’’میں تجھے بھول جائوں اگر‘‘ – حسن نثار
کچھ اندھے ہوتے ہیں، کچھ عقل کے اندھے اور کچھ دونوں طر ف سے فارغ ہوتے ہیں۔ آج کل ایسے لوگوں کی کمی بری طرح کھٹک رہی ہے۔ دھمالوں، چنڈالوں، خلالوں کےبغیر سیاست کی رونق آدھی بھی نہیں رہ گئی۔ یہ سب وہ لوگ تھے جنہیں عمران کے ہاتھوں پر وزارت ِعظمیٰ کی لکیر ہی نظر نہیںآتی تھی۔ جو آج لکیر سے کہیں بڑھ کر ان کے لئے سیاسی پل صراط بن چکی جس پر بکتربند گاڑیوںکی آمد و رفت بھی جاری ہے۔آنکھوںاور عقل کے اندھوں کے بعد آج کل اک نئی کھیپ میدان میں ہے۔ یہ پہلوں جیسی رونقی تو نہیں لیکن ان کی کمی پوری کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ یہ وہ نابغے ہیں جو ڈری ڈری دھمکیاں دے رہے ہیں یا بددعائیں۔ تازہ ترین دھمکی ملاحظہ فرمائیں…. ’’نواز شریف کے ساتھ ایسا سلوک نہ کریں۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی‘‘کتنی آسانی سے بھول گئے کہ کبھی یہ آصف زرداری کو بکتربند گاڑیوںمیں گھمایا کرتے تھے اور جان بوجھ کرگاڑی کودھوپ میں کھڑا رکھتے تھے اور جہاں تک تعلق ہے ’’وقت بدلنے میںدیر نہ لگنے کا‘‘ تو اسے صحیح معنوں میں سمجھنا ذرا مشکل ہے۔ گمنام، بے نام، بے چہرہ، بے شناخت و بے شجرہ خاندان صدیوں گمنامی، غربت، خانہ بدوشی کے اندھیروں میں گم رہنے کے بعد ’’سلاطین عثمانیہ‘‘ بنے اور پھر یوں بکھرتے، سمٹتے اورمٹتے ہیں کہ ان کا نام و نشان نہیں ملتا۔ آج جب کوئی خود کو ’’مغل‘‘کہتا ہے تو لوگ مسکرا دیتے ہیں، کورنش بجا نہیںلاتے۔ ایران کے صفوی ڈھونڈے سے نہیںملتے اور روس کے زاروںکا ایک شہزادہ مرا دوست ہے، میرے ساتھ ٹائم طے کرکے آئیں اور ’’کلام شاعر بزبان شاعر‘‘ سن لیں اوریہ خاندان جو چند ماہ پہلے تک “JIT”بھگتانے کے دوران خود کو ’’حکمران خاندان‘‘ قرار دیتا تھا تو میں تب بھی سوچا کرتا تھاکہ قیا م پاکستان کے وقت جب قتل و غارت، کشت و خون، لوٹ مارعروج پر تھی، ٹرینیں لاشوں سے بھری تھیں، بچے مائوں کے پیٹوں سے نکال کر تلواروں، نیزوں، کرپانوں پر اُچھالے جارہے تھے، مہاجرین قافلہ در قافلہ روندے جارہے تھے، مائیں، بہنیں، بہوئیں ، بیٹیاں درندگی کا نشانہ بن رہی تھیں، 14اگست 1947یہ ملک معرض وجود میںآرہا تھا…..تب کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ غربت کامارا جاتی امرا امرتسر سے آیا یہ مزدور خاندان نوزائیدہ پاکستان کی آدھی عمر تک اس پر قابض رہے گا اور خود کو ’’حکمران خاندان‘‘قرار دیتے ہوئے شرمائے گا بھی نہیں….. واقعی وقت بدلتے دیر نہیںلگتی لیکن اس کا مطلب صرف وہی جانتا ہے جو بےشک انسانوں کے درمیان دنوںکو پھیرتا رہتا ہے۔ شہباز شریف کو اس جملے کی سمجھ نہیں آرہی تو وقت سمجھادےگا۔انگریز بیوروکریٹ گیزیٹئرز تیار کیا کرتے تھے جو ریکارڈ پر ہیں تو کوئی زحمت فرمائے 1945، 1946 وغیرہ میں لاہور کے معززین، شرفا، رئوسا، عمائدین میں کون کون لوگ تھے اور کیا آج ان میں سے کسی ایک کا بھی نام و نشان، آل اولاد باقی ہے؟ ہے تو کہاں اور کس حال میں ہے؟’’کیسے کیسے، کیسے کیسے ہوگئے؟‘‘یہ جائے عبرت ہے لیکن رسی جل بھی جائے تو اس کے بل جانے میںکچھ
Comments are closed.