لو بلڈ پریشر اور سقوط ڈھاکہ؟ – عطا ء الحق قاسمی
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کیسی کیسی نعمتیں پیدا کی ہیں۔ جن میں سے ایک لو بلڈ پریشر بھی ہے بہت عرصہ پہلے میں خود اس نعمت سے بہرہ ور رہا ہوں چنانچہ ان دنوں میرا بلڈ پریشر سو سے اوپر نہیں گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈاکٹروں نے تنگ آکراسے نارمل قرار دے ڈالا۔
لو بلڈپریشر کو میں نے اگر نعمتوں میں شمار کیا ہے تو ایسے ہی نہیں کیا بلکہ میرے پاس اس کی واضح وجوہ ہیں مثلاً وہ مرض ہے جس میں مریض کے کھانے پینے پر نہ صرف یہ کہ کوئی پابندی نہیں بلکہ مرغ مسلم، کڑاہی گوشت یخنی پلائو کباب نہاری پائے اور اس نوع کی دوسری چیزیں مریض کے لئے خاصی مفید سمجھی جاتی ہیں آپ یوں سمجھئے کہ ایک لو بلڈ پریشر کے مریض کو اگر دن میں دوا کی تین خوراکیں لینا ہیں تو ان میں سے صبح کی خوراک نہاری یا پائے دوپہر کی خوراک پلائو کباب اور شام کی خوراک مرغ مسلم یا کڑاہی گوشت ہوسکتی ہے۔
بہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
لو بلڈ پریشر کا مریض نمک زیادہ سےزیادہ استعمال کرتا ہے اور اسے حلال کم سے کم کرتا ہے کیونکہ وہ حسن اتفاق سے سست الوجود بھی ہے یعنی اگر وہ نمک پوری طرح حلال بھی کرنا چاہے تو جسمانی طور پر اس کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ لو بلڈ پریشر والوں کے مقابلے میں میں نے ہائی بلڈ پریشر والوں کو دیکھا ہے کہ اگر انہیں کسی بات پر غصہ آجائے تو ان کا بلڈ
پریشر مزید ہائی ہو جاتا ہے جبکہ لو بلڈپریشر والوں کے لئے غصہ بھی مفید ہے کہ اسی بہانے بلڈ پریشر ہائی تو ہوتا ہے۔ لو بلڈ پریشر والوں پر اللہ تعالیٰ کے جتنے احسانات ہیں اگر میں گنوانے پر آجائو تو دفتر کے دفتر بھر جائیں تاہم ان میں سے نمایاں ترین احسانات میں سے ایک احسان یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کی یادداشت کمزور ہوتی ہے اس کا فائدہ تو اس شاعر سے پوچھیں جس نے؎
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
والا شعر کہا تھا۔ علاوہ ازیں لو بلڈپریشر والے شخص کے جسم میں چونکہ خون کی سرکولیشن پوری طرح نہیں ہوتی اورسر اور آنکھیں بھی جسم کا حصہ ہیں لہٰذا اس سے یہ استخراج کیا جاسکتا ہے کہ اس کی آنکھوں میں خون نہیں اترتا ذرا مناسب لفظوں میں یہ بات ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس میں جھوٹی غیرت نہیں ہوتی کہ یونہی بات بات پر آنکھوں میں خون اتر جائے۔ لو بلڈ پریشر والے پر ہر وقت غنودگی کی کیفیت بھی طاری رہتی ہے اور یوں وہ بغیر کسی مہلک نشے کے؎
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے
والی کیفیت کے مزے لوٹتا ہے اسی طرح وہ یکسوئی کے عذاب سے بھی محفوظ ہوتا ہے یعنی یہ نہیں کہ وہ ہر کام جان جوکھوں میں ڈال کر کرے اور یوں ایک ہی دھن میں مگن رہے بلکہ اس کے برعکس یہ بندہ آزاد ضروری سے ضروری کام سے بھی دامن جھٹک کر کسی دیوار کے سائے تلے جا کر بیٹھ سکتا ہے۔
ہوگا کسی دیوار کے سائے کے تلے میرؔ
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
اس شعر اور اس نوع کے دوسرے شعروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ میر تقی میر بھی لو بلڈ پریشر کے مریض تھے تاہم میرے نزدیک لو بلڈپریشر کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگر خون دینے کا وقت آئے تولو بلڈ پریشر والوں کے پاس خون نہ دینے کا طبی جواز ہوتا ہے چنانچہ ان دودھ پینے والے عاشقوں کو خون دینے کی ضرورت کم ہی پڑتی ہے۔ خون دینا تو دور کی بات ہے، پارٹی کو ان کی ضرورت پڑے تو یہ پارٹی ہی بدل لیتے ہیں! اس وقت مسلم لیگ (ن) چھوڑنے والے دراصل لو بلڈپریشر کے مریض ہیں اور یہ صرف آج نہیں ہوا بلکہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک وجود میں آنے والی حکومتوں کے ارباب اختیار پر نظر ڈالیں ان کی ایک معقول بلکہ نامعقول تعداد سابقہ حکومتوں کے نمک خوروں پر مشتمل ہوگی۔ ایک دفعہ ایک وزیر خزانہ صاحب کا میں نے بیان پڑھا کہ سابقہ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک اس حال کو پہنچا ہے۔ حالانکہ سابقہ تمام حکومتوں کی معاشی پالیسیاں خود انہی وزیر خزانہ صاحب نے بنائی تھیں اور یہ جو بلڈ پریشر والوں کو غصہ کم آتا ہے یا اصولاً کم آنا چاہئے تو اس سے مفید چیز اور کوئی ہے ہی نہیں۔ اپنی آنکھوں کے سامنے ملک اجڑتادیکھیں اور اس پر ذرا بھی غصہ نہ آئے تو اس سے ترقی کی راہیں کھل جاتی ہیں چنانچہ متواتر آٹھ آٹھ دس دس سال جنہوں نے حکومت کی ہے ایسے ہی نہیں کی بلکہ ملک دشمنوں کے ساتھ ان کی نرم جوئی نے بھی ان کے اقتدار کو استحکام بخشا ہے اور جہاں تک یادداشت کی کمزوری کا تعلق ہے۔ اس کا فائدہ مجھ سے کیا پوچھتے ہیں۔ رہنمائوں سے پوچھیں جن کی ساری رہنمائی عوام کی کمزور یادداشت پر قائم و دائم ہے بلکہ کمزور یادداشت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ سقوط ڈھاکہ کا سانحہ بھی مجھے یاد ہی نہیں رہا۔ اگر یہ سب کچھ مجھے یاد رہ جاتا تو آج ہم لوگ بڑے بڑے گھروں میں رہنے کے بجائے خندقوںمیں رہتے اور اس وقت باہر آتے جب اپنے گھٹیا ہمسائے سے اپنی ذلت کا بدلہ نہیں لے لیتے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Comments are closed.