کانٹوں بھری حکومت – عبدالقادر حسن

Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاکستانی عوام نے عام انتخابات میں دل کھول کر اپنی اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹیوں کے نمایندوں کو ووٹ دے کر پارلیمان میں پہنچا دیا ہے۔ پانچ سال کے بعد ہونے والے انتخابات میںعوام کا موڈ کچھ بدلہ بدلہ سا تھا اور توقع کے مطابق تحریک انصاف سب سے زیادہ نشستیں جیت کر قومی اسمبلی میں بڑی پارٹی بن گئی اور اب وہ وفاقی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔

حکومت سازی کا عمل اگلے چند دنوں میں مکمل ہو جائے گااور عمران خان وزیر اعظم کا حلف اٹھائیں گے لیکن عمران خان وہ عمران خان نہیں ہو گا جس کو آپ گزشتہ پانچ برس دیکھتے اور سنتے رہے، ان کی سیاسی جد وجہد مسلسل جاری رہی جو بالآخر ان کی کامیابی پر ختم ہوئی، اب وہ ایک بدلہ ہوا انسان ہوگا جس نے اپنی جدو جہد اور اپنے ساتھی سیاسی سیاستدان دونوں سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے، وہ ایک ایسا سبق پڑھ چکا ہے جس کتاب کے تمام الفاظ اسے اور قوم کو یاد ہیں، اس نے قوم کو جگایا ہے اور اب باری اس کے اپنے جاگنے کی ہے، قوم اسے سونے نہیں دے گی بلکہ اسے اپنے وعدوں کی مسلسل یاد دہانی کراتی رہے گی اور اس کا پہرہ دے گی تاآنکہ وہ وعدے وفا نہ ہوجائیں۔

دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی قوم عمران خان پر اعتبار اور اعتمادکرتی ہے۔ آج تک اشرافیہ طبقے نے بد اعتمادی کی جو کیفیت قائم کیے رکھی اور وہ اس دوران صرف لوٹ مار میں لگا رہا کہ جو کچھ بن سکتا ہے بنا لیا جائے معلوم نہیں کل کیا ہو جائے، اب اشرافیہ کا یہ کل عمران خان کے قبضے میں ہے اور وہ امور مملکت کا ذمے دار بننے جارہا ہے، اس لیے اس طبقے کو اب اپنا رویہ رویہ ترک کرنا پڑے گا ۔ عمران خان کا ساتھ دینا ان کی مجبوری ہو گی تاکہ وہ اپنا لوٹ مارکا نظام جاری رکھ سکیں مگر عمران خان کو عوام نے ووٹ دیے ہیں اور اسی استحصالی طبقے کے خلاف دیے ہیں، اس لیے اشرافیہ نے جتنی بد ماشی ، لوٹ مار اور عیاشیاں کرنی تھیں وہ کر لی گئیں، اب احتساب کی گھنٹی بجنے لگی ہے ۔

عوام کی شدید خواہش ہے کہ ان کے اوپر برسہا برس سے مسلط طبقے سے حساب کتاب لیا جائے اور یہ سب کچھ وہ اپنے سامنے ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ جتنی زیادتیاں عوام کے ساتھ کی گئیں عوام یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ووٹ دے کر اپنی ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کابوجھ عمران خان کے کندھے پر ڈال دیا ہے، اب یہ عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ یہ عوامی بوجھ اپنے کندھے سے کس طرح اتارتے ہیں، تمام نظریں ان کی جانب لگی ہوئی ہیں، عوام کو بے چینی سے ان کی حکومت کی شروعات کا انتظار ہے ۔

عمران خان نے اپنے جماعتی منشور میں جن نکات کا ذکر کیا تھا اور اب انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اپنی تقریر میں جن ارادوں کا ذکر کیا ہے ان کی باتیں پاکستانی قوم کے دل کی آواز ہیں، وہ عوام کی صحیح ترجمانی کر رہے ہیں، ان کی ٹیم میں شامل نیک نام لوگ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور انھوں نے عوام کی مشکلات کی تشخیص کر لی ہے، بات اب علاج کی ہے جو شروع ہونے جا رہا ہے، گو پرانے مرض کا علاج طویل ہوتا ہے اور افاقہ ہونے میں دیر لگتی ہے لیکن اگر تشخیص درست ہو تو علاج بھی ہوجاتا ہے، مریض بھی شفایاب ہو جاتا ہے۔

