ملک کے نومنتخب ارکان اسمبلی سے ایک سوال – جاوید چوہدری
میں آپ کو 71 سال پیچھے لے جانا چاہتا ہوں‘یہ ملک کہاں سے شروع ہوا تھا؟یہ ملک کانٹوں سے شروع ہوا تھا‘ پاکستان میں 15 اگست 1947ء کو سرکاری دفتر نہیں تھے‘اگر دفتر تھے تو میز اور کرسی نہیں تھی‘اگر کرسی اور میز تھی تو کاغذ اور قلم نہیں تھا اور اگر قلم اور کاغذ تھے تو فائل کور اور پیپر پن نہیں تھی چنانچہ وزراء نے اپنی ذاتی رہائش گاہوں کو دفتر بنا لیا۔
سیکریٹری سیکریٹریٹ کے لانوں میں بیٹھنے لگے اور سٹینو گرافر‘ ڈپٹی سیکریٹری اور آفس سپرنٹنڈنٹس نے ٹرنکوں‘ کریٹوں اور بکسوں کو کرسی اور میز بنا لیا اور درختوں کے سائے کو آفس‘ یہ لوگ گھر سے اپنے بچوں کی کاپیاں اور رجسٹر لے آتے تھے‘ یہ ان کی سرکاری سٹیشنری ہوتی تھی‘پیپر پن ہوتی نہیں تھی لہٰذا یہ لوگ سرکاری کاغذوں کو جوڑنے کے لیے کیکر کے کانٹے استعمال کرتے تھے۔
کیکر کے کانٹے مکلی کے قبرستان سے آتے تھے‘مکلی میں کیکر کے ایکڑوں تک پھیلے جنگل تھے‘ مکلی کے لوگ کیکروں کے کانٹے چن کر جمع کرلیتے تھے‘ سرکاری بابو سائیکلوں پر ٹھٹھہ پہنچتے تھے اور آٹھ آنے سیر کے حساب سے کانٹے خرید کر واپس کراچی آ جاتے تھے‘ یہ کانٹے اس وقت وقف املاک سے لے کر وزیراعظم کے آرڈر تک تمام سرکاری کاغذوں پر لگائے جاتے تھے۔
یہ تھا 1947ء کا پاکستان‘ اس پاکستان میں کانٹے تو تھے لیکن ان کانٹوں کے ساتھ ملک کو آگے بڑھانے‘ آزادی کو سلامت رکھنے‘ ملک میں رول آف لاء قائم کرنے‘ اسلامی معاشرہ بنانے‘ لوگوں کو تعلیم‘ صحت اور خوشحالی دینے اور عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ تھا‘ لوگ دن رات کام کرتے تھے‘ سرکاری ملازم چھٹی کے بعد بھی دفتر بیٹھتا تھا‘ استاد ٹیوشن کو حرام سمجھتا تھا‘ وہ گھر کو اسکول بنا لیتا تھا اور اسکول کو گھر اور بچے چھٹی کے بعد بھی استاد سے رابطے میں رہتے تھے‘ سرکاری نلوں کا پانی پینے کے قابل ہوتا تھا۔
گھروں میں بجلی کم تھی لیکن جہاں تھی وہاں ہر وقت موجود رہتی تھی‘ ملک میں پولیس اور فوج کم تھی لیکن فوج اور پولیس کی کمی کے باوجود لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا تھا‘ قائداعظم کے ساتھ پروٹوکول اور سیکیورٹی کی صرف ایک گاڑی چلتی تھی اور اس میں بھی پولیس کے صرف دو افسر ہوتے تھے ‘ وزراء کی گاڑیوں کے آگے اور پیچھے ہوٹر اور سیکیورٹی کی کوئی گاڑی نہیں ہوتی تھی‘ وزیراعظم کے گھر کے سامنے پولیس اور کمانڈوز کا پہرہ نہیں ہوتا تھا۔
