اسپورٹس ایمرجنسی – جاوید چوہدری
مائیک پومپیو امریکا کے وزیر خارجہ ہیں‘ ہارورڈ لاء کالج کے گریجویٹ ہیں‘ سی آئی اے کے ڈائریکٹر بھی رہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انھیں ریکس ٹیلرسن کے بعد وزیر خارجہ بنایا‘ یہ 5ستمبر2018ء کو پاکستان آئے‘ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی‘ ملاقات کے دوران کسی امریکی صحافی نے وزیراعظم سے پوچھا ’’کیاآپ پاک امریکا تعلقات میں بہتری کے لیے پرامید ہیں‘‘ وزیراعظم نے جواب دیا ’’میں اسپورٹس مین ہوں اور اسپورٹس مین کبھی مایوس نہیں ہوتے‘‘ مجھے وزیراعظم کا یہ فقرہ اچھا لگا۔
واقعی امید اسپورٹس مین کا دوسرا بڑا اثاثہ ہوتی ہے‘ پہلا اثاثہ ہمت نہ ہارنے کا جذبہ ہوتا ہے لیکن وزیراعظم کا یہ فقرہ مجھے 18 ویں ایشین گیمز اور ان گیمز میں پاکستان کی کارکردگی کی طرف لے گیا‘میں اداسی اور مایوسی کا شکار ہوگیا‘کیوں؟ مجھے خطرہ ہے آپ بھی حقائق جان کر میرے جیسی کیفیت کا شکار ہو جائیں گے۔
عمران خان دنیا کے پہلے اسپورٹس مین وزیراعظم ہیں اور پاکستان دنیا کے ’’اسپورٹس لونگ‘‘ ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن آپ 18 ویں ایشین گیمز میں پاکستان کی کارکردگی دیکھئے‘ آپ کا سر شرمندگی سے جھک جائے گا‘ ایشین گیمز اولمپکس کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اسپورٹس ایونٹ ہوتا ہے‘ یہ گیمز چار سال بعد ہوتی ہیں اور ایشیا کے45 ممالک ان میں شریک ہوتے ہیں‘ 18ویں ایشین گیمز اگست 2018ء میں انڈونیشیا میں ہوئیں‘ گیمز میں 45 ایشیائی ملکوں کے 11646 کھلاڑیوں نے شرکت کی‘ 40 گیمز ہوئیں اور 465 مقابلے ہوئے۔
پاکستان کے 392 کھلاڑی 35 اسپورٹس میں شریک ہوئے‘ چین‘ بھارت اور انڈونیشیا کے بعد پاکستان ایشیا کا چوتھا بڑا ملک ہے لیکن آپ المیہ ملاحظہ کیجیے گیمز میں 37 ممالک کے کھلاڑی کامیاب ہوئے اور پاکستان کا ان ممالک میں 34 واں نمبر تھا‘ افغانستان 35‘ برما 36 اور شام 37 ویں نمبر پر تھے گویا صرف خانہ جنگی کے شکار تین ممالک کی کارکردگی پاکستان سے بری تھی باقی پورا ایشیا ہم سے آگے تھا‘ پاکستان نے ان گیمز میں صرف چار تمغے حاصل کیے اور وہ بھی کانسی کے تھے‘ کشتی پاکستان کا کھیل ہے۔
ہم نے اس میں بھی کانسی کا تمغہ لیا‘ کانسی کے دوسرے تین تمغے کراٹے (یہ خاتون نے حاصل کیا)‘ اتھلیٹکس اور سکوائش میں تھے جب کہ ان مقابلوں میں چین 289 تمغے لے کر پہلے‘ جاپان 205 کے ساتھ دوسرے‘ جنوبی کوریا 177 تمغوں کے ساتھ تیسرے‘ انڈونیشیا 98 تمغوں کے ساتھ چوتھے‘ ازبکستان‘ جی ہاں ازبکستان 70 تمغوں کے ساتھ پانچویں‘ قازقستان 76 تمغوں کے ساتھ چھٹے‘ بھارت 69 تمغوں کے ساتھ ساتویں‘ تائیوان 67 تمغوں کے ساتھ آٹھویں‘ ایران 62 تمغوں کے ساتھ نویں اور شمالی کوریا 37 تمغوں کے ساتھ دسویں نمبر پر تھا۔
