سات ہزار 9 سو 64 – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

وہ ایک بدصورت لڑکی تھی‘ رنگت سیاہ تھی‘ ہونٹ موٹے تھے‘ بال کرلی اور الجھے ہوئے‘ ہاتھ اور پائوں بھرے‘ آواز بیٹھی ہوئی‘ کندھے جھکے ہوئے‘ آنکھیں باہر کی طرف ابلی ہوئیں‘ کمر اندر کی طرف دبی ہوئی اور ناک پکوڑا سی۔

اس کے چہرے کی جلد بھی اللہ معاف کرے گوبر کے اوپلے کی طرح کھردری اور لکیر دار تھی‘ وہ کسی زاویے‘ کسی اینگل سے خوب صورت دکھائی نہیں دیتی تھی لیکن وہ اس کے باوجود کمپنی کی کامیاب ترین سیلز گرل تھی‘ وہ نیویارک کی ایک گروسری چین میں کام کرتی تھی‘ امریکا میں اس چین کے سیکڑوں اسٹور تھے‘ نیویارک میں بڑا اسٹور تھا اور وہ اس بڑے اسٹور کی سیلز گرل تھی‘ کمپنی ہر مہینے عملے کی کارکردگی کا جائزہ لیتی تھی‘ وہ ہر جائزے میں پہلے نمبر پر آتی تھی۔

انتظامیہ اس کی کارکردگی پر حیران تھی‘ کمپنی کے صدر نے ایک دن اس سے کام یابی کا گر پوچھ لیا‘ یہ کمپنی کی سالانہ میٹنگ تھی‘ میٹنگ میں صرف ایگزیکٹوز اور ڈائریکٹرز شریک تھے‘ وہ کمپنی کی تاریخ کی واحد ملازمہ تھی‘ جسے ڈائریکٹرز اور ایگزیکٹوز نے اس اعلیٰ ترین میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی اور اس سے کمپنی کے پالیسی سازوں کے سامنے کامیابی کا گر پوچھا گیا‘ کمپنی کا صدر میٹنگ کو چیئر کر رہا تھا‘ وہ اس بدصورت لیکن کامیاب ترین سیلز گرل کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔

لڑکی نے مسکرا کر جواب دیا ’’دو گر ہیں‘‘ میٹنگ میں موجود تمام گرو اسے غور سے دیکھنے لگے‘ اس نے جواب دیا ’’ پہلا گر میری جسمانی بدصورتی ہے‘ میرے جسم میں کوئی چیز خوب صورت نہیں تھی‘ میں بچپن ہی میں اپنی اس خامی کو سمجھ گئی چناںچہ میں نے اپنے ذہن‘ اپنی اخلاقیات اور اپنی زبان کو خوب صورت بنا لیا‘ مجھے دیکھنے والے مجھے مسترد کر دیتے ہیں لیکن مجھ سے ملنے والے‘ میرے ساتھ گفتگو کرنے والے اور میرے ساتھ ڈیل کرنے والے مجھے کبھی بھول نہیں پاتے‘ یہ مجھے ہمیشہ یاد رکھتے ہیں‘‘۔

اس نے سانس لیا اور اس کے بعد بولی ’’ اور دوسرا گر میرا دوسرا پھیرا ہے‘ میں اپنے کسٹمر کو کائونٹر پر کھڑا کرتی ہوں اور اس کے پاس دو بار آتی ہوں‘‘ میٹنگ میں شریک ڈائریکٹرز کو پہلی بات فوراً سمجھ آگئی‘ یہ جان گئے کمپنی کی بدصورت ترین سیلز گرل اخلاقیات‘ گفتگو اور ڈیل میں خوب صورت ترین ہے چناںچہ یہ اپنے لب ولہجے‘ انداز گفتگو اور مینرز کے ذریعے گاہکوں کو گرفت میں لے لیتی ہے لیکن انھیں دوسرے پھیرے کا گر سمجھ نہ آیا لہٰذا وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔

خاتون مسکرائی اور نرم لہجے میں بولی ’’ فرض کیجیے‘ آپ میرے کسٹمر ہیں‘ آپ میرے کائونٹر پر ایک کلو گرام چینی لینے آتے ہیں‘ میں اسٹور میں جائوں گی‘ کلو گرام کے تھیلے میں ذرا سی چین کم ڈالوں گی‘ یہ تھیلا گاہک کے سامنے لائوں گی‘ اسے ترازو میں رکھوں گی‘ چینی کم ہوگی‘ میں وہ تھیلا اور وہ گاہک وہاں چھوڑ کر اسٹور میں جائوں گی اور وہاں سے باقی چینی لے کر دوبارہ واپس آئوں گی‘ میرے دوسری بار اندر جانے‘ واپس آنے اور تھوڑی سی چینی زیادہ ڈالنے سے گاہک کو اپنی اہمیت کا احساس ہو گا‘ وہ مجھ سے متاثر ہو جائے گا چناںچہ وہ ہر بار ہمارے اسٹور سے گروسری خریدے گا‘ وہ ہر بار مجھ سے سودا خریدنے کی کوشش بھی کرے گا‘‘۔

