چالیس سال بعد – جاوید چودھری

Javed Chaudhry Columns

شبنم کا اصل نام جھرنا باسک تھا‘ یہ 1942ء میں ڈھاکا کی ایک ہندو فیملی میں پیدا ہوئی‘ والد نانی باسک فٹ بال کا ریفری تھا‘ یہ بچپن میں ’’ٹام بوائے‘‘ قسم کی لڑکی تھی‘ والد کے کہنے پر ڈانس سیکھا‘ بلبل لالی ٹاکلا اکیڈمی میں داخلہ لیا‘ بنگالی فلم ’’ای دیش تمرامر‘‘ میں چھوٹا سا رول کیا‘ اگلی فلم ’’راجدھانیر بوکے‘‘تھی‘ شبنم نے اس میں ڈانس کیا اور گانا گایا‘ یہ گانا ہٹ ہو گیا‘ یہ اس کے بعد بنگالی فلم ’’ہرانا دن‘‘ میں ہیروئن کاسٹ ہو گئی یہاں سے اس کا فلمی کیریئر شروع ہو گیا۔

1962ء میں ڈھاکا میں اردو فلمیں بننے کا آغاز ہوا‘شبنم کوہدایت کار احتشام نے فلم ’’چندا ‘‘میں کاسٹ کیا‘یہ اس فلم کی سائیڈہیر وئن تھی لیکن اس کی اداکاری اتنی جاندار تھی کہ اس کے پاس فلموں کی لائن لگ گئی‘ شبنم بڑی ایکٹریس تھی اور بنگالی سینما چھوٹا چنانچہ یہ ڈھاکا سے لاہور شفٹ ہو گئی۔

وحید مراد نے اسے 1968ء میں اپنی فلم سمندر میں کاسٹ کیا اور پھر شبنم نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ یہ 1980ء کی دہائی تک پاکستانی فلم انڈسٹری پر چھائی رہی‘ فلم بین اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ترستے تھے‘ یہ 28برس فلم انڈسٹری سے منسلک رہی‘ 13 نگار فلم ایوارڈز حاصل کیے اور 180 فلموں میں لیڈنگ رول ادا کیا‘ شبنم نے 1965ء میں نامور موسیقار روبن گھوش سے شادی کر لی‘ بیٹا رونی گھوش 1966میںپیدا ہوا‘ مشرقی پاکستان 1971ء میں بنگلہ دیش بن گیا۔
شبنم کے والدین بنگلہ دیش میں تھے‘سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اس کے پاس دو آپشن تھے‘ یہ ڈھاکا شفٹ ہو جاتی یا پھر پاکستان میں مقیم رہتی‘ شبنم نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیا‘ آپ نے اگر 1970ء اور 1980ء کا زمانہ دیکھا ہو تو آپ اچھی طرح فیصلہ کر سکتے ہیں پاکستانی اداکار اور اداکارائیں اس وقت ملک کی مقبول ترین شخصیات ہوتی تھیں اور شبنم ان میں پہلے نمبر پر آتی تھی۔

شبنم گلبرگ لاہور میں رہتی تھی‘ سیکڑوں لوگ سارا سارا دن جھلک دیکھنے کے لیے اس کے گھر کے سامنے کھڑے رہتے تھے لیکن پھر 12فروری 1978ء کو پانچ لوگ شبنم کے گھر میں داخل ہوئے اور اس کا کیریئراور شخصیت دونوں تباہ ہو گئے‘ وہ لوگ شام سے گھر کے سامنے منڈلا رہے تھے‘ وہ پوری رات ماحول کا اندازہ کرتے رہے اور صبح چار بجے جب پورا گلبرگ گہرے کہرے میں گم تھا‘ یہ لوگ شبنم کے گھر میں داخل ہو گئے‘ ملزموں نے شبنم‘ روبن گھوش اور رونی گھوش کو اکٹھا کیا‘ ان کے سر پر پستول رکھا اور پانچ لاکھ روپے طلب کیے‘ ملزموں نے رقم نہ ملنے کی صورت میں رونی گھوش کو اغواء کرنے کی دھمکی دے دی‘ یہاں سے اب دو ’’ورژن‘‘ سامنے آتے ہیں‘ شبنم‘ روبن گھوش اور ان کے وکیل ایس ایم ظفر کا کہنا ہے ’’یہ لوگ بگڑے ہوئے رئیس زادے تھے۔

یہ صرف رقم لینے کے لیے گھر داخل ہوئے تھے‘ رقم لی اور چپ چاپ واپس چلے گئے‘‘ جب کہ فلم انڈسٹری اور اخبار نویسوں نے دعویٰ کیا ملزمان نے روبن گھوش اور رونی گھوش کے سامنے شبنم کا گینگ ریپ کیا لیکن شبنم کی طرف سے ریپ کا الزام لگایا گیا اور نہ ہی یہ ایشو کیس میں کسی جگہ اٹھایا گیا تاہم کیس کے بڑے عرصے بعد ملزم اپنی نجی محفلوں میں ریپ کی ڈینگ مارتے رہے‘ میں 1990ء میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتا تھا وہاں میری شبنم ڈکیتی کیس کے ایک ملزم کے ساتھ ملاقات ہوئی۔

