پیشہ ور جمہوری جلاد اتحاد – حسن نثار
گزشتہ کالم میں کچھ ’’آوارہ‘‘ ای میلز کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ لکھا بلکہ سوال اٹھایا تھا کہ ’’الیکشن کمیشن کا آر ٹی ایس (رزلٹس ٹرانسمیشن سسٹم) الیکشن کی رات 11 بجے فیل کیوںہوا؟ موضوع اتنا نازک تھاکہ ہچکچاتے اورنہ چاہتےہوئے بھی میں نے ای میلزکی سمری ری پروڈیوس کردی تاکہ اگر اس دھوکہ بازی پر کچھ نہیں بھی ہو رہا تومتعلقہ افراد، ادارے اس طرف متوجہ تو ہوںکیونکہ اگر واقعی ایساہوا تو یہ ملک، قوم، جمہوریت کے خلاف مکروہ ترین سازش ہے۔ اپنی طرف سے میں نے صرف اتنا اضافہ کیا تھا کہ شکست خوردہ عناصر حتمی احتساب سے بچنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔الحمد للہ اگلےہی روزیعنی 3اگست کے مختلف اخبارات کی یہ خبریں شہ سرخیوں کی شکل میں میرے سامنے ہیںکہ…..’’انتخابی نتائج: کمپیوٹر بند ہونے کی تحقیقات کا فیصلہ‘‘’’آر ٹی ایس‘‘ کی ناکامی کی تحقیقات کے لئے ماہرین پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے۔ کابینہ ڈویژن کو الیکشن کمیشن کا خط‘‘ادھر سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ ’’الیکشن کمیشن کی ساکھ خراب کرنے کے لئے RTS فلاپ کیا گیا‘‘ میں کنور صاحب کے اس بیان میںیہ ترمیم چاہتا ہوں کہ حضور! الیکشن کمیشن نہیں بلکہ خود الیکشن کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگانے کے لئے پرانے وارداتیوں نے یہ سازش اور
واردات کی ہے تاکہ عوام دشمنوں کےیہ مختلف گروہ اورگینگز اکٹھے ہو کر عوام سے اپنی عبرت ناک شکست کا انتقام لے کرملک کو عدم استحکام کا شکارکرسکیں کیونکہ استحکام ان کے وارے میں نہیں۔تاریخ گواہ ہے،ہمارے حالات گواہ ہیں، ملکی اقتصادیات گواہ ہے کہ ان شکست خوردہ عناصر نے ملک و قوم کاحشرنشر کرنے کےعلاوہ آج تک کچھ نہیں کیا اور آج عوام سے دھتکارے جانےکے بعد یہ سب عوام کے نام پر عوام ہی کے خلاف صف بستہ وصف آرا ہو رہے ہیں۔ جمہور خور جمہوریت کی آڑ میں پھر سے عوام کا شکار کرنے کے لئے تیارہورہے ہیں۔ اک تصویر میرے سامنے ہے، تفصیل کچھ اس طرح…..درمیان میں انگریزی مارکہ ٹھنڈی میٹھی ماسی مصیبتےایک طرف کڑاکے شاہ جوہرمشین کا پرزہ بننے میں مہارت رکھتا ہے۔اس پرزے کے ساتھ گول ٹوپی پہنے ہمارے ایک پیارے پرانے یونیورسٹی فیلو جن کی جماعت کے بارے عوام میں یہ جملہ ہمیشہ پاپولر رہا ’’ایک دو سیٹ پھربھی ڈھیٹ‘‘ماسی مصیبتے کے پیچھے محاورتاً نہیں حقیقتاً وہ جو ضیاءالحق کامارشل لائی دودھ پی کرجوان ہوا اور ’’ماں کی دعا جنت کی ہوا‘‘ کی چلتی پھرتی تصویر ہے۔یہ توآزمائی، کھائی دیگ کے چنددانے ہیں جنہیں چکھتے ہی فوڈ پوائزننگ ہو جائے۔ ایسوں کے اکٹھ دیکھ کر ہی ’’کبوتر با کبوتر باز باباز‘‘ جیسے مصرعے اور ’’بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں‘‘ جیسے محاورےوجود میں آئے ہوںگے۔میںہفتہ دس دن پہلے بھی کہہ چکا، لکھ چکا کہ گندگی توگند ہی ڈالے گی۔ کارپوریشن کی ٹرالیو ں سے خوشبو تو آنے سے رہی لیکن پیپلزپارٹی اور باقیوں میں تھوڑا سا فرق ہے جسے بلاول کے نام سے جاناجاتا ہے توپلیز! اس تازہ دم نوجوان پررحم کرو۔ بلاول کی احمقانہ لانچنگ پہلے ہی اس کا پینڈامشکل کرچکی جسےاس نے انتخابی مہم کے دوران ذرا آسان کیا تو اب ان کے ساتھ اسے کھڑا کرکے کس بات کا انتقام لینا ہے؟ ان چلےہوئے کارتوسوں کےساتھ بلاول کوبریکٹ کرنا اس کے سیاسی اسقاط کے برابرہوگا….. شاید اسی لئے بلاول گیا بھی نہیں۔افواہیں تو کب سے عروج پر ہیں کہ جاتی امرا کاچی گویرا، گوالمنڈی کا مائوزے تنگ، ہوم میڈ انقلابی اور تازہ تازہ نظریاتی تابڑ توڑ کسی نئے NRO کے لئے جوڑ توڑ میں مصروف ہے یعنی ’’آغازبھی رسوائی انجام بھی رسوائی‘‘ اخباری اطلاع کے مطابق ایک بار پھر پاناما پہلوان کی رہائی وغیرہ کےلئے اِدھر اُدھر سے دبائوکی کوششیں جاری ہیں اور اس بار نئی بات یہ کہ ’’پلی بارگیننگ‘‘ کی بھی آفر ہے یعنی عظیم قائد ’’مال مسروقہ‘‘ میں سے کچھ یازیادہ دینے کے لئے بھی راضی ہے۔ سعودی سفیر کی عمران سے ملاقات کے بعد بھی ان افواہوںکوتقویت ملی لیکن ساتھ ہی عمران کایہ جواب بھی گردش میں ہےکہ’’آپ نے شاہی خاندان سے تو لوٹ مار کامال واپس لیا پاکستانی ملزموں سے رعایت کیوں؟‘‘بزدل باغی کو کوئی نیا NRO (کوئی نیا نام بھی دیا جاسکتا ہے) ملنے کے نتیجہ میں ملکی اداروں کی ساکھ اور امیج میں کتنا اضافہ ہوگا؟ اس سے متعلق میں کچھ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں لیکن یہ بات پور ےاعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ پیپلزپارٹی ن لیگ اینڈ کمپنی کا حصہ بنی تو اس کے سیاسی تابوت (بحوالہ خصوصی پنجاب) میں یہ آخری کیل بلکہ لکڑی نہیں فولاد کاکِلّا ثابت ہوگا۔ ممکن ہے کوئی وقتی ریلیف بلکہ جزوقتی ریلیف تو مل جائے لیکن ’’پین کلر‘‘ کااثر ختم ہوتے ہی درد ناقابل برداشت ہوگا اور اس کے لانگ ٹرم سیاسی نقصان کا تو اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں۔ بلاول کووہ غنچہ نہ بنائیں جو بن کھلے مرجھاجاتاہے۔میرا رب اس قوم کو ’’پیشہ ور جمہوری جلادوں‘‘ کی ’’اےپی سی‘‘ کے عذاب سے محفوظ رکھے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
Comments are closed.