نتائج….. نفرت کا اعلان – حسن نثار
بددماغ ’’حکمران خاندان‘‘ کا چیلنج تھا….. ’’روک سکو توروک لو‘‘خیبر سے کراچی تک عوام نے روک بھی دیا، ٹھوک بھی دیا۔جاتی امرا کے خودساختہ نظریاتی سمیت اورکون ہے جو عمران کی طرح کبھی اتنی نشستوں سے لڑااور جیتا بھی ہو؟ 5سیٹوں کا پہلا فاتح۔کون سا ایسا برج، برجی یاچوبرجی ہے جومسمار ہونے سے بچ گئی ہو؟ کدھر گئی اسکینڈلائز کی جانے والی جیپ؟کیا اب بھی کسی دھمال، جنجال، چنڈال اور خلال کو عمران خان کےہاتھ پروزارت ِعظمیٰ کی لکیر نظر نہیں آ رہی؟کے پی کے غیورعوام کسی کرپٹ اور نالائق کوسرپر سوار نہیں کرتے۔ دوبارہ موقعہ نہیں دیتے۔عمران کی واپسی اس سچائی کی سب سے بڑی گواہی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے سو فیصد سچا اور باقی سو فیصد جھوٹے تھے جوباقی صوبوں کے عوام کو مسلسل گمراہ کر رہے تھے۔ نتائج نے ثابت کردیا کہ عمران کی ترجیحات نام نہاد ’’تجربہ کاروں‘‘ سے کہیں برتر اوربہتر تھی۔ نیت بھی اہلیت بھی۔دست کار اور فنکار ’’حکمران خاندان‘‘ کے سرغنہ کا بیانیہ…. بیابانیہ، بھولی بسری داستان اور عبرت کا نشان بن چکا لیکن جیسے چھپکلی کی دم کٹنے کے بعد بھی تادیر پھڑپھڑاتی رہتی ہے، ان کی نیم دلانہ پھڑپھڑاہٹ جاری رہے گی اور ان کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی کیونکہ یہ بدترین قسم کی خودفریبی میں مبتلا ہیں۔
فیکٹ شیٹ تو کمپیوٹر کے پاس نہ ہوتوصحیح نتیجہ اخذ نہیں کرسکتا، یہ تو فقط سیاسی فلوکئے اور جگاڑیئے ہیں۔ انہیں چاہئے ’’دھاندلی دھاندلی‘‘ کا شور مچا کر خود کو مزید دھوکہ نہ دیں بلکہ زمینی حقائق کا سامنا کریں اوردیکھیں کہ زمین زادوں کے ذہن تبدیل ہوچکے ہیں، شعور کی سطح خطرے کے نشان کو چھو رہی ہے۔ میں کئی باریہ عرض گزار چکا کہ پیپلزپارٹی جاں بہ لب، ن لیگ اس المیہ سے بچے کہ اس کا بچنا اس لئے ضروری ہے تاکہ بازار ِ سیاست میں کسی کی اجارہ داری نہ قائم ہوسکے خواہ وہ پی ٹی آئی ہی کیوں نہ ہو۔ سو مکمل تباہی سے بچنا ہے تو بے رحمی سے خود اپنا ڈائی سیکشن کرو، اپنے امراض اور پھر ان کے علاج ڈھونڈو۔ علامہ اقبال کے شعروں کی ٹانگیں توڑنے اور ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ جیسے گھسے پٹے محاورے بولنے سے دال نہیں گلے گی۔حیرت ہے حیرت کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک طرف اڈیالہ، دوسری طرف اجالا اور بنی گالہ تو گوالمنڈی کے چی گویرے کودوسروں پر الزام دھرتے وقت کبھی اپنے گریبان شریف میں بھی جھانک لینا چاہئے لیکن اس کے لئے عقل درکار ہے جو دنیاکے کسی شاپنگ مال میں کسی بھی قیمت پر دستیاب نہیں۔ انہیں تو شاید اس بات کابھی اندازہ نہیں کہ نون میں اصل قارون ڈار ہے جو ان سے بھی زیادہ کام دکھا چکا۔