وقت دعا ہے – عبدالقادر حسن
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا شخص جب وزیر اعظم بن جاتا ہے تو وہ ایوان وزارت عظمیٰ کے اندر قدم رکھتے ہی عوام سے کٹ جاتا ہے۔ ہمارے نئے نویلے وزیر اعظم عمران خان جو چند دن بعد حلف اٹھانے جارہے ہیں پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں رہائش پذیر نہیں ہو ں گے اس لیے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے عوام سے رابطہ میں رہیں اور وزیر اعظم ہاؤس کے بجائے عوام کے درمیان رہیں مگر اس ایوان کا جو دستو چلا آرہا ہے خدا کرے کہ وہ اس دستور کا شکار نہ بن جائیں یا دوسرے لفظوں میں بنا نہ دیے جائیں کیونکہ سیکیورٹی کے نام پر ہماری انتظامیہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔
جس سے عمران خان کے نیک ارادے خرابی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ عوام سے رابطے کا ایک اور جدید اور تیز ترین ذریعہ جو کسی حکمران کے حواریوں کے قابو میں نہیں ہوتا وہ میڈیا ہے جس کے ذریعے عوام کی آواز حکمران تک باآسانی پہنچتی ہے لیکن حکمرانوں کے ارد گرد موجود ہنر مند لوگ ان کو عوام اور میڈیا سے دور رکھنے کے لیے مختلف طریقے آزماتے ہیں جن میں سے ایک ذریعہ ان کو چیدہ چیدہ پروگراموں اور خبروں کی سمری پیش کر دی جاتی ہے جس میں عموماً حکمرانوں کی پسند کی خبریں شامل ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور سب اچھا کی رپورٹیں وزیر اعظم کو ملتی رہتی ہیں اگر کہیں سے اس کو تنقیدی خبروں کی اطلاع مل بھی جائے تو اسے چند شر پسندوں عناصر کی کارروائی قرار دے دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان کے لیے حکمرانی پھولوں کی سیج ہر گز نہیں ہو گی۔ وہ کئی انتہاؤں کے درمیان حکومت شروع کریں گے۔ ایک انتہا یہ ہوئی ہے کہ پاکستانی قوم نے ان پر اپنا اعتماد الٹ دیا ہے اور دوسری انتہا یہ ہو گی کہ اقتدار سنبھالتے ہی ان کو لاتعداد مسائل کا سامنا ہو گا جن میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی حالت ہے جو ہماری برداشت اور وسائل سے بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ کھربوں روپے ادا کرنے ہیں اور قرض خواہ ایسے ہیں جن کے ہاں کوئی رعایت اور نرمی نہیں ہے۔ یہ قرض تو نہ جانے کب اتریں گے فی الحال تو قرضوں کی قسط ادا کرنے کے لیے بھی رقم کا بندو بست مشکل ہو چکا ہے اور اس کی ادئیگی کے لیے بھی مزید قرض کی ضرورت ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ جب سے عمران خان نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے ان کو نیند بھی آتی ہے کہ نہیں کیونکہ جذبات اور نیا پاکستان ایک طرف اور ملکی معاملات چلانا ایک مختلف معاملہ ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ ان کو سیاسی محاذ پر بھی مشکلات کا سامنا ہے، ان کے سیاسی ساتھیوں کے بارے میں نیب میں انکوائریاں چل رہی ہیں، ہرروز کسی نہ کسی قریبی ساتھی کی پیشی ہوتی ہے۔ پنجاب جس کو چھوٹا پاکستان کہتے ہیں اس کی وزارت اعلیٰ کے لیے نامزدگی کا فیصلہ تاخیر کا شکار ہے۔ خدا معلوم اس میں کوئی سیاسی مصلحت ہے یا عمران خان کسی مخصمے کا شکار ہیں۔پنجاب کی وزارت اعلیٰ ان کے لیے مشکل فیصلہ بن چکی ہے۔ اتحادیوں کا بوجھ بھی سر پر ہے ۔
