وہ گٹھ جوڑ جو کبھی ٹوٹا تھا!! – انصار عباسی
ڈر تو پہلے سے تھا لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے محترم جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے انکشافات نے جو ڈر تھا اُسے تقویت دی اور دل کو دکھی کر دیا۔ آج سے تقریباً گیارہ سال پہلے عدلیہ کی آزادی کی تحریک کا جو ایک بڑا حاصل تھا وہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اُس گٹھ جوڑ کا ٹوٹنا تھا جس کی وجہ سے ہماری تاریخ کے ہر مارشل لاء اور اسٹیبلشمنٹ کے ہر غیر جمہوری اقدام کو پاکستان کی عدلیہ نے تحفظ دیا۔ 2007 کی عدلیہ کی آزادی کی تحریک نے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے اس nexus کو توڑا ۔ اگرچہ اس تحریک کے نتیجے میں سستے اور جلد انصاف کے حصول کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا لیکن گزشتہ دس سالوں کے دوران اور خصوصاً سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں ایسے ایسے فیصلے دیئے گئے جو یہ بات ظاہر کرتے تھے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان گٹھ جوڑ ٹوٹ چکا اور عدلیہ اب مکمل آزاد اور خودمختار ہو گئی۔ پاناما اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد جس طرح جے آئی ٹی کی تشکیل کی گئی، جس انداز میں اس جے آئی ٹی نے کام کیا اور جس قسم کے پھر عدالتی فیصلے ایک کے بعد ایک آنے لگے اور جن سب کانشانہ نواز شریف اور اُن کا خاندان تھا تو لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں اوراسٹیبلشمنٹ کی طرف انگلیاں اٹھائی جانے لگیں۔ دلوں میں یہ ڈر پیدا ہونے لگا کہ کہیں اس کھیل میں
اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ دوبارہ پیدا تو نہیں ہو گیا۔ اسی دوران جسٹس شوکت صدیقی بول پڑے اور وہ باتیں کر دیں جس نے بہت سوں کے اُس ڈر کو تقویت دی جس نے اُن کے دل کو کافی عرصہ سے جکڑا ہو تھا۔ راولپنڈی بار سے گزشتہ ہفتہ کے روز خطاب کرتے ہوے جسٹس صدیقی نے کہا کہ آج کے اس دور میں آئی ایس آئی پوری طرح judicial proceedings کو manipulate کر نے میں شامل ہے، اس ایجنسی کے کچھ لوگ اپنی مرضی کے عدالتی بنچ بنواتے ہیں، اور اُن ہی کی مرضی کے مطابق کیسوں کی مارکنگ ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنی ہائی کورٹ کی بات کرتا ہوں جہاں ایجنسی والوں نے میرے چیف جسٹس سے رابطہ کر کے کہا کہ ہم نے الیکشن تک نواز شریف اور اس کی بیٹی کو باہر نہیں آنے دینا اس لیے شوکت عزیز صدیقی کو بنچ میں مت شامل کرنا۔ جسٹس صدیقی نے کہا کہ اُن کے چیف جسٹس نے جواب میں ایجنسی والوں کو کہا کہ جس بنچ سے آپ مطمعین ہوں گے ہم وہ بنا دیتے ہیں۔ جسٹس صدیقی نے کہا کہ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ سپریم کورٹ میں کس کے ذریعے کون کس کا پیغام لے کر جاتا ہے اور یہ بھی کہ احتساب عدالت کی ہر روز کی کارروائی کی تفصیلات کہاں جاتی ہیں۔ جسٹس صدیقی نے یہ بھی کہا کہ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احتساب عدالت پر انتظامی کنٹرول کو اس لیے ختم کیا گیا تاکہ کل کوئی جج جا کر احتساب عدالت کی کارروائی کو نہ دیکھ سکے۔ جسٹس صدیقی نے اور بھی بہت کچھ کہا۔ جسٹس صدیقی نے 18 جولائی کو اپنے ایک فیصلے میں بھی اسی قسم کے سنگین الزامات لگائے تھے۔ جسٹس صدیقی کوئی عام آدمی نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے ایک سینئیر جج ہیں۔ ذرائع کے مطابق جو کچھ جسٹس صدیقی نے کہا اُن کے پاس اس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔ یہ حقیقت ہے یا الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں اور جنہیں سنی ان سنی کر کے ignore نہیں کیا جا سکتا۔ اگرآپ جسٹس صدیقی کے گزشتہ ہفتے کے دوران اس موضوع پر دیے گئے آرڈر ، عدالتی ریمارکس اور راولپنڈی بار میں کی جانے والی تقریر کو پڑھیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان سنگین الزامات سے فوج، آئی ایس آئی اور عدلیہ کو بحیثیت ادارے ملوث نہیں کرتے بلکہ کچھ افراد کی بات کرتے ہیں اور یہ امید ظاہر کرتے ہیں کہ متعلقہ اداروں کے سربراہان خصوصاً آرمی چیف اس معاملہ پر نوٹس لے کر اس مرض کا علاج کریں گے کیوں کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو عدلیہ کے ساتھ ساتھ فوج اور آئی ایس آئی کے اداروں کو نقصان ہو گا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ایسی کارروائیوں سے ریاستی ادارے کمزور بھی ہوتے ہیں اور متنازع بھی بنتے ہیں۔ جہاں ایک طرف عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کے لیے لازم ہے وہیں پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کی ملک کے دفاع اور سیکورٹی کے لیے بہت اہمیت ہے۔ سول حکومت کے کام میں مداخلت اور سیاسی جوڑ توڑ میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے گٹھ جوڑنے ماضی میں ان دونوں اداروں کو بہت متنازع بنانے کے ساتھ ساتھ حکومتوں کو عدم استحکام کا شکار کیا جس کا نقصان پاکستان کو ہوا۔ اس کھیل کو بار بار کھیلا گیا۔ جسٹس صدیقی صاحب کے بیان کے مطابق یہ کھیل اب بھی کھیلا جا رہا ہے جس کی اجازت نہ تو چیف جسٹس آف پاکستان کو دینی چاہیے اور نہ ہی آرمی چیف کو ایسی کسی کارروائی کو برداشت کرنا چاہیے۔ اس معاملہ سے پاکستان کے مستقبل کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور فوج جیسے اہم ترین ریاستی اداروں کی ساکھ کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے جسے رد کرنے کے لیے آرمی چیف اور چیف جسٹس کو اپنے اپنے اداروں کے اندر ایسے افراد کی صفائی کرنی ہو گی جو اپنی ذاتی مفاد کے لیے ریاستی اداروں کو غیر قانونی اور غیر آئینی کارروائیوں میں شامل کرتے ہیں۔ یہ کام جتنا جلد ہو اُتنا بہتر ہے کیوں کہ اب عدلیہ کے ہر فیصلے کو شک سے دیکھا جائے گا اور اسٹیبلشمنٹ بھی تنازعات کا شکار رہے گی۔ اچھا ہوا آج ہی نہ صرف چیف جسٹس آف پاکستان نے جسٹس شوکت عزیر کی تقریر کا نوٹس لیا بلکہ آرمی چیف کی طرف سے بھی اس مسئلہ پر انکوائری کرنے کے لیے چیف جسٹس کو درخواست کی گئی ہے۔ بہت اچھا ہو گا اگر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا کر اُس کے سپرد اس کیس کی انکوائری دے دی جائے۔ انکوائری کا مقصد جسٹس شوکت عزیز کے توسط سے اُس سچ تک پہنچنا ہونا چاہیے جس کی وجہ سے ریاستی ادارے بدنام ہوتے ہیں۔ میری چیف جسٹس سے درخواست ہو گی کہ اسی کمیشن کے توسط سے میڈیا کو درپیش دبائو کے معاملہ پر بھی تحققات کی جائے اور حمید ہارون اور دوسروں کو بلا کر پوچھا جائے کہ میڈیا پر کون دبائو ڈال رہا ہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ا یس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
Comments are closed.