نئی حکومت اور امریکا – عبدالقادر حسن
پاکستان دشمنوں کا پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ ہمیشہ سے جاری ہے اور جب بھی پاکستان کی ترقی کا کوئی مثبت پہلو نکلنا شروع ہوتا ہے تو ملک دشمن پروپیگنڈے کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے اس ملک پر کوئی الزام لگا دیتا ہے اور بعض لوگ تو پاکستان کے بارے میں گالی بکنے سے بھی باز نہیں آتے۔
مغربی ملکوں نے اپنے مفاد اور تفریح کے لیے ایسے ادارے بنا رکھے ہیں جن کی طرف سے وہ ایسی رپورٹیں اور بیانات سامنے لاتے رہتے ہیں جن میں کسی بھی کمزور ملک کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر اس کا مزہ لیا جاتا ہے۔ اس طرح کے ادارے یورپ کے علاوہ امریکا میں قائم ہیں جو ملکوں میں رشوت ستانی اور بدعنوانی کا حساب کتاب رکھتے ہیں۔ اپنے آپ کو غیر جانبدار ثابت کرنے کے لیے بعض گورے ملکوں کا ذکر بھی کر دیا جاتا ہے لیکن ان کا اصل نشانہ کمزور اور تیسری دنیا کے ناپسندیدہ ملک ہی ہوتے ہیں۔
پاکستانی جب اپنے ملک کے بارے میں کوئی بری رائے پڑھتے سنتے ہیں تو وہ اس کو حق سچ کی بات سمجھ کر بددل ہو جاتے ہیںاور اپنے آپ کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ بس یہی کچھ ان اداروں کا مقصد ہوتا ہے کہ وہ اپنے ناپسندیدہ ملکوں میں بے چینی پیدا کرتے رہیں۔ہماری خرابی یہ ہے کہ ہم اپنے اوپر یقین نہیں کرتے اور مغربی ملکوں کی ہر بات کو حرف آخر سمجھ کر اپنے آپ کو سچ مچ کا ویسا ہی سمجھنا شروع کر دیتے ہیں جیسے یہ سمجھاناچاہتے ہیں اور اس طرح بڑی سادگی سے ان کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔
امریکا جیسا بڑا ملک اور بلا شک و شبہ پاکستان کی مدد سے دنیا کی واحد سپر پاور بننے والا ملک کے بارے میں پاکستان کے عوام یہ رائے رکھتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کی ڈوریاں امریکا سے ہلتی ہیں اور ملک میں جب بھی کوئی تبدیلی آتی ہے اس میں امریکا کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے اس رائے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے امریکا کا ساتھی بن کر روس جیسی طاقت کو افغانستان کی جنگ میں پچھاڑ دیا اور اس جنگ کے دوران ڈالروںکی برسات کے ساتھ پاکستان اور امریکا کے تعلقات بھائیوں جیسے رہے لیکن امریکا نے اپنا مطلب نکلتے ہی درپردہ پاکستان کو اپنے ناپسندیدہ ملکوں میں شامل کیے رکھا اور پاکستان کے دشمنوں کو ہمیشہ اس پر قوفیت دی۔
اس حقیقت کے باوجود ہمارا رجحان امریکا کی جانب ہی رہا اور یہ یک طرفہ محبت کسی نہ کسی طور چلتی ہی رہی۔ امریکا کی افغان سر زمین پر دوسری جنگ جو کہ خالص امریکا کی اپنی جنگ تھی لیکن ا س کو محل وقوع کی وجہ سے پاکستان کی اشد ضرورت تھی تو ہمارے اس وقت کے حکمرانوں نے امریکی دھمکی میں اپنے پڑوسی کے خلاف امریکی جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا امریکا یہ بات جانتا تھا کہ پاکستان کی مدد کے بغیر یہ جنگ نہیں جیتی جا سکتی اس لیے اس نے دھمکی سے کام چلانے کی کوشش کی اور اس کی دھمکی کام کر گئی مگر ہم نے اس دھمکی میں آنے کے باوجود کسی خاص مطالبے کے بغیر امریکا کا ساتھ دیا اور نتیجے میں اپنے ہی ملک کے اندر طالبان کی صورت میں امن و امان کی خراب صورتحال کا سامنا آج تک کر رہے ہیں جب کہ امریکا بے پناہ نقصان کے باوجود افغان جنگ میں ابھی تک ناکام ہی رہا ہے۔
