ہم سا ہو تو سامنے آئے! – عطا ء الحق قاسمی
آج صبح ایک کالم نظر سے گزرا جس کی ابتدائی سطور تھیں ’’میرا دعویٰ ہے کہ میں سچا ہوں، جبکہ مجھ سے اختلاف کرنے والے کا خیال ہے کہ وہ سچا ہے، کیسے جانیں کہ کون سچا ہے۔ نواز شریف کو برا بھلا کہنے والے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ سچے ہیں کہ ایک طاقتور شخص کو للکارتے ہیں۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ اصل بہادری تو طاقتور ترین کے خلاف بات کرنا ہے۔ نواز شریف حکومت نہ کسی کا بھلا کر سکتی تھی اور نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتی تھی اور نہ ہی کسی کے لئے جزا کا بندوبست کر سکتی تھی۔ وہ تو خود بے بس اور شکنجے میں کسے ہوئے تھے۔ ‘‘
یہ سطور ممتاز تجزیہ نگار اور کالم نویس سہیل وڑائچ کی ہیں، جو ان چند لکھنے والوں اور تجزیہ نگاروں میں سے ہیں جو مجھے ہر حال میں اور ہر دور میں اچھے لگتے رہے ہیں۔ اس لئے کہ وہ سچ بولتے اور سچ لکھتے ہیں۔ سچ کیا ہے؟ اپنے ضمیر کے مطابق لکھنا سچ ہے اور جھوٹ کیا ہے جو ڈکٹیشن لے کر لکھا جائے۔ سہیل وڑائچ سچ لکھنے اور بولنے والوں میں سے ہے کہ وہ اپنے ضمیر کا قیدی ہے۔ اس کے بہت سے کالم ایسے ہیں جن سے مجھے اتفاق نہیں تھا بلکہ سراسر اختلاف تھا مگر اس کے باوجود وہ کالم پڑھ کر یا ٹی وی پر اس کا تجزیہ سن کر مجھے اپنے منہ میں کڑواہٹ کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ ایک تو اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ
وہ جو کچھ کہہ رہا ہے، نیک نیتی سے کہہ رہا ہے اور دوسرے اس لئے کہ وہ اختلاف کرتا ہے، افترا پردازی نہیں کرتا اور گالی نہیں دیتا۔ عام زندگی میں بھی میں نے سہیل وڑائچ ایسے مہذب لوگ کم کم ہی دیکھے ہیں، وہ چھوٹوں بڑوں سب کو عزت دیتا ہے، اتنی شہرت کے باوجود اس کا دماغ ان اینکرز کی طرح خراب نہیں ہوا جو جھوٹی اور لغو قسم کی عارضی شہرت کے نتیجے میں اپنی چھ انچ چھاتی چوڑی کر کے چلتے ہیں اور چونکہ ان کے سروں پر طاقتور ترین ہاتھ ہوتے ہیں چنانچہ وہ جس کی چاہیں کردار کشی کریں، گالم گلوچ کریں، ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ تو اپنی ہی برادری کے سینئر موسٹ ساتھی کا بھی لحاظ نہیں کرتے جب انہیں اس کی پگڑی اچھالنے کا اشارہ مل جاتا ہے۔ ایسے سینئر کہلانے اور اس حوالے سے دفتروں میں سینیارٹی کی بنیاد پر ترقی کے دعویدار افراد کے بارے میں منیر نیازی کہا کرتے تھے کہ یہ سینئر نہیں ہیں، آپ انہیں زیادہ سے زیادہ ’’خبر کہنہ مشق‘‘ کہہ سکتے ہیں، تمام سینئر جن میں، میں خود بھی شامل ہوں، اس گستاخی کے لئے معذرت، مگر میری مجبوری یہ ہے کہ زیادہ دیر تک منہ بسورنے والی تحریر میرے بس میں نہیں۔ مجھے اگر کوئی فقرہ سوجھ جائے یا کسی کا مزیدار جملہ یاد آ جائے، تو میں اپنے قارئین کو اس سے محروم نہیں رکھ سکتا خواہ اس کی زد میں، میں خود بھی کیوں نہ آ رہا ہوں۔ مظہر الاسلام نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ عطا کو اگر کوئی جملہ سوجھ جائے تو وہ جملہ ضائع نہیں کرتا، بندہ ضائع کر دیتا ہے۔
