یہاں کوئی کس پر اعتبار کرے؟ – انصار عباسی
سابق چیف جسٹس ناصر الملک نگراں وزیر اعظم بنے، جسٹس ریٹائرڈ سردار محمد رضا کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا، اسی طرح پروفیسر حسن عسکری کو نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا گیا۔ نگراں حکمرانوں اور دوسرے اعلیٰ عہدیداروں میں ان تین شخصیات سے بہت امید تھی کہ وہ اپنی repute کے مطابق انتخابات کو صاف شفاف بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے لیکن افسوس کہ ان حضرات نے بہت مایوس کیا۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے اپنے CV کو بہتر بنانے کے لیے ان عہدوں پر براجمان رہے ورنہ جو ذمہ داریاں ان کے سپرد کی گئیں تھیں اُنہیں ادا کرنے میں وہ مکمل ناکام رہے۔ اگر چیف الیکشن کمشنر کے بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان تک کو کہنا پڑا کہ وہ الیکشن کے دن سو رہے تھے تو نگراں وزیر اعظم تو ایسے محسوس ہوا کہ کہیں گم ہو گئے ہیں۔ نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب تو انتخابات میں پارٹی بن کر ابھر آئے اور مخالفین سیاستدانوں پر ریلی نکالنے پر دہشت گردی کے پرچے تک کٹوا دیئے۔ نام تو یہ بڑے بڑے تھے لیکن کسی ایک نے بھی انتخابات میں دھاندلی کے متعلق سنجیدہ الزامات کا جواب دیا اور نہ ہی ان میں سے کسی کو انتخابات سے پہلے، الیکشن والے دن اور اُسی رات کوئی گڑ بڑ نظر آئی۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے ذریعے الیکشن کمیشن کو بہت مضبوط بنایا گیا لیکن جسٹس سردار رضا کے ماتحت اس ادارے نے ایسے الیکشن کروائے جوشاید پاکستان کی تاریخ کے سب سے متنازع انتخابات رہے اور اسی بنا پر حتیٰ کہ جیتنے والی تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق تک کو یہ کہنا پڑھا کہ انتخابات متنازع رہے اور الیکشن کمیشن اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب نہ ہوا۔ نعیم الحق نے کہا کہ نئی پارلیمنٹ میں اُن کی حکومت اور پارٹی الیکشن کمیشن کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے گی۔ لیکن میری ذاتی رائے میں مسئلہ قانون کا نہیں بلکہ افراد کا ہے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر لمبی لمبی مشاورتی میٹنگز کے بعد الیکشن کمیشن کے سربراہ اور ممبران کے علاوہ نگراں وزیراعظم اور وزرائے اعلٰیٰ کو چنا گیا لیکن جب وقت آیا تو صاف اور شفاف انتخابات منعقد کرنے کی جو ذمہ داری اُن پر عائد کی گئی تھی اُس میں وہ مکمل ناکام ہو گئے۔ جب ضرورت تھی اور وقت تھا تو کوئی سو گیا، کوئی گم ہو گیا اور کسی نے تو اپنا رول ہی بدل لیا۔ چند روز دی نیوز اور جنگ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق 90 فیصد سے زائد فارم 45 پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط ہی نہیں پائے گئے۔فخر درانی کی خبر کے مطابق90فیصد سے زائد فارم45 پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط نہیں ہیں۔ یہ وہ معاملہ ہے جو انتہائی سنگین نوعیت کا ہے لیکن الیکشن کمیشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فارم 45پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط ضروری نہیں کیونکہ فارم پر دستخط کی جگہ ہے ہی نہیں۔ جب ترجمان سے پوچھا گیا کہ الیکشن ایکٹ،2017میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پریذائڈنگ افسر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط لے گا، تو ان کا کہنا تھا کہ پریذائڈنگ افسر کو الیکشن ایکٹ کا علم نہیں ہوگا، اسی لیے انہوں نے فارم 45پر دستخط نہیں لیے۔ سابق اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق کسی بھی حلقے میں دوبارہ گنتی کے لیے آر اوز کو اُس وقت لازم حکم دینا ہے جب جیتنے اور ہارنے والے کے ووٹوں کا فرق پانج فیصد یا دس ہزار سے کم ہو لیکن اس کے باوجود آر اوز نے کہیں تو دوبارہ گنتی کی اجازت دی اور کہیں نہ دی۔ ایاز صادق کے مطابق جب انہوں نے الیکشن کمیشن سے بات کی تو جواب ملا کہ آر اوز کو الیکشن ایکٹ کی متعلقہ شق کا علم نہ ہو گا۔ چاہے فارم 45 کا مسئلہ ہو یا دوبارہ گنتی کا معاملہ یہ ناکامی اور ناہلی پریذائڈنگ افسر کی یا آر اوز کی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کی ہے جس نے اس قوم کے بیس ارب انتخابات کو صاف اور شفاف انداز میں کرانے کے لیے تو لے لیے لیکن اپنے عملے کو بنیادی ٹریننگ نہ دی کہ اُنہوں نے الیکشن کیسے کروانا ہے۔ اتنی بڑی بڑی خرابیاں سامنے آئیں لیکن نہ کسی کو معطل کیا گیا نہ سزا دی گئی۔ اس نااہلی اور ناکامی کی سزا تو الیکشن کمشنر اوراس کے ممبران کو ملنی چاہیے لیکن اس کے اپوزیشن تو مطالبات کر رہی ہے لیکن کوئی ذمہ داربولنے پر تیار نہیں۔ یہاں کہا جاتا ہے کہ اداروں کو بنائیں، اُنہیں مضبوط کریں جو درست بات ہے لیکن الیکشن کمیشن اور نگرانوں کے حالیہ رول کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ادارے بنا بھی دیے تو ایسے افراد کہاں سے لائیں گے جو سچ بولنے کی بھی جرأت رکھتے ہوں اور اداروں کی آزادی اور خودمختاری کا بھی بھرم رکھ سکیں۔
Comments are closed.