کچھ ایسی ہی حالت ہمارے ملک کی بھی ہے، مرض کا بھی سب کو علم رہا ہے اورآنے والے حکمرانوں کو بھی اس مرض کا پیشگی علم ہے، بات علاج کی ہے، یہ علاج گزشتہ کئی دہائیوں سے کسی بھی حکمران نے کرنے کی کوشش نہیں بلکہ مرض کے بگاڑ میں اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک اس وقت مالی بحران کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر بھی کمزور ہو چکا ہے جس کے منہ میں جو آتا ہے، وہ پاکستان کے بارے میں بغیر کچھ سوچے سمجھے کہہ دیتا ہے لیکن ہماری قومی غیرت اس حد تک مر چکی ہے کہ ہم لفظی جواب بھی دینے سے کتراتے ہیں، امریکا کی جانب سے حالیہ بیان کے بارے میں ہمارے ایک متوقع وزیر نے کہا ہے کہ امریکا پہلے چین کے ساتھ اپنے معاملات درست کرے، ہم خود اپنے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں ۔

اسد عمر کی شہرت ایک اچھے انسان کی ہے اور ایسے کئی اور رہنماء بھی تحریک انصاف میں اعلیٰ عہدوں پر ہیں، بات صرف اتنی سی ہے کہ ان کے مشوروں کو بغور سنا جائے اور پھر ان پر حالات کے تحت عمل کیا جائے ۔ سننے میں یہ آیا ہے کہ عمران خان اپنے قریبی ساتھیوں پر کافی بھروسہ کرتے ہیں اور ان کے مشوروں کو اہمیت بھی دیتے ہیں، وہ پارٹی کا ون مین شو تو کہے جا سکتے ہیں لیکن سیاسی معاملات میں وہ اپنے ساتھیوں کی بہت سنتے ہیں اوران کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں ۔

عمران خان کی حکومت کیسی ہو گی، اس کے بارے میں قیاس آرائیاں تو بہت کی جارہی ہیں، ان کے حامی اور مخالفین اپنی اپنی پسند کے مطابق دلائل دے رہے ہیں لیکن بات اب دلائل سے بہت آگے جا چکی ہے، نئی حکومت کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہو گی بلکہ کانٹوں کاوہ بستر ہو گی جس پر ہر رات حکمران سوئیں گے اور ہر صبح ان کو عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی یاد دلائے گی، اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ کانٹوں کے بستر کو جتنی جلدی پھولوں کے بستر بدل لیں، ان کی حکمرانی کے لیے اچھا ہو گا۔

ہم میں بھو ل جانے کی عادت بہت پختہ ہو چکی ہے، ہم جتنی جلدی ماضی کو بھولتے ہیں اتنی ہی جلدی حال کے حکمرانوں کا احتساب بھی شروع کر دیتے ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ نئی حکومت جتنی جلدی عوام کی فلاح کے منصوبے شروع کر سکے اس کے مستقبل کے لیے اتنا ہی اچھا ہو گا ۔ اگر نیک نیتی سے اچھے کام کا آغاز کیا جائے تو کچھ نہ کچھ ہو ہی جاتا ہے اور حکمران کی نیکی اس کے عوام کے لیے کیے گئے اچھے کاموں کی نیکی ہے جس حکمران کو یہ توفیق ہوتی ہے وہ اتنی جلدی نیکیاں سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ریاست مدینہ کی بنیاد حکمران کی نیکیوں کی بنیاد ہے۔

ہم ریاست مدینہ کی مثالیں تو دے سکتے ہیں لیکن ریاست مدینہ جیسے لوگ اب کہاں البتہ اگر دس فیصد کام بھی ریاست مدینہ والے ہو جائیں تو سب کچھ درست سمت چل پڑے گا، اس بہت بڑے کام کے لیے نیک نیت اور جذبے کی ضرورت ہے جو  ہماری قوم میں بدرجہ اتم موجود ہیں، بات راستہ دکھانے والے کی ہے، راستہ دکھانے والاصحیح ہوتو قوم اس راستے پر چل پڑے گی اور اگر یہ راستہ ریاست مدینہ جیسا ہو تو آنکھیں بند کر کے بھی اس راستہ تلاش کر لیا جائے گا۔

Comments are closed.