اس نے بڑے فخر کے ساتھ واردات کی تفصیل بیان کی‘ اس کا کہنا تھا ’’شبنم کا رنگ کالا سیاہ اور جسم بدصورت تھا‘ ہم نے شروع میں شبنم کو نہیں پہچانا‘ ہم اسے گھر کی ملازمہ سمجھتے رہے اور اسے شبنم کو بلانے کا حکم دیتے رہے‘‘۔ اس نے اس کے بعد واردات کی جو تفصیل بیان کی وہ ناقابل بیان بھی ہے اور ناقابل سماعت بھی‘ میں بہرحال کیس کی طرف واپس آتا ہوں۔

شبنم نے 13 فروری 1978ء کو ایف آئی آر درج کرا دی‘ یہ خبر نکلی تو پورے ملک میں پھیل گئی‘ ملک میں تازہ تازہ مارشل لاء لگا تھا‘ جنرل ضیاء الحق بھی شبنم کے فین تھے چنانچہ پولیس پر دباؤ آیا اور پولیس نے 36 گھنٹوں میں ملزمان گرفتار کر لیے‘ ملزمان کا سرغنہ فاروق بندیال تھا جب کہ باقی ملزم وسیم یعقوب بٹ‘ طاہر تنویر‘ جمیل احمد چٹھہ اور اکبر ساہی تھے‘ یہ تمام ملزم پنجاب کے خوش حال اور بااثر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور یہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے تھے۔

سرغنہ فاروق بندیال خوشاب کی تگڑی زمین دار فیملی سے تعلق رکھتا تھا‘یہ گاؤں بندیال کا رہنے والا تھا‘ اس کے ماموں ایف کے بندیال اس وقت چیف سیکریٹری تھے‘ ملزم گرفتار ہو گئے لیکن پولیس اور شبنم کا خاندان شدید دباؤ میں آ گیا‘ ہمارے سینئر بتایا کرتے تھے چیف سیکریٹری کے پریشر کی وجہ سے آبروریزی کا الزام دبا دیا گیا۔

شبنم بھی اس معاملے میں خاموش تھی‘ میں نے تین دن پہلے شبنم کے وکیل ایس ایم ظفر کو فون کیا‘ شاہ صاحب کا کہنا تھا ’’کیس میں کسی جگہ آبروریزی کاالزام نہیں تھا‘شبنم نے میرے بار بار پوچھنے پر بھی مجھے نہیں بتایا‘ پولیس کو بھی تفتیش کے دوران اس قسم کا کوئی اشارہ نہیں ملا‘ شبنم نے میڈیکل ٹیسٹ بھی نہیں کرایا تھا چنانچہ یہ الزام غلط ہے‘‘ حکومت نے ملزموں کی گرفتاری کے بعد اسپیشل فوجی عدالت بنادی‘ ملزم عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور عدالت نے انھیں سزائے موت سنا دی‘ سزا کے چند ہفتے بعد شبنم کے وکیل ایس ایم ظفر نے جنرل ضیاء الحق کو خط لکھا اور ملزمان کی سزا معاف کرنے کی درخواست کی۔

جنرل ضیاء الحق نے یہ درخواست منظور کر کے ملزمان کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی‘ ایس ایم ظفر کا یہ خط بعد ازاں متنازعہ ہو گیا‘ صحافی آج تک شاہ صاحب سے پوچھتے ہیں ’’آپ شبنم کے وکیل تھے‘ آپ کی جرح پر ملزموں کو سزائے موت ہوئی تھی پھر آپ نے ملزموں کے لیے اپیل کیوں کی؟‘‘ میں نے بھی شاہ صاحب سے یہ سوال کیا‘ ایس ایم ظفر نے دو وجوہات بتائیں۔

ان کا کہنا تھا’’ میں سزائے موت کے خلاف ہوں‘ میں نہیں چاہتا تھا میری وجہ سے کوئی شخص پھانسی چڑھ جائے‘ دوسری وجہ شبنم تھی‘ شبنم بھی نہیں چاہتی تھی ملزموں کو پھانسی ہو‘ وہ کہتی تھی اس سے ان کے خاندانوں کے ساتھ دشمنی ہو جائے گی اور ہم یہ نہیں چاہتے چنانچہ میں نے جنرل ضیاء الحق کو خط تحریر کر دیا‘‘ یہ وضاحت اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے شبنم سے لے کر ایس ایم ظفر کے خط اور جنرل ضیاء الحق کی منظوری تک فاروق بندیال کے ماموں ایف کے بندیال نے اہم کردار ادا کیا۔