لوگ سیکریٹریوں تک کے گھروں میں چلے جاتے تھے اور رات دو بجے کے بعد بھی ان سے آرڈر لے آتے تھے‘ جج مقدمات کی فہرست ختم ہونے تک کام کرتے تھے‘ دکاندار منافع کم لیتے تھے اور اشیاء خالص بیچتے تھے‘ دودھ‘ مرچوں اور آٹے میں ملاوٹ نہیں ہوتی تھی‘ قصائی مردہ جانوروں کا گوشت نہیں بیچتے تھے ‘ لیڈر جھوٹ نہیں بولتے تھے‘ میونسپل کمیٹی کا عملہ شہریوں کے جاگنے سے پہلے گلیاں اور نالیاں صاف کر جاتا تھا اور ملک میں رشوت لینا‘ کرپشن کرنا‘ اقرباء پروری کرنا‘ پرمٹ تقسیم کرنا‘ دوسرے کی زمین جائیداد پر بری نظر ڈالنا اور عقیدے کی بنیاد پر دوسروں کو اچھا یا برا کہنے کی بھی کوئی روایت نہیں تھی‘ ٹرینیں کم تھیں لیکن چلتی وقت پر تھیں۔
ملازمتیں کم تھیں مگر ملتی میرٹ پر تھیں‘ مولوی اور رند دونوں ساتھ ساتھ رہتے تھے اور کوئی کسی کو برا نہیں کہتا تھا‘ امام بارگاہ اور مسجد دونوں ساتھ ساتھ ہوتے تھے اور دونوں کے درمیان کبھی کوئی فساد نہیں ہوا تھا‘ جلوس اور جلسے بھی ہوتے تھے لیکن کوئی کسی سرکاری عمارت‘ گاڑی اور اشارے پر پتھر نہیں پھینکتا تھا اور ہم اس وقت بھی غریب تھے لیکن کوئی امیر کو گالی نہیں دیتا تھا‘ کوئی امیر کو اپنی محرومی اور پسماندگی کا ذمے دار نہیں ٹھہراتا تھا لیکن آج ! جی ہاں آج ہمارے پاس پیپر پن تو ہیں‘ ہمارے پاس سرکاری سٹیشنری بھی ہے‘ ڈپٹی سیکریٹری سے لے کر سیکریٹری تک سرکاری گاڑیاں بھی استعمال کرتے ہیں۔
سرکاری دفتر اور دفتروں میں اے سی اور ہیٹر بھی ہیں اور دفتروں کی بتیاں بھی دن رات جلتی رہتی ہیں‘ ہمارے وزیروں کے پاس اربوں روپے کے فنڈز بھی ہوتے ہیں‘ ان کے گھروں‘ دفتروں اور گاڑیوں کے دائیں بائیں آگے پیچھے پولیس کمانڈوز اور رینجرز بھی ہیں‘ وزیراعظم اور صدر ووٹ کے ذریعے الیکٹ ہوتے ہیں لیکن انھیں پندرہویں صدی کے شاہانہ اختیارات بھی حاصل ہیں‘ ہمارے ذرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالرز کو ٹچ کر رہے ہیں‘ ہماری سڑکوں پر گاڑیوں کے فلیٹ کے فلیٹ بھی چل رہے ہیں اور ہمارے ملک میں خوشحالی اور ترقی کے دریا بھی بہہ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اس ملک میں امن نہیں‘ سکون نہیں‘ اطمینان نہیں‘ صفائی اور ایمان نہیں۔
یہ ملک اس وقت ملاوٹی اشیاء کی سب سے بڑی منڈی ہے‘ اس ملک میں آٹے سے لے کر دودھ اور دالوں سے لے کر گوشت تک اور چینی سے لے کر ڈسپرین تک خالص نہیں ملتی‘ اس میں ٹرینیں چودہ چودہ گھنٹے لیٹ ہوتی ہیں اور فلائٹس میں تاخیر معمول بن چکی ہے‘ اس میں میرٹ کی م تک نہیں رہی‘ اس ملک میں جج مقدمے درمیان میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں‘ پولیس اہلکار سر عام رشوت لیتے ہیں‘ وزراء ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں ’’ کرپشن ہمارا حق ہے‘‘ اس میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں بھی اڑھائی ارب روپے ’’خرچ‘‘ ہو جاتے ہیں‘ وزیراعظم عدالتوں اورعدالتیں حکومتوں پر الزام لگاتی ہیں‘ امریکی انتظامیہ سرکاری اداروں سے براہ راست ڈیل کرتی ہے۔
