاسی مخالفین بھی ان کی تقریر کے معترف ہیں۔ عمران خان کی طویل جدو جہد کے بعد ملک میں ان کی پارٹی تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے ۔ پاکستان کے محب وطن عوام نے اپنے نئے لیڈر عمران خان کو اس کی خواہشوں اور تمناؤں سے زیادہ دے دیا ہے اب دیکھتے ہیں کہ ان کا لیڈر انھیں اس کے جواب میں کیا دیتا ہے ۔

الیکشن کی رات کو جب انتخابی نتائج دھڑا دھڑ آرہے تھے اور سابق حکمرانوں کو پریشان کر رہے تھے تو میں جو لاہور سے دور ایک دور افتادہ گاؤں میں بیٹھا تھا، ٹیلیویژن کے سہارے لاہور اور اسلام آباد کے حالات دیکھ اور سن رہا تھا۔ مستقبل کے اندیشوں کے ساتھ عمران خان کے چہرے پر طمانیت تھی۔ان کا پاکستان کے مستقبل کے لیے پریشان ہونا فطری بات ہے کیونکہ جن حالات سے ملک گزر رہا ہے ان پر قابو پانے کے لیے مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے ۔ عمران خان کی شخصیت ماضی میں رہنے والے شخص کی نہیں بلکہ وہ مستقبل پر نگاہ رکھتے ہیں کیونکہ ماضی کے اسیر مستقبل کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

حالیہ انتخابات کا جائزہ مدتوں تک جاری رہے گا حسب معمول دھاندلی کے الزامات لگتے رہیں گے، ہم نے دھاندلی کو اپنی سیاست کا لازمی جزو بنا لیا ہے اور اس کے سہارے اپنی ہار کو عوام کے لیے قابل قبول بناتے ہیں۔ ٹی وی پر جب نتائج کا اعلان ہو رہا تھا تو تبصرہ کناں ٹیموں میں چند پرانی حکومت کے متوالے بھی تھے جو نوحہ کناں تھے اور بڑی ہی مشکل کے ساتھ اپنے الفاظ پر قابو پا رہے تھے ۔

میں نے اپنے ان دوستوں کی اذیت کو بری طرح محسوس کیا اگر انھیں معلوم ہوتا تو انھیں اپنی زبانوں سے کیا کچھ کہنا پڑے گا تو شاید وہ ٹی وی والوں سے معذرت کر لیتے لیکن پھر یاد آیا کہ یہ لوگ تو لوہے کے بنے ہوئے ہوتے ہیں اور کبھی معذرت نہیں کرتے۔ ایوب خان سے لے کر آج تک میں ان کو اسی حال میں دیکھ رہا ہوں۔بہرکیف ان کے برعکس جاہل عوام نے ان انتخابات میں عقل و شعور کا مظاہرہ کیا اور بلند دماغ دانشور کی طرح ایک طرف تو انھوں نے اپنی خواہش کے مطابق غلط لوگوں کا احتساب کیا دوسری طرف مثبت سوچ کا اظہار کر کے صحیح لیڈر کو حکمرانی کی طاقت عطا کر دی۔

اب یہ ان کے لیڈر کا کام اور حکمت عملی ہے کہ وہ اپنے اس اقتدار میں جو اسے عوام نے عطا کیا ہے کس کس کو شریک کرتا ہے یا کون اس سے اقتدار میں زبردستی شریک ہوجاتا ہے ۔ پاکستان میں ایسا ہوتا رہتا ہے، عمران خان ایک سیدھا اور سادہ انسان ہے، اس کے اندر سیاستدانوں والی کوئی بات نہیں۔ وہ روائتی طور پر بے مروت انسان نہیں، وہ اپنے آپ کو کسی اور کا نمایندہ کہنے کے بجائے عوام کا نمایندہ کہتا ہے اور اس ضمن میں اسے اب کچھ اور زیادہ احتیاط کرنی ہو گی۔

مغربی پاکستان کے عوام نے جو اب پورا پاکستان ہے ایک دفعہ ایک لیڈر کو اس سے ملتا جلتا اعتماد دیاتھا لیکن اس لیڈر نے ان کو روٹی کپڑا مکان تو کیا دینا تھا ان کو جمہوریت سے بھی محروم کر دیا ۔ انھوں نے اس سے بڑھ کر عمران خان کو اعتماد دے دیا ہے اور اب وہ اس دن کے انتظار میں ہیں جب ان کا نمایندہ ان کو یہ اعتماد لوٹانا شروع کرے گااور جواب میں ان کے مسائل کو حل کرنے کا آغازکرے گا۔

عوام اس الیکشن میں دو دھاری تلوار بن کر پولنگ اسٹیشن پر گئے ہیں، ایک طرف انھوں نے بڑی تعداد میں غلط لوگوں کا احتساب کیا ہے ،دوسری طرف نئے لیڈر کے نامزد لوگوں کو کامیاب کرایا ہے۔ عوام بلا شبہ احتساب  کے حق میں تھے اور ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ انتخابات سے پہلے احتساب کا عمل مکمل ہوجائے لیکن نگران حکومت نے یہ کام اگلی آنے والی حکومت پر چھوڑ دیا، اب یہ عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں کیونکہ الیکشن میں ہار جانے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو بدعنوانی سزا مل گئی ہے، اس جرم کی سزا یہ ہے کہ ان سے عوام کا کھایا ہوا مال برآمد کیا جائے۔

عمران خان کو جو اکثریتی ووٹ ملے ہیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ عوام کا نمایندہ بن کر ان کے چوروں پر ہاتھ ڈالیں ۔ بلاشبہ یہ بات درست ہے کہ وہ ماضی کے اسیر نہیں ہیں لیکن یہ رویہ صرف سیاست میں ہونا چاہیے، بعض سابق سیاستدانوں کے جرائم سیاسی سے زیادہ غیر سیاسی اور مجرمانہ تھے اور ان پر کسی قانون کے تحت نہیں تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمہ درج ہوتاہے۔ مثلاً میاں نواز شریف اعلیٰ سیاسی شخصیت تھے لیکن وہ کوئی بھی سیاسی جرم کرتے تو یہ جوڑ توڑ کے زمرے میں آتااور یہ سیاسی جرم خواہ کتنا ہی بڑا ہوتا، ان کو اس کی معافی مل سکتی تھی مگر انھوں نے اپنی سیاسی حیثیت کو مال و دولت میں اضافے کے لیے استعمال کیا اور ان کے بیٹوں پر پاکستان کے قوانین بھی لاگو نہیں ہوتے کیونکہ وہ برطانوی شہری ہیں۔

عرض ہے کہ عمران خان کو وہ احتساب بھی کرنا ہے جس کا عوام نے ان کو ووٹ دے کر مطالبہ کیا ہے لیکن سب سے پہلے کام کا آغاز معیشت کی بحالی سے کرنا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ عمران خان روپے پیسے کے معاملے میں قابل اعتبار آدمی ہیں اور وہ عمران خان کی کال کا انتظار کررہے ہیں ۔ عمران خان اب وہ عمران نہیں ہو گا جس کو آپ دھرنوں کی سیاست کی وجہ سے جانتے ہیں، وہ ایک بدلہ ہوا انسان ہے اس نے کئی سابقہ حکمرانوں سے سبق حاصل کیا ہے ۔ قوم اس نئے عمران خان کے انتظار میں آنکھیں بچھائے ہوئے ہے ۔ اﷲ اس کی اور عوام کی مدد کرے گا۔

Comments are closed.