یہ بااثر ترین بیوروکریٹ تھے‘ جنرل ضیاء الحق انھیں ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے چنانچہ درخواست فوراً منظور ہو گئی ورنہ ایس ایم ظفر نے کتنے فیصلوں کے بعد ملزموں کی معافی کے لیے درخواستیں کیں اور کتنی درخواستیں منظور ہوئیں؟ یہ بہرحال ملزم کے ماموںکا ڈنڈا تھا چنانچہ شبنم کو پورا انصاف نہ مل سکا‘ ملزمان کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوئی‘ جیل میں بھی انھیں رعایتیں ملیں اور یہ دو برس میں رہا ہو کر گھر واپس آ گئے اور خاندان نے ڈھول بجا کر ان کا استقبال کیا۔

یہ کیس شبنم کا کیریئر‘ توانائی اور جذبہ تینوں کو نگل گیا‘ یہ فلم انڈسٹری سے پسپا ہوئی‘ تنہائی کا شکار ہوئی اور آخر میں والدین کے پاس بنگلہ دیش جانے کا فیصلہ کر لیا‘ ایف کے بندیال اس وقت بھی موجود تھے چنانچہ حکومت نے شبنم کو بنگلہ دیش جانے کی اجازت نہ دی‘ شبنم دو سال وزارت خارجہ کے این او سی کے لیے ماری ماری پھرتی رہی یہاں تک کہ اس نے حکومت کو لکھ کر دے دیا ’’میرے والدین بیمار ہیں‘ مجھے ایک بار ان سے ملاقات کی اجازت دے دی جائے‘ میں وعدہ کرتی ہوں‘ میں واپس آؤں گی‘‘ یہ درخواست اوپر تک گئی اور شبنم کو صدر کی ہدایت پر بنگلہ دیش جانے کی اجازت دی گئی۔

یہ ڈھاکا گئی اور پھر اپریل 2012ء میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے لیے پاکستان آئی‘ شبنم کا بیٹا رونی ڈکیتی کی واردات کے بعد امریکا شفٹ ہو گیا‘ یہ کبھی دوبارہ پاکستان نہیں آیا‘ روبن گھوش13فروری 2016ء کوانتقال کر گیا یوں اس کیس کے بعد شبنم ماضی کا قصہ بنتی چلی گئی‘دوسری طرف فاروق بندیال رہائی کے بعد کاروبارمیں آگیا‘اس نے بندیال بس سروس شروع کر دی‘ اس کا بھائی ہارون بندیال یونین کونسل کا چیئرمین اور بہنوئی کرم الٰہی بندیال ایم پی اے تھا‘ وقت کا دھارا آگے بڑھتا رہا۔

فاروق بندیال نے اپنا طرز عمل تبدیل کر لیا‘ یہ شریف اور منکسرالمزاج ہو گیا لیکن شبنم ڈکیتی کیس اس کا حوالہ بنا رہا‘ یہ آج بھی جب اپنا تعارف کراتا ہے تو لوگ چونک کر اس کی طرف دیکھتے ہیں اور یہ شرمندہ ہو جاتا ہے‘ یہ فاروق بندیال 31مئی کو پی ٹی آئی میں شامل ہو گیا‘بندیال فیملی کی خوشاب میں سمیرہ ملک کے ساتھ مخالفت ہے‘ یہ مخالفت رنگ لائی‘ عمران خان کے ساتھ فاروق بندیال کی تصویر سوشل میڈیا پر آئی اور ملک میں کہرام مچ گیا‘ عمران خان پر اتنا عوامی دباؤ آیا کہ پی ٹی آئی فاروق بندیال کو چند گھنٹوں میں نکالنے پر مجبور ہو گئی۔

جس کے بعد یہ یقین تازہ ہوگیا ہماری غلطیاں‘ ہمارے گناہ اور ہمارے جرم پوری زندگی ہمارا تعاقب کرتے ہیں‘ ہم بھی بھول جاتے ہیں اور لوگ بھی بھول جاتے ہیں لیکن قدرت نہیں بھولتی‘ ہم جب بھی عزت کے قریب پہنچتے ہیں تو قدرت لوگوں کو ہمارا جرم‘ ہمارا گناہ یاد کرا دیتی ہے اور یوں ہم عزت سے محروم ہو جاتے ہیں‘فاروق بندیال نے 40 سال پہلے جرم کیا‘ شبنم نے خوف کی وجہ سے آبروریزی کو ڈکیتی بننے دیا۔

ماموں ایف کے بندیال بھانجے کی ڈھال بن گیا اور جنرل ضیاء الحق نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملزموں کی سزا میں کمی کر دی لیکن قدرت نے انھیں معاف نہیں کیا‘ یہ لوگ چالیس سال بعد بھی سزا بھگت رہے ہیں‘عمران خان بھی ان کے ساتھ ہاتھ ملانے کے بعد ہاتھ دھونے پر مجبور ہوجاتا ہے‘ کیا یہ چیز ثابت نہیں کرتی قدرت کا حافظہ چٹان کی لکیر ہوتا ہے‘ اس چٹان پر اگر ایک بار لکیر آ جائے تو پھر یہ لکیر ختم نہیں ہوتی‘ خواہ کتنے ہی زمانے گزر جائیں‘ خواہ چٹان پر کتنی ہی مٹی پڑ جائے اور خواہ فاروق بندیال کتنا ہی شریف ہو جائے۔

Source
Must Read urdu column 40 saal bad by Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.