آپ المیے پر المیہ ملاحظہ کیجیے نیپال‘ ترکمانستان‘ لائوس‘ تاجکستان‘ لبنان‘ کوریا‘ عراق‘ سعودی عرب‘ کمبوڈیا‘ کرغزستان اور ویتنام بھی ہم سے اوپر ہیں‘ کمبوڈیا 24 ویں‘ سعودی عرب 25 ویں اور عراق 27 ویں نمبر پر ہے اور یہ اس پاکستان کی حالت ہے جو 1994ء میں کرکٹ‘ ہاکی‘ اسنوکر اور سکوائش دنیا کی چار بڑی اسپورٹس میں ورلڈ چیمپئن تھا‘ آپ ایشین گیمز کا ریکارڈ بھی نکال کر دیکھ لیجیے۔
پاکستان 1954ء میں سونے کے 5‘ چاندی کے 6 اور کانسی کے 2 تمغوں کے ساتھ چوتھے‘1958ء میں سونے کے 6‘ چاندی کے 11 اور کانسی کے 9 تمغوں کے ساتھ چھٹے اور 1962ء میں سونے کے 8‘ چاندی کے 11 اور کانسی کے 9 تمغوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر تھا‘ ہم نے 1990ء میں بھی سونے کے 4‘ چاندی کا ایک اور کانسی کے 7 تمغے لیے تھے اور ہم اس وقت بھی چوتھے نمبر رہے تھے لیکن ہم اب اسپورٹس میں دنیا کے بدترین ملکوں میں شمار ہوتے ہیں۔
ہم صرف خانہ جنگی کے شکار ممالک مثلاً افغانستان‘ برما اور شام سے ذرا بہتر ہیں جب کہ ایشیا کے باقی تمام ملک ہم سے آگے ہیں‘ آپ اگر سینٹرل ایشیا کے 1990ء کی دہائی میں آزاد ہونے والے ممالک کی کارکردگی دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے‘ ازبکستان جیسا ملک ایشین گیمز میں پانچویں‘ قازقستان چھٹے اور تاجکستان 30ویں نمبر پر ہے‘ ازبکستان نے سونے کے 21‘ چاندی کے 24 اور کانسی کے 25 تمغے حاصل کیے‘ کل تمغے 70 ہیں‘ آپ ان سے ہماری کارکردگی کا اندازہ کر لیجیے۔
آپ پاکستان کا ڈیٹا جمع کریں‘ آپ حیران رہ جائیں گے پاکستان کی 69 فیصد آبادی عمر میں 30 سال سے کم ہے‘ پاکستان تاریخ‘ جغرافیہ‘ نفسیات اور رجحانات کے لحاظ سے ایشیا کا ’’اسپورٹس لونگ‘‘ ملک ہے‘ ہمارے بچے اسپورٹس کی سہولیات نہ ہونے کے باوجود تین سال کی عمر میں گلیوں میں کھیلنا شروع کر دیتے ہیں‘ یہ کپڑے کی ٹاکیاں جوڑ کر بال‘ کپڑے دھونے والے ڈنڈوں کو بیٹ‘ بیری کی شاخ کو ہاکی اور پرانے فرائی پین کو ٹیبل ٹینس کا ریکٹ بنا لیتے ہیں اور یہ کھیلتے کھیلتے جوان ہو جاتے ہیں‘ یہ بیچارے اگر یہ بھی نہ کر سکیں تو یہ سائیکل کے پرانے پہیوں‘ گلی ڈنڈوں اور کھوتا ریس کو اسپورٹس بنا لیتے ہیں۔
لیاری میں آج بھی باکسنگ کے مقابلے ہوتے ہیں اور باکسنگ کے بین الاقوامی ماہرین گلی کوچوں میں بڑے ہونے والے ان پڑھ قدرتی باکسروں کی مہارت دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں لیکن آپ قومی سطح پر اسپورٹس کی حالت دیکھ لیجیے‘ ہم نے ایشین گیمز میں 392 کھلاڑی بھجوائے اور وہ کانسی کے صرف چار تمغے جیت پائے‘ کیوں؟ کیا یہ بحران نہیں اور کیا یہ دنیا کے پہلے اسپورٹس مین وزیراعظم کی توجہ کا طالب نہیں؟