آج ’’پی ٹی آئی‘‘ اکلوتی قومی پارٹی۔اور عمران خان اکلوتا قومی لیڈرہے۔دیگ کا صرف یہ ایک دانہ ہی چکھ لو کہ تمہارے غرور، تکبر اور ’’میاں کی میں‘‘ کے مارے ہوئے معصوم درویش میاں اظہر کا بیٹا حماد اظہر تو اسمبلی میں، آپ دختر دروغ اختر کے ساتھ اڈیالہ اور دونوں بیٹے مفرور، سمدھی اشتہاری تو یہ سب کے لئے ڈرنے کا مقام اور توبہ کا پیغام ہے۔ روز ِ اول سے دہائی دی کہ قانون نہیں….. قانون ِ قدرت کی پکڑ میں ہیں لیکن یہ سایوں اورسرابوں کے پیچھے بھاگنے سے باز نہیں آ رہے تو ایک پرانی فلم کا وہ سین یاد آتا ہے جس میں پولیس مقابلے سے بچ کر نکل آنے والا ڈاکو غار میں داخل ہوتا ہے تو ڈاکوئوں کاسردار پوچھتاہے…..’’کہو دلاور! کیا خبر لائے؟‘‘سردار! سارے ساتھی مارے گئےاور جو بچ گئے وہ گرفتار کرلئے گئے۔‘‘میاں صاحب کی مقبولیت محدود، مشروط اور 1999والی ہی ہے جس کے بارے میں خود میاں صاحب نے کہا تھا…..’’کہتے تھے قدم بڑھائو نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ میں نے قدم بڑھایا، پیچھے دیکھاتو کوئی بھی نہ تھا۔‘‘ آج بھی کوئی نہیں ہے کہ نہ یہ خود ساختہ انقلابی بھٹو جیسا ہے نہ یہ زمانہ بھٹو کے زمانے جیسا ہے۔ نظریاتی ورکرز مر کھپ گئے، اب تو ان کے پیدا کردہ مفاداتی چوری کھانے والے مجنوں ہیں جو بوقت ِ ضرورت خوشی خوشی لیلیٰ کو 70سالہ بوڑھے کے ساتھ بھی رخصت کرسکتے ہیں۔ریکارڈ گواہ ہے 24سال پہلے سو بار لکھا کہ ان گورنر ہائوسز اور چھچھورے پروٹوکولوں سے جان چھڑا کر ووٹر کو اہمیت عزت دو لیکن یہ پھیلتے گئے کیونکہ یہ عزت عمران خان کے نصیب میں لکھی تھی کہ وہ گورننس کی Defination ہی تبدیل کردے۔الیکشنز کے نتائج روایتی لیڈروں کےلئے عوام کی نفرت کااعلان ہیں۔ لکھ کے رکھ لو جس نے گند ڈالا وہ مزیدگندا اور قابل نفرت قرارپائےگا اور تاریخ اسے گندی غذا کی طرح اُگل دے گی۔کوئی سبق سیکھناہے تو شاندار، باوقار غلام احمد بلور سے سیکھو جس نے پوری خاندانی وجاہت کے ساتھ عالی ظرفی سے شکست ہی قبول نہیں کی عمران کی شخصیت کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔بلور صاحب! عمرا ن 2018الیکشن کا فاتح ہے لیکن آپ اس الیکشن کے ہیرو ہیں اور میرے دل میں آپ کے لئے محبت ہی نہیں، عقیدت بھی ہے۔ کبھی پشاو ر آیا تو در ِ دولت پہ حاضری دوںگا۔ آپ لاہور آئیں تو شرف میزبانی بخشیں۔ میرے لئے اعزاز ہوگا۔اہل پاکستان کو نیا پاکستان اوران کا عمران مبارک ہو لیکن کوئی مجھے سمجھائے کہ ’’اپنی‘‘ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ بھارت کی بے بے اتنی بے چین کیوں ہے؟ ہندوستان عمران کی آمد پر اتنا پریشان کیوں ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Comments are closed.