برا ہو میری منتشر خیالی کا کہ آج میرا ارادہ سہیل وڑائچ کے کالموں کے مجموعے ’’پارٹی از اوور‘‘ کے بارے میں اظہار خیال کا تھا مگر میں ادھر ادھر کی ہانکتا رہا۔ دراصل گزشتہ کچھ عرصے کے دوران میں نے اوپر تلے سہیل وڑائچ کے سیاسی علامتی یا نیم علامتی کالم پڑھے تو مجھے لگا کہ میں محض اخبار میں شائع ہونے والا کوئی کالم نہیں پڑھ رہا بلکہ کوئی ادبی شہ پارہ پڑھ رہا ہوں۔ یہ کالم کیا تھے، بیک وقت دل میں ٹھنڈک اور دل میں چبھن پیدا کرنے والی طلسماتی تحریر کی خاصیت رکھتے تھے۔ مجھے یہ تو علم تھا کہ سہیل بہت پڑھا لکھا شخص ہے لیکن چونکہ دوستوں کی محفل میں قہقہے لگانے والا یہ شخص اپنی علمیت کا رعب کبھی نہیں ڈالتا تھا مگر جن کالموں کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں، ان میں عالمی ادب اور عالمی منظر نامے اتنے موثر اور اتنے خوبصورت انداز میں نظر آئے کہ مجھے لگا سہیل وڑائچ مجھے اور کچھ دوسرے کالم نگاروں کو مخاطب کر کے کہہ رہا ہے کہ ’’بچُّو ‘‘ اس طرح لکھتے ہیں کالم۔ میرے خیال میں ہم سب جانتے ہیں کہ شاعری ہو یا نثر، اگر اس میں علمیت موقع بے موقع ٹھونسی جائے تو یہ حرکت خلاف ِ وضع فطری فعل کے زمرے میں آتی ہے۔ سالن مزے کا تب بنتا ہے جب اس میں مسالارچا بسا ہو، اس کے اوپر تیرتا نظر نہ آئے۔ سہیل وڑائچ کے کالموں میں علمیت اوپر اوپر تیرتی نظر نہیں آتی بلکہ ان میں رچی بسی دکھائی دیتی ہے چنانچہ میں نے جب یہ لذیذ کالم پڑھنا شروع کئے تو میرے سینے میں غیر محسوس طریقے سے علم کے چراغ بھی روشن ہوتے محسوس ہوئے۔ ایسی تحریر لکھنا کسی ہماشما کا کام نہیں بلکہ اس کے پیچھے برسوں کا مطالعہ اور تکنیک میں مہارت درکار ہوتی ہے۔ ابھی میں نے لفظ ’’برسوں‘‘ لکھا ہے، کئی برسوں کی جگہ ’’سالوں‘‘ لکھ دیتے ہیں حالانکہ ہر کالم کا کریڈٹ سالوں کو دینا قطعاً ضروری نہیں ہوتا۔ بہرحال چلتے چلتے میں ایک ’’پھڑ‘‘ مارنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ میں سہیل وڑائچ سے اصرار کرتا رہا کہ یہ کالم کتابی صورت میں سامنے آنا چاہئیں کہ یہ ایک علمی، ادبی اور صحافتی امانت ہے جو حقداروں تک ضرور پہنچنا چاہئے۔ انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا قارئین سے درخواست ہے کہ اس پر میرا شکریہ ادا کریں۔
آخر میں ایک بات، میں یہ کتاب ابھی پڑھ رہا ہوں، لیکن جتنی ابھی تک پڑھی ہے ان میں مختلف اسالیب کے کالم نظر سے گزرے۔ یہ کتاب ایک سنسنی کی طرح ہے اور یہ سنسنی ایک صاحب ضمیر نے ترتیب دی ہے۔ میں اس کے ہر سرسے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔ آپ بھی ہوں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور وٹس ایپ رائے دیں۔00923004647998)
Comments are closed.