پورے ملک میں صفائی کا کوئی بندوبست نہیں‘ تعلیمی اداروں میں تعلیم نہیں ‘ اسپتالوں میں ڈاکٹر اور دواء نہیں‘ ہمارے ٹھیکیدار قائداعظم اور علامہ اقبال کے مزاروں تک کا فنڈ کھا جاتے ہیں اور ہماری مسجدوں اور امام بارگاہوں سے مسلمانوں کے خلاف کفر کے فتوے جاری ہوتے ہیں ‘ مسلمان مسلمان کو امام بارگاہ اور مسجد میں قتل کر جاتا ہے ‘ ہماری اسمبلیوں میں گالیاں اور دھکے دیے جاتے ہیںاور لوگ افطاری کے کھانے اور عید کے کپڑوں کے لیے خودکشیاں کرتے ہیں لہٰذا آج 71 سال بعد پاکستانی پاکستانیوں سے پوچھ رہے ہیں ’’ ہم نے آزادی کیوں لی تھی‘‘۔
یہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کیا ہم نے گورے آقائوں کے ہاتھ سے نکل کر کالے آقائوں کی خدمت اور جنرل ڈائر کی رائفل کے سائے سے نکل کر جنرل توپ علی خان کے نیچے بیٹھنے کے لیے آزادی حاصل کی تھی‘ کیا ہم نے صرف کلمہ پڑھنے‘ اذان دینے‘ نماز ادا کرنے‘ روزہ رکھنے‘ زکوٰۃ دینے اور حج کرنے کے لیے آزادی حاصل کی تھی‘ اگر ہاں تو یہ فرائض تو ہم انڈیا میں بھی ادا کر رہے تھے۔
ہم 1947ء سے پہلے بھی حج کر رہے تھے‘ زکوٰۃ دے رہے تھے‘ روزہ رکھ رہے تھے‘ نماز پڑھ رہے تھے‘ اذان دے رہے تھے ‘ کلمہ اداکر رہے تھے اور یہ فرائض آج بھی انڈیا کے مسلمان‘ امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی اور اٹلی میں رہنے والے مسلمان حتیٰ کہ اسرائیلی علاقوں کے مسلمان شہری بھی ادا کر رہے ہیں‘ یہ شہری اسلامی فرائض کی ادائیگی میں ہم سے بھی بہتر ہیں‘ ان کی مسجدوں‘ امام بارگاہوں اور قبرستانوں پر حملے بھی نہیں ہوتے‘ ان کے بینک یکم رمضان کو ان کی زکوٰۃ بھی نہیں کاٹتے اور ان کی مسجدوں میں سحری اور افطار کے دوران لڑائیاں جھگڑے بھی نہیں ہوتے اور وہاں مسلمانوں کے کلمے کو مشکوک نظروں سے بھی نہیں دیکھا جاتا۔
یہ لوگ اگر غیر مسلم معاشروں میں ہم سے بہتر اسلامی فرائض ادا کر سکتے ہیں اور پاکستان بننے سے پہلے بھی ہمیں نماز‘ روزے اور کلمے کی کوئی روک ٹوک نہیں تھی تو پھر ہم نے یہ آزادی کیوں حاصل کی تھی؟ کیا اس کا مقصد کرپٹ اشرافیہ کو اربوں روپے کی کرپشن کے بعد قانون سے بچانا تھا‘ کیا اس کا مقصد حکمرانوں کو سوئس کیسز سے محفوظ رکھنا تھا‘ کیا اس کا مقصد حج کے دوران حاجیوں کی کمائی لوٹنا تھا‘ کیا اس کا مقصد این آئی سی ایل کے اربوں روپے ہضم کرنا تھا‘ کیا اس کا مقصد ہر دس سال بعد کسی نہ کسی جنرل بندوق علی خان کو اقتدار کی ڈش پیش کرنا تھا اور کیا اس کا مقصد خوراک میں ملاوٹ سے لے کر قرآن مجید چھاپنے کے نام تک لوگوں کے پیسے ہڑپ کرنا تھا؟