عمران خان 21 سال انٹرنیشنل کرکٹ کے کھلاڑی رہے ہیں‘ یہ آج بھی خود کو اسپورٹس مین کہتے ہیں‘ یہ معیشت کے ماہر نہیں ہیں‘ یہ خارجہ امور بھی نہیں جانتے‘ انھیں تجارتی پالیسیاں اور عسکری مجبوریاں سمجھنے میں بھی عرصہ لگے گا‘ یہ ڈیمز بنانے کے ایکسپرٹ بھی نہیں ہیں‘ یہ قانون اور انصاف کے تقاضوں کو بھی نہیں سمجھتے‘ یہ وزیراعظم کی حیثیت سے تقریر بھی نہیں کر سکتے‘ یہ ابھی تک اپنی پارٹی کو یہ سمجھانے میں بھی ناکام رہے ہیں ’’ہم اپوزیشن میں نہیں ہیں‘ ہم اب حکومت میں ہیں‘‘ اور یہ اور ان کی پوری حکومت سوشل میڈیا کو ذہن میں رکھ کر اٹھتی‘ بیٹھتی اور بولتی ہے۔
مائیک پومپیو کے ساتھ ڈھیلا ڈھالا سلام سوشل میڈیا پر وائرل ہو سکتا ہے چنانچہ یہ ڈھیلا سلام لیں گے‘ یوم دفاع پر آنکھوں میں نمی وائرل ہو سکے گی چنانچہ وزیراعظم کی آنکھیں بھی کیمروں میں فوکس ہوں گی اور ان میں نمی بھی دکھائی دے گی‘ آرمی چیف کا وزیراعظم کو سیلوٹ بھی ’’فارورڈ‘‘ ہو سکتا ہے چنانچہ یہ بھی سوشل میڈیا پر چڑھا دیا جاتا ہے اور ہم فلاں عمارت بیچ دیں گے‘ دو سو سال پرانا فلاں ہائوس بھی نیلام کر دیں گے اور ہم فلاں عمارت کو میوزیم اور فلاں کو آرٹ گیلری بنا دیں گے۔
یہ اعلانات بھی سوشل میڈیا پر طوفان برپا کرسکتے ہیں چنانچہ یہ بھی دھڑا دھڑ ہو رہے ہیں‘ ہماری حکومت سے کوئی شخص یہ نہیں کہتا آپ اگر ڈالر کی قدر ایک روپیہ کم کر دیں تو ہمارے خزانے میں پورے پاکستان کے ایوانوں کی مالیت سے دگنی رقم آ جائے گی‘ ڈالر کی خبر کیونکہ وائرل نہیں ہو سکتی چنانچہ حکومت اس پر توجہ دینے کے بجائے سادگی کا ڈھول پیٹ پیٹ کر وقت گزار رہی ہے۔
میرا خیال ہے عمران خان شاید یہ تمام محکمے یہ تمام ادارے ٹھیک نہ کر سکیں کیونکہ انھیں ان اداروں کو سمجھنے میں بہت وقت لگ جائے گا لیکن یہ اسپورٹس مین ہیں اور اسپورٹس وہ واحد شعبہ ہے جس کو وزیراعظم دنوں میں ٹریک پر لا سکتے ہیں‘ ہم اگر اسپورٹس مین وزیراعظم کے ہوتے ہوئے بھی اسپورٹس میں ترقی نہیں کرتے‘ ہم اگر اپنا کھویا ہوا اعزاز واپس نہیں لے پاتے تو پھر یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہو گا۔
میری وزیراعظم سے درخواست ہے آپ ملک میں اسپورٹس ایمرجنسی نافذ کردیں‘ تیس چالیس اسپورٹس کی فہرست بنائیں‘ پورے ملک سے کھلاڑی اکٹھے کریں‘ کوچز کا بندوبست کریں‘ کھلاڑیوں کو وظیفے دیں‘ کھلاڑیوں کو اسپورٹس بیس پر سرکاری اور غیر سرکاری محکموں میں بھرتی کریں اور پھر انھیں بھرپور تیاری کے ساتھ مقابلوں میں اتاریں‘ آپ اسپورٹس کو زندہ کرنے کے لیے میڈیا کمپیئن بھی شروع کریں۔
