قوم کی امانت – عبدالقادر حسن
جوڑ توڑ کی سیاست عروج پر ہے، متحدہ اپوزیشن فی الحال متحد ہو کر تحریک انصاف کی متوقع حکومت کے لیے پریشانیاں پیدا کرنے میں مصروف عمل ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے ایک مثبت قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ وہ جمہوری طریقہ کار کے تحت اسمبلی میں نئی حکومت کا مقابلہ کرے گی۔اپوزیشن کی جانب سے تمام عہدوں کے لیے امیدوار لانے کا عمل مکمل کیا جارہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو کسی بھی عہدے پر اپنا امیدوار بلا مقابلہ منتخب کرنے کی چھٹی نہیں ہو گی، یہی وہ مثبت جمہوری رویہ ہے جس پر اپوزیشن کا اتفاق ہو چکا ہے۔
انتخابات کے نتائج کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کی یہ کوشش تھی کہ اپوزیشن کے منتخب ارکان قومی اسمبلی کا حلف نہ اٹھائیں لیکن بڑی اپوزیشن جماعتوں جن میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی شامل ہیں، انھوں نے متحدہ مجلس عمل کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور جمہوری عمل کا حصہ بن کر اسمبلی کے اندر رہ کر حکومت کا مقابلہ کرنے کا خوش آیند فیصلہ کیا ہے۔ آنے والے حالات اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ اپوزیشن کا یہ اتحاد وقتی ہے یا مستقبل میں بھی حکومت مخالف اتحاد برقرار رہے گا۔
تحریک انصاف حکومت سازی کے لیے اپنے ممبران کی تعداد مکمل کر چکی ہے، آزاد اراکین کی شمولیت کے علاوہ ایم کیو ایم نے بھی تحریک انصاف کی حمائت کا اعلان کر دیا ہے ۔ عمران خان کے دست راست جہانگیر ترین حکومت سازی کے عمل میں سب سے آگے ہیں اور مطلوبہ ممبران کی تعداد پوری کرنے میں ان کی شہرت کو چار چاند لگے ہوئے ہیں ۔مرکزی حکومت کے ساتھ پنجاب میں بھی تحریک انصاف اپنی حکومت بنانے کے لیے پر عزم ہے اور آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد پنجاب اسمبلی میں اس کے ارکان کی تعداد بھی مسلم لیگ نواز سے بڑھ رہی ہے ۔
دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ نواز کے صدرجناب شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز بھی اس کوشش میں ہیں کہ ان کی پارٹی کی پنجاب میں حکومت بن جائے لیکن پانی کا دھارا اس مرتبہ الٹی سمت بہہ رہا ہے اور آزاد ارکان تحریک انصاف کو ترجیح دے رہے ہیں جس کی وجہ سے مسلم لیگ نواز کے لیے پنجاب کی حکومت ان سے دور ہوتی جارہی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ مسلم لیگ نواز کا پنجاب میں دس سالہ اقتدار ختم ہو چکا ہے اور اب ان کو مرکز کی طرح پنجاب میں بھی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہوگا ۔
پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے تحریک انصاف کی جانب سے ابھی تک کوئی نام سامنے نہیں آسکا۔ وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار شاہ محمود قریشی کی صوبائی اسمبلی کی نشست سے ہارکے بعد تحریک انصاف کے کچھ رہنما اس کوشش میں ہیں کہ پنجاب کی پگ ان کی سر پر رکھی جائے کیونکہ ان کی پارٹی کی مالی قربانیاں بہت زیادہ ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ یہ قرعہ کس کے نام نکلتا ہے کیونکہ جس پر بھی پنجاب کی پگ رکھ دی جائے گی یہ اس کی صلاحیتوں کا ایک بہت بڑا امتحان ہو گا کیونکہ شہباز شریف پنجاب میں جس حکومت کی طرح ڈال چکے ہیں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط اعصاب اور سخت محنت کی ضرورت ہو گی اس لیے پنجابی کوئی ایسا وزیر اعلیٰ ہی قبول کریں گے جو کہ گزشتہ حکومت سے بڑھ کر کار کردگی دکھائے ۔