بورڈ آف ڈائریکٹرز کے لیے یہ ایک عجیب گر تھا‘ ڈائریکٹرز سیلز نے کرسی پر پہلو بدلا اور اس سے مخاطب ہوا ’’ ملیا لیکن ہمارے اسٹور کی زیادہ تر مصنوعات پیکٹس میں ہوتی ہیں‘ آپ ان کا وزن نہیں کر سکتیں‘‘ ملیا مسکرائی اور پورے یقین سے بولی ’’ سر میں گاہک کی ٹوکری میں سے کوئی پیکٹ اٹھاتی ہوں‘ اس کا وزن کرتی ہوں‘ وہ پیکٹ اگر وزن میں کم ہوتو میں اس کی جگہ پورے وزن والا پیکٹ رکھ دیتی ہوں اور اگر تمام پیکٹس کا وزن کم ہو تو میں ڈبے کھول کر اس پیکٹ کا وزن پورا کر دیتی ہوں‘ گاہک میری اس توجہ سے متاثر ہو جاتا ہے‘‘۔

ڈائریکٹر سیلز نے پوچھا ’’کیا دوسری سیلز گرلز ایسا نہیں کرتیں‘‘ ملیا نے مسکرا کر جواب دیا ’’ سر وہ خوب صورت ہیں اور خوب صورتی کو تکنیک کی ضرورت نہیں ہوتی‘ خوب صورت لوگ اپنے خوب صورت فگر‘ اپنی خوب صورت آنکھوں‘ اپنے خوب صورت ہونٹوں‘ اپنے گورے رنگ‘ اپنے قد کاٹھ اور اپنے خوب صورت ہاتھوں اور پائوں کو اپنی طاقت سمجھ لیتے ہیں‘ یہ اسے اپنا سیلز پوائنٹ بنا لیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں لوگوں کو آپ کی مسکراہٹ اپنی طرف متوجہ تو کر سکتی ہے‘یہ انھیں اپنے پاس ٹھہرا نہیں سکتی‘ مریضوں کو اچھی نرس چاہیے ہوتی ہے‘ خوب صورت نرس نہیں‘ آپ انتہائی خوب صورت نرس ہیں لیکن آپ مریض کے بازو کی غلط جگہ پر انجیکشن لگا دیتی ہیں تو کیا مریض آپ کی خوب صورتی کی وجہ سے خاموش رہے گا‘ ہرگز نہیں‘ وہ طوفان کھڑا کر دے گا۔

لوگ خوب صورت ماڈل کی وجہ سے فریج کا اشتہار تو دیکھ لیتے ہیں لیکن یہ جب بھی فریج خریدیں گے یہ فریج کی کارکردگی کو ذہن میں رکھ کر خریدیں گے‘ یہ ماڈل کے حسن کے جلوئوں کو دیکھ کر نہیں خریدیں گے‘ اخلاقیات‘ بی ہیویئر اور آپ کی شائستگی آپ کی اصل طاقت ہوتی ہے اور آپ کو اس طاقت کا استعمال سیکھنا چاہیے‘‘ وہ رکی اور دوبارہ بولی ’’ اور دوسری بات میری دوسری کولیگز اپنا پھیرا بچانے کے لیے عموماً اسٹور سے لفافے میں زیادہ چینی ڈال کر لاتی ہیں‘ یہ گاہک کے سامنے چینی تولتی ہیں‘ لفافے میں موجود زائد چینی نکالتی ہیں اور ایک کلو گرام کا پیکٹ بنا کر گاہک کو دے دیتی ہیں‘ یہ چینی پوری ہوتی ہے لیکن گاہک کیوںکہ لفافے سے چینی نکلتے دیکھتا ہے لہٰذا وہ سمجھتا ہے۔

سیلز گرل نے اسے پوری چینی نہیں دی اور یہ غلط سوچ اس سیلز گرل اور اسٹور دونوں کو نقصان پہنچاتی ہے چناںچہ میرا خیال ہے‘ ہم اگر اپنے اسٹور میں دوسرے پھیرے کو لازم قرار دے دیں تو ہماری سیل میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے اور سیلز مین اور سیلز گرلز کی کارکردگی بھی بہتر ہو سکتی ہے‘‘ اس معمولی سی ٹپ سے بورڈ کے تمام ارکان متاثر ہو گئے‘ وہ اپنی نشستوں سے اٹھے اور ملیا کے لیے تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ یہ ملیا بعد ازاں امریکا کی نامور سیلز گرل بنی‘ اس نے نئے سیلز مین اور سیلز گرلز کی ٹریننگ کا سلسلہ شروع کیا اور امریکا کے ہزاروں سیلز مین کو سیلز کی ٹریننگ دی۔