اگر ہمارا مقصد یہ تھا تو پھر ہم آج کامیاب ہو چکے ہیں لیکن ایسا نہیں تھا‘ ہم ایک آزاد ملک بنانا چاہتے تھے ‘ ایک ایسا آزاد ملک جس میں دادا سے لے کر پوتا تک سب آزاد سانس لے سکیں لیکن آپ بدقسمتی دیکھئے پاکستان 71 سال بعد دنیا کے کرپٹ‘ بے ایمان اور گندے ترین لوگوں کا ملک بن چکا ہے‘ آج عدالت سے لے کر قبرستان تک ملک کے ہر ادارے سے تعفن اٹھ رہا ہے‘ آج لوگ دواء سے لے کر بجلی تک دنیا کی ہر نعمت کو ترس رہے ہیں اور آج لوگ ایک دوسرے کے کلمے اور نماز تک کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
آپ یہ حالات دیکھئے‘ دل پر ہاتھ رکھئے اور اس سوال کا جواب دیجیے کیا ہمارا سفر کانٹوں سے شروع ہوکر جھاڑیوں پر آ کر ختم نہیں ہوگیا؟ ہم آزاد ہو گئے لیکن ہم آج تک خودمختار نہیں ہو سکے اور اگر یہ کہا جائے ہم کانٹے سے پیپر پن تک تو پہنچ گئے لیکن ہم واہگے سے وعدے تک نہیں پہنچ سکے ‘ ہم نے آزادی تو حاصل کر لی لیکن ہم نے اصولوں کی قربانی دے دی توکیا یہ غلط ہوگا۔
کاش آج 71 سال بعد ہم سے کوئی پیپر پن لے لے اور ہمیں کانٹوں والا پاکستان واپس کر دے کیونکہ اس پاکستان میں جذبہ اور اصول تھے‘ اس میں اتحاد اور ایمان تو تھا۔کاش ہم سے کوئی عمران خان‘ آصف علی زرداری اور نواز شریف کا پاکستان لے لے اور ہمیں قائداعظم کا پاکستان لوٹا دے‘ وہ پاکستان جس میں چند مسلمان طالب علم قائداعظم سے ملاقات کے لیے آئے‘ وہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا‘ وائسرے نے ہندوستان میں سائیکلوں پر بتی لگانے کا حکم دے رکھا تھا‘ یہ حکم قانون کی حیثیت رکھتا تھا‘ مسلمان اور ہندو اکثر سرکاری احکامات کی خلاف ورزی کرتے رہتے تھے۔
قائداعظم نے طالب علموں سے پوچھا ’’ آپ میں سے کس کس کے پاس سائیکل ہے‘‘ تمام نوجوانوں نے ہاتھ اٹھا دیے‘ قائداعظم کا اگلا سوال بہت دلچسپ تھا‘ آپ نے پوچھا ’’ اور کس کس کی سائیکل پر بتی ہے؟‘‘ ایک نوجوان کے سوا تمام نے ہاتھ نیچے گرا دیے‘ نوجوانوں کا خیال تھا قائداعظم قانون کی اس خلاف ورزی پر خوش ہوں گے لیکن قائداعظم توقع کے برعکس اداس ہو گئے‘ آپ نے نوجوانوں سے فرمایا ’’ ینگ مین‘ قانون قانون ہوتا ہے اور آپ سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے‘‘ نوجوانوں نے عرض کیا ’’ جناب یہ انگریز کا قانون ہے‘ ہم اس پر کیوں عمل کریں‘‘۔
قائداعظم نے جواب دیا ’’ نوجوانو! جو شخص آج قانون پر عمل نہیں کر رہا‘ وہ کل ہمارے پاکستان میں بھی قانون کی خلاف ورزی کرے گا ‘ آپ میری بات پلے باندھ لیں‘ ہمارے ملک میں قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہو گی‘‘کیا آج واقعی قائداعظم کے پاکستان میں قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کی کوئی گنجائش نہیں؟میں یہ سوال ملک کی پندرھویں اسمبلی کے تمام نو منتخب ارکان کے سامنے رکھتا ہوں۔
Comments are closed.