عمران خان کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا فیصلہ کرنے میں بڑے تدبر اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور کسی بھی جذباتی فیصلے سے بچنا ہوگا کیونکہ ان کا یہ ابتدائی فیصلہ ہی پنجاب میں ان کی پارٹی کے مستقبل کا تعین کرے گا اور پنجابیوں کا یہ حق بھی ہے کہ ان کی حکومت ایک ایسی شخصیت کے سپرد کی جائے جو کہ لاہور سے نکل کردوسرے اضلاع میں بھی اسی طرح کام کرے جیسے کہ لاہور میں ہو چکے ہیں۔ پنجاب نے دوسرے صوبوں سے بڑھ کر عمران خان کی پارٹی کو ووٹ دیے ہیں اور اب وہ اپنے ووٹ کا بدلہ چاہتے ہیں، ایک اچھا حکمران جو کہ پورے صوبے کے لیے یکساں سوچ رکھتا ہو وہی حکمران پنجاب میں قابل قبول ہو گا۔
حکومت سازی کا عمل مکمل ہونے میں اب کچھ زیادہ دن نہیں رہ گئے، تحریک انصاف کی قیادت ایک ہی محور کے گرد گھومتی ہے اور وہ محور جناب عمران خان کی طلسمہ خیز شخصیت ہے جس پر آج کل سب کی نظریں ہیں۔ انھوںنے اپنی مستقل مزاجی سے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وہ کوئی بھی بڑا ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔ انھوں نے جس طرح پاکستان کے عوام میں بیداری کی لہر پیدا کی وہ ایک مثال ہے اس طرح کی لہر سے ہماری قوم ایک مدت کے بعد جاگی ہے اور اس نے ستر سالوں میں سیاستدانوں کی حکومت کو ایک اور موقع دے کر یہ کوشش کی ہے کہ شائد یہ نئے حکمران پرانے حکمرانو ں سے بہتر ہوں ۔
قوم نے ووٹ دے کراپنا کام کر دیا ہے اوراپنا بوجھ عمران خان کے کندھوں پر ڈال دیا ہے اب یہ عمران خان کی فہم و فراست اور بصیرت ہے کہ وہ قوم کی امانت کی کس طرح حفاظت کرتے ہیں اور ووٹ کا بدلہ کیسے دیتے ہیں کیونکہ ان کو اتنے زیادہ مسائل اور چیلنج درپیش ہیں جس کا ان کو ادراک ہے لیکن مستقبل میں یہ چیلنجز ایک عفریت بن کر سامنے آنے والے ہیں ان کی حکومتی ٹیم میں چند ایک کے علاوہ کسی کو حکومت چلانے کا تجربہ نہیں ۔ ایمانداری کا وصف البتہ ایک اضافی خوبی ہے لیکن اس کے سہارے حکومت نیک نامی تو کما سکتی ہے لیکن حکومتی معاملات پر کنٹرول اور معیشت کے دگر گوں حالات سے نپٹنے کے لیے ان کو مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے جس کے لء نیک نامی کام نہیں آ سکتی۔
آزاد میڈیا نئی حکومت کو چند دن کی مہلت بھی نہیں دے گا اور جو ترانے ہر طرف سنائی دیتے ہیں ان کی دھن بدلنے میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگتا ۔ بہرحال قوم کی یہ خواہش ہے کہ ان کی نئی حکومت ان کی توقعات کے مطابق ہو اور ان کو حکومت کی جانب سے مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ان مشکل حالات میں پوری قوم کا ایک ہی لیڈر ہے اور وہ عمران خان کی صورت میں اپنی مسیحائی کے منتظر ہیں ۔
Comments are closed.