آپ ملیا کی کام یابی پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا اس نے اپنی بدصورتی کو اپنی طاقت بنا لیا تھا‘ یہ جان گئی تھی‘ اس کے پاس لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے خوب صورت آنکھیں‘ خوب صورت ہونٹ‘ خوب صورت چہرہ‘ خوب صورت گردن اور خوب صورت قد کاٹھ نہیں‘ اس کی چال بھی مستانی نہیں اور اس کا سراپا بھی خوب صورت نہیں چناںچہ اس کے پاس ایک ہی آپشن بچتا ہے‘ یہ اپنے اندر کی ملیا کو اتنا خوب صورت بنا لے کہ اس کی اندرونی اچھائیاں اس کی بیرونی خامیوں پر پردہ ڈال دیں‘ اس کے اندر کی روشنی اس کے باہر کے اندھیرے میں چمک پیدا کر دے۔

ملیا نے اپنے اندر پر توجہ دی اور اس کی پوری کائنات بدل گئی‘ قدرت ہمیں آٹھ ہزار صلاحیتیں دے کر دنیا میں بھجواتی ہے‘ آپ اگر دنیا کے تمام ٹریڈز‘ تمام پیشوں اور تمام کاموں کی فہرست بنائیں تو یہ فہرست 85 کے عدد سے اوپر نہیں جائے گی جب کہ قدرت ہمیں ان 85 پیشوں یا مہارتوں کے لیے آٹھ ہزار صلاحیتیں دے کر دنیا میں بھجواتی ہے‘ ہم اگر ان آٹھ ہزار صلاحیتوں میں صرف دس فیصد کو استعمال کر لیں تو دنیا ہزار سال تک ہمارا نام یاد رکھنے پر مجبور ہو جائے گی۔

دنیا میں ایسے ایسے لوگ گزرے ہیں جو ایک سوئی زمین پر گاڑتے تھے‘ دوسری سوئی لے کر تین گز کے فاصلے پر بیٹھ جاتے تھے‘ یہ دوسری سوئی پھینکتے تھے اور یہ سوئی زمین پر گڑھی سوئی کے ناکے سے گزر جاتی تھی‘ یہ ان آٹھ ہزار صلاحیتوں میں سے ایک صلاحیت کا استعمال تھا‘ بھارت میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کھائے پیے بغیر دو‘ دو سال گزار دیتے ہیں‘ جانوروں کی بولیاں سمجھنے اور بولنے والے سیکڑوں لوگ موجود ہیں۔

روس میں دنیا کا سرد ترین گائوں اومیاکون (Oymyakon) موجود ہے‘ اس کا درجہ حرارت منفی پچاس سے منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے‘ اس درجہ حرارت میں زندگی ممکن نہیں رہتی مگر اس گائوں میں آج بھی پانچ سو لوگ موجود ہیں‘ یہ لوگ سردی کے موسم میں بھی باہر نکلتے ہیں اور زندگی کے زیادہ تر تقاضے پورے کرتے ہیں‘ مریخ پر زندگی ممکن نہیں مگر انسان مریخ پر جانے کے لیے پرتول رہا ہے‘ سمندر کے اندر میلوں گہرے گڑھے ہیں‘ دنیا کا گہرا ترین گڑھا بحراوقیانوس میں ماریانہ ٹرینچ ہے۔

لوگ اس گڑھے میں اترنے اور اس کی گہرائی تک جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کسی نہ کسی دن چلے بھی جائیں گے اور یہ ان 8 ہزار صلاحیتوں میں سے چند ہیں جو قدرت ہمیں دے کر دنیا میں بھجواتی ہے لیکن ہم اپنی جسمانی کمزوریوں‘ اپنی جسمانی ساخت کی خرابیوں کو رکاوٹ بنا کر پوری زندگی رو دھو کر گزار دیتے ہیں‘ اس دنیا میں جس میں زرافے خوراک کے لیے اپنی گردن لمبی کر لیتے ہیں‘ ہم انسان اس دنیا میں اپنے چہرے کے رنگ سے ہار جاتے ہیں‘ ہم اپنے قد کاٹھ سے مار کھا جاتے ہیں۔

ہم کس قدر بے وقوف ہیں‘ ہم یہ نہیں جانتے‘ قدرت نے ہمیں آٹھ ہزار صلاحیتیں دیں‘ ان میں سے صرف 36 دوسرے لوگوں کو نظر آتی ہیں‘ باقی سات ہزار 9 سو 64 ہمارے اندر چھپی ہیں لیکن ہم پوری زندگی اپنے ان سات ہزار 9 سو 64 دوستوں کو آواز نہیں دیتے‘ ہم انھیں جگانے‘ انھیں اٹھانے کی کوشش نہیں کرتے چناںچہ ہم اپنی جسمانی کمزوریوں کا رونا رو کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

Source: Express News

Must Read Urdu column 7964 By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.