آپ قانون پاس کر دیں اسکول‘ کالج اور یونیورسٹی میں گرائونڈ ضرور ہوں گے اور ہر طالب علم پہلی جماعت سے ایم اے تک کوئی نہ کوئی اسپورٹس ضرور کھیلے گا‘ آپ سرکاری محکموں میں بھی اسپورٹس کو لازم کر دیں‘ ہر محکمہ کسی ایک کھیل کو اپنا سرکاری کھیل بنائے گا‘ یہ میدان یا کورٹ بھی تعمیر کرے گا اور یہ اپنے محکمے اور عام شہریوں کو اس کورٹ یا میدان میں کھیلنے کا موقع دے گا اور حکومت اسی طرح غریب کھلاڑیوں کوکھیل کا سامان‘ خوراک اور ٹریننگ کے لیے امداد اور بلاسود قرضے بھی دے‘ یہ سارا عمل وزیراعظم آفس میں وزیراعظم کی نگرانی میں ہونا چاہیے۔
وزیراعظم کرکٹ کے ساتھ ساتھ ہاکی‘ سکوائش‘ فٹ بال اور کبڈی کو اپنی ترجیحی فہرست میں شامل کر دیں‘ ہم فٹبال کے علاوہ باقی چاروں کھیلوں میں ورلڈ چیمپیئن رہے ہیں لہٰذا ہم بڑی آسانی سے یہ مقام دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں‘ ہم نے اگر کھیلوں پر توجہ نہ دی تو پاکستان بدنام بھی ہو گا‘ بے عزت بھی ہو گا اور ہماری یوتھ بھی نشے کے ہاتھوں برباد ہو جائے گی‘ دنیا میں ایک کامیاب کھلاڑی سو سفیروں کے برابر ہوتا ہے۔
ہم نے اگر اسپورٹس میں ہی اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کر لیا تو پھر ہمیں سافٹ امیج کے لیے کسی قسم کی سفارت کاری یا مارکیٹنگ کی ضرورت نہیں رہے گی‘ ہمارے کھلاڑی ہی پوری دنیا سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگوا دیں گے ورنہ دوسری صورت میں پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کا پہلا اسپورٹس مین وزیراعظم بھی ناکام ہو جائے گا اور ہم گلے میں بدنامی کا طوق باندھ کر پھرتے رہیں گے‘ یہ وہ کام ہے جو وزیراعظم بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں اس میں رقم اور بجٹ دونوں کی ضرورت نہیں بس وزیراعظم کی توجہ چاہیے اور پاکستان کی تباہ ہوتیں اسپورٹس دوبارہ زندہ ہو جائیں گی۔
میری دلی خواہش ہے وزیراعظم اعلان کریں ہم ایشین گیمز 2018ء میں 34 ویں نمبر پر تھے لیکن ہم 2022ء میں دوبارہ چوتھے نمبر پر ہوں گے‘ ہم دنیا کو بتا دیں گے ہم پاکستانی گیا وقت نہیں ہیں‘ ہم‘ ہم ہیں اور ہم کسی بھی وقت ہاری ہوئی بازی کو جیت میں تبدیل کر سکتے ہیں‘ ہم دنیا کے ہر سٹیڈیم میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگوا سکتے ہیں‘ کاش! قوم دنیا کے پہلے اسپورٹس مین وزیراعظم کے منہ سے یہ فقرہ سن سکے‘ کاش !ہم ایشین گیمز میں ہی سہی اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کر لیں۔
Source
Must Read urdu column Sports emergency By Javed chaudhry