نام نہاد آزادمیڈیا
ٹی وی چینلز پر کسی اہم شخصیت کے انٹرویو کے دوران میرے ذہن کی یادداشتوں سے کرن تھاپر نکل کر سامنے آکھڑا ہوتا ہے اور اس کی یہ آواز میرے کانوں سے ٹکراتی ہے کہ میں نے بھارتی اور پاکستانی میڈیا کے بارے میں ٹھیک نہیں کہا تھا اور میرے پاس اس کے اس سوال کے جواب میں ہاں کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ کرن تھاپر ایک عالمی سطح کا صحافی‘ اینکر پرسن اور کالم نگار ہے جو اپنے تیکھے اور ترش سوالات کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس کے انٹرویو سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی مائیک اتار کر یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ بہتر ہے کہ ہماری آپس میں دوستی بنی رہے‘یہ صرف انٹرویو کا بائیکاٹ ہی نہیں تھا بلکہ دھمکی بھی تھی۔ کرن دس سال تک برطانیہ کے مختلف ٹی وی چینلوں پر پروگرام کرتا رہا جن میں Week end world اور The world This week بہت مشہور تھے۔ وہ 1991ء میں بھارت آ گیا اور وہاں سے سی این این کے لئے ہارڈ ٹاک اور انڈیا ٹوڈے کے لئے دی پوائنٹ نام سے مختلف شو کرتا رہا۔ اس نے نہ اپنا انداز بدلا اور نہ ہی سوالوں کا تیکھا پن ترک کیا۔ کرن تھاپر نے کئی سال پہلے اپنے ایک انٹرویو میں بھارتی میڈیا کی تین بنیادی خرابیاں بتائی ہیں۔ کرن تھاپر سے سوال کیا گیا کہ تمہیں بھارتی میڈیا کی موجودہ حالت پریشان کرتی ہے۔ اس نے کہا ہاں مجھے تین وجوہات کی بنیاد پر میڈیا سے شدید پریشانی ہوتی ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ جب ہمارے اینکرز کو کبھی کبھار وزیر اعظم سے براہ راست انٹرویو کا موقع ملتا ہے تو وہ انٹرویو ایک مطیع‘ تابع فرمان اور غلامانہ (servile)انداز میں کرتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ اسے چیلنج کریں مثلاً ملک کے بنیادی مسائل کے بارے میں سوال کرتے ہوئے پوچھتے ہیں ان معاملات میں اپوزیشن کا رویہ کیسا تھا۔ ایسا کرنے سے وہ وزیر اعظم کو پورا موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپوزیشن پر تنقید کر سکے انٹرویو کرتے ہوئے وہ ہر سوال کے بعد ایک نیا موضوع چھیڑ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں وزیر اعظم بات کہہ کر چپ ہو جاتا ہے اور اس سے کسی قسم کی جرح یا بحث نہیں ہو پاتی‘ اس کی معلومات کو چیلنج نہیں کیا جاتا۔ اس طرح انٹرویو کرنے والا وزیر اعظم کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے تاکہ وہ لوگوں کے سامنے تقریر کر سکے۔ وہ جتنا بولنا چاہے اسے اس کی اجازت دی جاتی ہے۔ وہ سوال کے جواب میں ادھر ادھر کی بے ربط گفتگو(rembling) بھی کرتا رہے اسے موضوع پر واپس لانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔جس طرح ہمارے اینکر انٹرویو کرتے ہیں ایسے تو سب سے منہ پھٹ ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی انٹرویو نہیں کیا جاتا۔ میڈیا کے بارے میں دوسری پریشان کن وجہ ہمارے پروگراموں میں ہونے والی بحث اور گفتگو ہے اور اس دوران اینکرز کا رویہ۔اگر ایک اینکر آپ کے خیالات سے متفق ہے تو وہ آپ کو بولنے کا زیادہ سے موقع فراہم کرے گا۔ بیشک آپ ادھر ادھر کی ہانک رہے ہوں وہ آپ کو نہیں روکے گا۔ لیکن اگر آپ کے خیالات اینکر سے مختلف ہیں تو پہلے وہ کہے گا کہ یہ چینل کی پالیسی کے خلاف ہے۔ نفرت انگیز گفتگو ہے۔ آپ کی گفتگو کے دوران بار بار مداخلت کی جائے گی۔ بار بار ٹوک کر ہراساں (hockled)کیا جائے گا۔ آپ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی جائے گی اور جب آپ گفتگو ختم کریں گے تو آپ سے بدتمیزی سے پیش آیا جائے گا۔ شرم دلائی جائے گی‘ آپ کو ذلیل کیا جائے گا۔ میرے نزدیک یہ صرف بدتمیزی نہیں ہے بلکہ یہ گفتگو کے بنیادی اصولوں کو پس پشت ڈالنا ہے۔ دراصل بحث اور گفتگو کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں تک مختلف لوگوں کی مختلف آراء بلا کم و کاست پہنچائی جائیں اور فیصلہ سننے والوں پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ جس رائے کو چاہیں پسند کریں۔ آپ کا کام اور ذمہ داری تمام آراء کو منصفانہ طور پر لوگوں تک پہنچانا ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ کوئی تحقیقی مواد ان آراء کے بارے میں فراہم کر سکتے ہیں۔ لیکن یہاں اینکر اپنی رائے کو ٹھونسنے اور اس کے مطابق پروگرام چلانے کے لئے آخری حد تک گزر جائے گا اور کوشش کرے گا کہ اس کی مخالف رائے لوگوں تک نہ پہنچ سکے۔ تیسری چیز جو میڈیا کے حوالے سے پریشان کن ہے وہ خبروں کی نوعیت ہے۔ یہاں اب خبریں پڑھنے والا صرف واقعہ بیان نہیں کرتا بلکہ ساتھ ساتھ تبصرہ بھی کر رہا ہوتا ہے اور آپ کو مجبو رکرتا ہے کہ اس واقعہ کے بارے میں اس طرح سوچنا چاہیے۔ اس دوران وہ انتہائی عامیانہ اور گھٹیا فقرے بھی بولتا ہے جیسے یہ ظلم کی ایک داستان ہے‘ یہ خوفناک واقعہ ہوا ہے۔ اس واقعہ سے انسانیت کا سر شرم سے پانی پانی ہو گیا ہے یا پھر میں ’’فخر سے بیان کر رہا ہوں‘‘جیسے جملے خبریں پڑھنے والے کو ایڈیٹر کے اعلی منصب پر فائز کر دیتے ہیں، یوں وہ اپنے تمام سننے اور دیکھنے والوں کو کم عقل اور جاہل تصور کرتے ہوئے خود ہی انہیں بتاتے ہیں کہ واقعات کے بارے میں کیسے سوچنا چاہیے۔ کیا ایسا سب کچھ پاکستانی میڈیا میں نہیں ہو رہا۔ پاکستانی میڈیا کا شروع دن سے المیہ یہ ہے کہ ہم خود سب سے زیادہ آزادی اظہار کے مخالف اور لوگوں کی آوازیں دبانے والے ہیں۔ آپ پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہوتی کسی خبر کو نشر کرتے ہیں‘ لیکن آپ وہ اس لئے نشر نہیں کرتے کیونکہ وہ آپ کے مخالف نظریے کی تائید کر رہی ہوتی ہے۔ مثلاً اس ملک میں لاکھوں مولوی رہتے ہیں وہ اپنے بیوی بچوں کو پیار بھی کرتے ہوں۔ پڑوسیوں سے بھی حسن سلوک کرتے ہوں گے۔ لیکن کوئی انہیں موضوع گفتگو نہیں بنائے گا کیونکہ ایسا کرنے سے ایک دیندار آدمی کا تصور بہتر ہوتا ہے۔ میں اکثر پوچھا کرتا ہوں کہ تم 1974ء سے 1988ء تک پاکستان میں ہونے والے بم دھماکوں کا ذکر نہیں کرتے‘ شاید اس لئے کہ وہ افغانستان میں پناہ لینے والے قوم پرست رہنمائوں نے بھارت اور افغان حکومت کی ایما پر کروائے تھے۔ آپ کو مکتی باہنی کے ظلم کی کہانیاں کیوں یاد نہیں آتیں۔ آپ کو غیرت کے نام پر قتل پر اس قبیح فعل کی حمایت کرنے والے سندھی اور بلوچ قوم پرست کیوں نظر نہیں آتے۔ پاکستان نے سچ کا جتنا گلا ’’آزاد میڈیا‘‘ نے گھونٹا ہے کسی آمر ڈاکٹیٹر یا جابر حکمران نے بھی نہیں روکا۔