ایک دانشمندی یہ کی گئی ہے کہ پرویز الٰہی کو پنجاب میں اسپیکر نامزد کر دیا گیا ہے جس کا فائدہ عمران خان کی پارٹی کو ہوگا کیونکہ چوہدری صاحبان سیاست کے رموز کو سمجھتے ہیں اور قابل بھروسہ اتحادی ہیں، وہ کسی کو دھوکا نہیں دیتے البتہ انھوں نے سیاست میں بہت دھوکے کھائے ہیں ۔سیاست کے امور میں وہ جوڑ توڑ کے ماہر ہیں اور اگر بلدیاتی انتخابات دوبارہ کرائے جاتے ہیں تو اس میں چوہدری صاحبان کا کردار انتہائی اہم ہو گا۔
آپ کسی وقت ٹھنڈے دل سے اپنی حالت کا جائزہ لیں کہ کیا آپ ایک اچھے شہری ہیں یا صرف دوسروں کو اچھا شہری بنانا چاہتے ہیں ۔ یہی حال ہماری اکثریت کا ہے جو خود تو ہر طرح کے جائز و ناجائز مزے لوٹنا چاہتی ہے مگردوسروں پر ہر قید لگانے کی خواہش رکھتی ہے ۔ میرا اپنا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ وزیر اعظم کی اتحادی اپوزیشن جو بظاہر مضبوط نظر آرہی ہے اگر اس کا اتحاد برقرار رہا تو وہ گھات لگا کر بیٹھ چکے ہیں۔ حکومت سے ذرا سی بھول چوک ہو گئی تو دیکھیے گا کہ آسمان کا کیا حال ہوتا ہے اور اسے کتنا اونچا سر پر اٹھایا جاتا ہے ۔ عوام نے جس طرح جوق در جوق ووٹ دے کر عمران خان کی جھولی بھری ہے اگر حکومت نے ان کی مرضی کے مطابق عمل نہ کیا یا پھر حکومت سے کوئی غلطی ہو گئی تو یہ سب حکومت کا تیا پانچا کرنے میں سب سے آگے ہوں گے۔ ٹوٹ کر پیار کرنے والے کسی بے وفائی پر ٹوٹ کر نفرت بھی کرتے ہیں، مثال کے ملاحظہ ہو نواز لیگ اور پیپلز پارٹی۔
قومی زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں جو خطرات میں گھرا ہو انہ ہواور یہ خطرات جس ایک جان کو لاحق ہیں وہ عمران خان کی جان ہے جو ا س قوم کی بھر پور نمایندگی کر رہے ہیں ۔قوم کے مصائب اور مسائل ایسے ہیں کہ ماضی میں جب بھی کوئی مارشل لاء کو یاد کرتا تھا تو ا س کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی تھی کہ فوج کا دماغ خراب ہے کہ وہ ایسے مسائل زدہ ملک پر حکومت کرنے کی حماقت کرے ۔ وہ یہ بھاری پتھر کو اٹھانا تو کجا اس کی طرف دیکھے گی بھی نہیں ۔
ان مسائل اور خطرات کے علاوہ بہت بڑا خطرہ عوام کی وہ امیدیں ہیں جو انھوں نے نے عمران خان کی ذات سے باندھ لی ہیں ۔ یہ امیدیں بہت ہی زیادہ اور غیر حقیقی بھی ہیں لیکن پریشان حال عوام کے لیے ضبط اور صبر ممکن نہیں ہوا کرتا ۔ بھٹو صاحب کے پہلے دور میں ہم نے یہ دیکھا کہ کرایہ دار رکشے کا ڈرائیور زمین کا کاشتکار اور کارخانے کا مزدور مالک بنا ہوا تھا ۔ تھوڑے دنوں کی بات تھی سب کو ملکیت مل جانی تھی، یہ ہزار داستان بھٹو تھا جس نے کچھ نہ کرنے کے باوجود لوگوں کو زیادہ دیر تک بے وقوف بنائے رکھا ۔ عمران خان تویہ نہیں کر سکتے ۔ عمران خان نیازی ایک سیدھا سادہ نیک نیت اور ذہنی پیچیدگیوں سے مبراانسان ہے جو کوئی جھوٹ بھی سلیقے سے نہیں بول سکتا۔
ہمارا نیا وزیر اعظم ان ناگفتہ بہ حالات میں پاکستان کو سنبھالنے جا رہا ہے ۔وقت دعا ہے۔
Comments are closed.