مرغ فروش اور سردار جی – عطا ء الحق قاسمی
گزشتہ ہفتے اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا تو ٹریفک سگنل سرخ ہونے پر ایک نوجوان دیوانہ وار خوشخبری خوشخبری کے نعرے لگاتا ہوا ایک طرف سے نمودار ہوا اور بتی سبز ہونے کے انتظار میں رکی کاروں کی کھڑکیوں سے ایک اشتہار اندر پھینکنے لگا ایک اشتہار مال غنیمت کے طور پرمیرے ہاتھ بھی لگامیں نے بے تابی سے وہ اشتہار پڑھنا شروع کیا۔ اس پر ایک کلغی والے مرغ کی تصویر بنی تھی اور اس کے نیچے قوم کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ اگر آپ میری دکان سے مرغ خریدیں گے تو میںمرغ ذبخ کرنے اور اس کی کھال اتارنے کا فریضہ بالکل مفت انجام دوں گا، یہ خوشخبری پڑھ کر فرط مسرت سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس کے ساتھ ہی مرغ کی تصویر دیکھ کر میری ہنسی بھی نکل گئی، موصوف نے اپنی کلغی سے کج کلاہی کا کام لیتے ہوئے پروں کو پھلا کر اذان دینے کے انداز میں تصویر اتروائی تھی اور اپنی طرف سے ایسا پوز مارا تھا جیسے یہ تصویر ضرورت رشتہ کے اشتہار کے لئے کھنچوائی ہو۔ اور اسے یقین ہو کہ جو مرغی بھی تصویر کو دیکھے گی اس کے حرم میں شامل ہونے کے لئے دیوانہ وار کھنچی چلی آئے گی مگر اس بے زبان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کی تصویر خود اس کی کھال اتارنے کے اشتہار میں استعمال ہو رہی ہے ۔
یہ اشتہار پڑھ کر مجھے اپنا ایک دوست یاد آ گیا۔ جس نے اپنے زمانہ غربت کا
ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ ایک دفعہ ایک مہربان انہیں اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک ہوٹل میں اسے کھانا کھلایا سگریٹ کی ایک ڈبی بھی خرید کر دی اور اس کے بعد اسے ایک جگہ نوکری دلانے کے لئے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ دوست کے مطابق وہ مہربان اسے ایک صنعت کار کی کوٹھی میں لے گیا۔ اور باہر برآمدے میں بٹھا کر خود ڈرائینگ روم میں داخل ہو گیا کچھ دیر بعد وہ مہربان صنعت کار کے ساتھ باہر برآمدے میں آیا اور اس نے میرے دوست کے کاندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کوئی بات نہیں نوجوان زندگی میں ایساوقت بھی آتا ہے مگر انسان کو حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے۔
رستے میں مہربان نے بتایا کہ تمہاری نوکری کی بات ہو گئی ہے۔ انشاءاللہ چند روز تک تمہارا کام ہو جائے گا اور جاتی دفعہ اس مہربان نے میرے دوست کی جیب میں زبردستی دو سو روپے بھی ڈال دئیے اگلے روز میرے اس دوست کا ایک دوست بہت غصے کے عالم میں اس کے گھر آیا اور کہا مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی کہ تم اتنی نیچلی سطح پر بھی اتر آئو گے۔ میرے دوست نے اس خفگی کی وجہ پوچھی ۔ تو اس نے بتایا کہ گزشتہ روز اس صنعت کار کے ڈرائنگ روم میں موجود تھا جہاں تم اپنے مہربان کے ساتھ آئے تھے تمہارے مہربان نے صنعت کار سے کہا کہ میرے ساتھ ایک نوجوان ہے جو نہایت غریب مگر غیور ہے گزشتہ تین دن سے اس نے کھانا نہیں کھایا اور آج صبح اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ لاش بے گوروکفن پڑی ہے۔ اور اس بیچارے کے پاس تکفین وتدفین کے لئے ایک پیسہ بھی نہیں ہے یہ سن کر صنعت کار نے جیب سے نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر کہا اسے چپکے سے میری طرف سے دے دو تمہارے مہربان کی رقت انگیز تقریر سن کر میرا دل اتنا پسیجا کہ میں نے بھی اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جو کچھ تھا نکال کر اسے دے دیا۔ ہم جب باہر آئے تو آگے تم بیٹھے ہوئے تھے میں تمہیں اس وقت شرمندگی سے بچانے کے لئے وہیں سے واپس ہو گیا۔ تمہیں شرم آنی چاہئے اپنے شریف ماں باپ کا نام ڈبوتے ہوئے آئندہ سے میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہی صورتحال اس مرغے کے ساتھ بھی پیش آ رہی تھی ۔ تصویر کچھ اور تھی اور مقصد کچھ اور! ٹریفک سگنل پر مرغ کا اشتہار دینے تک معاملہ محدود ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی ہمارے ہاں تو ایک دن ایک شخص سرخ ٹریفکسنگل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کہیں سے ہاتھ میں چھری لہراتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور افراد ہی نہیں اداروں کو بھی تہہ تیغ کرتا واپس چلا جاتا ہے ۔ ایسا شخص تو کلغی ٹیڑھی کر کے پر پھلا کر اذان دینے کے پوز میں ہمیں تصویر اتروانے کا موقع بھی نہیں دیتا کہ کوئی پتہ نہیں اس کے بعد وہ ذبح ہونے کے لئے گردن نیہوڑانے کی بجائے چھری والا ہاتھ ہی پکڑ لے۔ ایک سردار جی کا دانت بری طرح درد کرتا تھا مگر وہ دانت نکلوانے کے خوف سے ہر دفعہ تکلیف برداشت کر جاتے تھے ایک دفعہ دوستوں کے اصرار پر وہ بالآخر دندان ساز کے پاس جانے پر تیار ہو گئے دندان ساز نے اپنے اوزار تیار کئے تو سردار جی نے جیب سے شراب کی بوتل نکالی اور کہا ’’دو گھونٹ‘‘ پینے دیں تاکہ دانت نکلوانے کا خوف ذہن سے زائل ہو جائے دندان ساز کا سردار سے اتفاق ہو گیا ۔ سردار جی نے بوتل کو منہ سے لگایا اور آدھی بوتل پینے کے بعد جھوم کر کہنے لگے ’’اب تم میرے دانت کو ہاتھ لگا کر تو دیکھو‘‘ لیکن ہمارے مہربان اس قسم کا رسک لینے کو کبھی تیار نہیں ہوتے وہ پہلی فرصت میں مکا مار کر ہماری بتیسی باہر نکال دیتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Comments are closed.