نئے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے جا رہی ہے دنیا بھر کے سفیر ملک کے نئے متوقع وزیر اعظم عمران خان سے غیر سرکاری ملاقاتیںکر رہے ہیں لیکن ابھی تک امریکا کی جانب سے کوئی مثبت رد عمل سامنے نہیں آیا بلکہ ہمارے اوپر مزید پابندیاں لگانے کی منصوبہ بندیاں کی جا رہی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو تحریک انصاف اس سے پہلے ملک کی حکمران نہیں رہی لہذا یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ امریکا تحریک انصاف کی حکومت سے کیوں شاکی ہے کیونکہ امریکا نے ماضی میں اس نئی حکومت کے ساتھ مل کرکام نہیں کیا بلکہ عمران خان تو ملک کی ترقی اور انصاف کے لیے مغربی دنیا کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔
امریکا کے پرانے ساتھی چونکہ تبدیلی کی لہر کا شکار ہو کر اقتدار سے باہر ہو چکے ہیں شائد وہ ان کے ساتھ تعلقات کو زیادہ مفید خیال کرتا ہے یا پھر نئی حکومت کو اپنی طاقت دکھانا چاہتا ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر تیسری دنیا میں کوئی بھی حکومت کامیابی سے نہیں چل سکتی اور امریکا کا یہ خیال ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت کو بھی اس کا مرہون منت رہنا ہو گا۔
امریکا ہر ملک کا پڑوسی ہے فرانس کے صدر کی یہ بات پاکستان پر بھی صادق آتی ہے کیونکہ امریکا افغانستان میں اپنی فوجوں کے ساتھ موجود ہے اور ابھی اس کا وہاں سے واپسی کا کوئی ارادہ بھی نہیں ۔ امریکا نے نئی حکومت کی تشکیل سے قبل ہی اس کو اپنے مرہون منت رکھنے کے لیے اپنے حربے استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں اور اس کا سب سے بڑا حربہ امداد کی بندش اور پاکستان کو بین الاقوامی طور پر تنہا کرنے کا ہے۔
وہ شائد نئی حکومت سے خائف ہے کہ عمران خان جن کا زیادہ تر وقت مغربی ملکوں میں گزرا وہ گوروں کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کے رعب میں بھی نہیں آتے۔ امریکا کی یہ کوشش ہو گی کہ پاکستان کی نئی حکومت بھی اگلے پانچ برس کے لیے ان کے در کی باندی بن کر رہے جو کہ عمران خان کی سربراہی میں ناممکن لگ رہا ہے کیونکہ وہ ہر ملک کے ساتھ برابری کی سطح کے تعلقات کے خواہاں ہیں اور اپنے دشمن ملک بھارت کے ساتھ بھی انھوں نے برابری کی بنیاد پر تعلقات کی بات کی ہے۔
یہ وہ واضح اشارے ہیں جو کہ پاکستان کی مستقبل کی حکومت کی جانب سے دنیا بھر کو مل رہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت میں ان کی دھونس دھاندلی نہیں چلے گی اور ایٹمی پاکستان سے تعلقات برابری کی بنیاد پر استوار رکھنے ہوں گے۔ اس میں کامیابی کے کتنے امکانات ہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا لیکن پاکستان کے مستقبل کے حکمرانوں کو اپنے وعدے کے مطابق پاکستانی عوام کو نیا پاکستان دینا ہے۔
Comments are closed.