میں یہ کالم واپس لیتاہوں – حسن نثار
آ ج تک مجھ کُودن کو یہ معمولی سی بات سمجھ نہیں آئی کہ اچھے خاصے ہٹے کٹے، اچھلتے، کودتے، ہنستے، کھیلتے، پھدکتے، چیختےاور چنگھاڑتے سیاستدان جیل جاتے ہی بیمار کیوں ہو جاتے ہیں؟ کہیں ایساتو نہیں کہ روپ، بہروپ اور ڈھونگ سوانگ ہی ان کی اصل سیاست ہوتی ہے۔ بہروپئے ’’پیارے ہم وطنو‘‘ ….. ’’بزرگو، بھائیو، بہنو، بیٹیو‘‘ جیسے بلڈاگ قسم کے ڈائیلاگ تو بول سکتے ہیں لیکن ان کی طرح ایک دن بھی چین سے نہیں گزار سکتے۔ انہیں مچھر کاٹتے ہیں، گرمی لگتی ہے، بدبو آتی ہے، باتھ روم برداشت نہیں ہوتے۔ ایک قومی اخبار (جنگ نہیں) کے مطابق ’’جیل میں اے سی لگنے تک نواز شریف چڈی بنیان میں رہے۔ انتظامیہ کو دبے لفظوں میں دھمکیاں دیں‘‘ کیسے عوامی نمائندے ہیں جو عوام کی طرح ایک پل نہیں گزار سکتے لیکن ان کے ساتھ جینے مرنے کے دعوئوں، وعدوں سے باز نہیںآتے اور صدقے جائوں ایسے سادہ لوح عوام کے بھی جو اُن کی باتوں پر ایمان لے آتے ہیں۔ فرمان یہ ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا لیکن اللہ نظر بد سے بچائے ہم تو سوراخ سے اٹھنے کا نام نہیں لیتے۔ 30، 30سال جم کے بیٹھے رہتےہیں۔نوازشریف نے جیل سے گرتی دیوار کو اک اور دھکا دینے کا پیغام بھیجا جس پراچانک یہ بھولا بسرا شعر یاد آ رہا ہے جس میں کوئی کمی بیشی رہ جائے تومعافی
چاہتاہوں۔دیوارِخستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگامیں گر پڑوں گا دیکھ سہارا نہ دے مجھےCHARLES DICKENS کا یہ جملہ کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔”We forge the chains we wear in life.”مجھے ٹھیک سے یاد نہیں امریکہ یا شاید کینیڈا کی کسی کراس روڈ پر یہ سائن دیکھا تھا جومیرے دماغ سے چپک کر رہ گیا۔”Be careful which road you choose___ you will be on it for the next 200 miles.”واقعی ایک غلط موڑ پینڈے کوبہت لمبا اور اذیت ناک کرسکتاہے۔ سفر میں 200میل کا اضافہ تو بندہ پھر روپیٹ کر کاٹ لیتا ہے یعنی غلط رستے کا انتخاب براہے تو غلط بندے کا انتخاب بہت ہی برا ہوتا ہے۔کالم ابھی یہاں تک ہی پہنچا تھا کہ نجی ٹی وی چینل پر یہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ سنی کہ جاتی امرا کا نظریاتی اور ’’بمارشمار‘‘ باغی المعروف ’’مجھے کیوںنکالا‘‘….. ’’مجھے پھر نکالو‘‘ پر آ کر کسی نئے این آر او کے لئے بے تاب ہے۔ جیل میں خفیہ ملاقاتوں کے دوران نواز شریف نے پاکستان چھوڑنے کی یقین دہانی کرائی ہے اوروجہ اس کی یہ بتائی جارہی ہے کہ آپ اپنے تاریخی استقبال سے تاریخی طور پرمایوس ہوچکے ہیں۔ یاد رہے کہ حال ہی میں گوالمنڈی کے چی گویرا نے جیل میں پنجاب اورکے پی کے گورنروں کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں کی ہیں۔ قارئین!معاف کیجئے میں تو پونا کالم ’’انتخاب‘‘ پر ہی ضائع کر بیٹھا جبکہ یہاں ’’این آر او 2018‘‘ کی افواہیں چل رہی ہیں تو بہتر یہی ہوگا میں معافی مانگ کر یہ کالم ہی واپس لے لوں۔دیوار پر ایک اور مختصر نظم یاد آئی؎’’لکھا ہے دیوارِچمن پر، پھول نہ توڑولیکن تیز ہوا اندھی ہے‘‘تبدیلی کی تیزہوا تو بہت ہی اندھی ہوتی ہے اوراس شعر کا بھی جواب نہیں؎دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کیلوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لئےیہاں سکول کاوہ مالی یاد آگیا جو پودوں کو پانی دیتے ہوئے لہک لہک کر سریلے انداز میں گنگنایا کرتا تھا؎زیر دیوار کھڑے ہم ترا کیا لیتے ہیںدیکھ لیتے ہیں تپش دل کی بجھا لیتے ہیںاورمصرع یہ بھی لاجواب ہے؎’’دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے‘‘نوشتہ ٔ دیوار ہے یہ بھی کہ آج کا دن (25جولائی) مہینوں اور سالوں ہی نہیں عشروں پر بھاری ہوگا۔ عوام ’’انارکلی‘‘ کی مانند یا تو پھر 5سال کے لئے دیوار میں چن دیئے جائیں گے یا اس بار ’’انارکلی‘‘ پوری کی پوری دیوار عالم پناہ کے دربار اور درباریوں پر الٹ دے گی۔انسان کے بس میں نہیں کہ اپنے والدین کا انتخاب کرسکے لیکن قدرت انسان کو لیڈر کے انتخاب کا موقع اور تحفہ ضرور دیتی ہے اور بے شک انسان اپنے انتخاب سے پہچانا جاتا ہے بالخصوص معاملہ جب قیادت کے انتخاب کا ہو۔ BOREHAM نے کہا تھا۔”We make our decisions, and then our decisions turn around and make us.”
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Comments are closed.