بوسیدہ لطیفہ اور نیا ریکارڈ….!- علی معین نوازش
ایک گھسا پٹا لطیفہ آپ نے بار بار سنا ہو گا۔ میں بھی آپ کو یہ لطیفہ سنانے (لکھنے) کی جسارت کر رہا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ جب بھی کوئی یہ لطیفہ سناتا ہو گا تو آپ کو ہنسی کے بجائے غصہ آتا ہو گا لیکن میں یہ لطیفہ آپ کو غصہ دلانے کے لیے نہیں سنانا چاہتا بلکہ یہ لطیفہ ایک حقیقت کی طرف متوجہ کرنے کیلئے لکھنا چاہتا ہوں۔ لطیفہ کچھ اس طرح ہے کہ ٹیچر نے شاگرد سے پوچھا کہ ایم بی بی ایس کا مطلب کیا ہے یا یہ کس کا مخفف ہے، تو شاگرد نے جواب دیا ’’میاں بیوی بچوں سمیت‘‘ یقیناً آپ کو لطیفہ بور لگا ہو گا لیکن جو آپ کو اگلی سطور پڑھ کر معلومات ملیں گی، ان سے آپ کو اس لطیفے کی چاشنی محسوس ہو گی۔ حال ہی میں انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں ایشین گیمز کا انعقاد ہوا جس میں پاکستانی کھلاڑیوں کے دستے نے بھی شرکت کی لیکن کارکردگی ایسی بُری کہ اس سے پہلے کبھی اتنی بری نہ تھی۔ لیکن ان گیمز میں ایک منفرد ریکارڈ بنایا گیا اور ایک ایسی حرکت کی گئی کہ جس پر ایشین گیمز کی ساری انتظامیہ حیران تھی۔ ایشیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے کھلاڑی بھی حیران اور پریشان تھے اور یہ حرکت پاکستانی کھلاڑیوں کے دستے کی طرف سے ہوئی ہے۔ کھیلوں کے عالمی مقابلے‘ جس میں خاص طور پر ایشین گیمز جو اولمپک مقابلوں کے بعد دوسری بڑی گیمز ہوتی ہیں، میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں کو شرکت سے پہلے ایکریڈیشن کارڈ حاصل کرنا ہوتی ہے اور پھر دستے میں شامل ان کھلاڑیوں اور آفیشلز کو ایکریڈیشن کارڈ دیا جاتا ہے جس کے ذریعے وہ مقابلوں میں شرکت اور ان وینیوز میں داخلے کے اہل ہوتے ہیں بلکہ اولمپک ویلیج‘ جہاں کھلاڑیوں کی رہائش کا بندوبست ہوتا ہے، میں داخلے کے لیے بھی گلے میں ایکریڈیشن کارڈ، جس پر آپ کی فوٹو چسپاں ہوتی ہے، لازمی ہونا چاہیے۔ واضح رہے کہ یہ کارڈ صرف کھلاڑیوں اور آفیشلز کو ہی دیاجاتا ہے لیکن پاکستانی دستے میں ایک چار یا پانچ سالہ ایسا بچہ بھی شامل تھا جو نہ تو کسی ٹیم کا کھلاڑی تھا اور نہ آفیشلز میں شامل تھا لیکن وہ نہ صرف یہ کہ ایشین گیمز کے اولمپک ویلیج میں رہائش پذیر تھا بلکہ مقابلوں کے وینیوز میں بھی داخل ہو جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس بچے کی والدہ ایک گیم کی آفیشل کے طور پر پاکستانی دستے میں شامل تھیں۔ اس لئے بچے کا جانا تو بنتا ہی تھا چاہے وہ قوانین کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ خاتون اپنے بچے کو کیسے سنبھالتی ہوں گی اور گیمز کے دوران اپنے فرائض منصبی کیسے ادا کرتی ہوں گی۔ تو بات یہ ہے کہ اس میں انہیںزیادہ پریشانی نہیں ہوئی کیونکہ ان کی بڑی بیٹی بھی اس گیم کے دستے میں بطور کھلاڑی شامل تھی، اس لیے وہ بھی اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتی تھی اور چھوٹے بھائی کو سنبھالتی تھی۔ اب آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہو گا کہ ماں، بیٹی اور معصوم بیٹے کی دیکھ بھال کون کرتا ہو گا کیونکہ ورلڈ کلاس مقابلوں میں چاہے کھلاڑی ہو یا آفیشل، کام آسان نہیں ہوتا تو جواب عرض ہے کہ ان تینوں کو سنبھالنے کے لیے ان خاتون کے شوہر نامدار بھی بطور آفیشل شامل تھے۔ وہ اپنی اہلیہ، بیٹی اور بیٹے کی دیکھ بھال کرتے تھے اور اس کھیل کیلئے کھلاڑیوں اور آفیشلز کی سلیکشن کے ذمہ دار بھی تھے۔ اس گیم میں میڈل کیا آنا تھا البتہ یہ ضرور ہوا کہ ایم بی بی ایس فیملی نے ایشین گیمز کو خوب انجوائے کیا۔ لیکن اس کے مقابلے میں پاکستانی کھلاڑیوں اور دستے کے دیگر آفیشلز کو شدید ہزیمت اٹھانا پڑی کیونکہ ہر گیٹ پر اور خاص طور پر رہائشی ویلیج میں جانے کیلئے اس بچے کو روک لیا جاتا کہ یہ بچہ اس ویلیج میں رہائش کا حقدار نہیں ہے لیکن پھر سارے مل کر انڈونیشیا کے آفیشلز کو انسانی حقوق، برادر ملک اور دینی بھائی ہونے کا واسطہ دے کر راضی کر لیتے۔ اگلے روز یا مختلف اوقات میں مختلف افراد کی ڈیوٹی ہوتی تھی اور دوبارہ اس بچے کو روک لیا جاتا کہ اس کو اجازت نہیں دی جا سکتی اور ہر بار داخلے کے پوائنٹ پر میلہ لگ جاتا کہ پاکستانی وفد میں ایک چار پانچ سالہ بچہ بھی شامل ہے جو کھیلوں کی تاریخ کا ایک نیا ’’ریکارڈ‘‘ ہے۔ اس نئے ’’ریکارڈ‘‘ کے علاوہ اگلے کالم میں کچھ ایسی باتیں بھی شامل کروں گا جو آپ کو حقیقت میں خوش کردیں گی کیونکہ اگلا کالم گزشتہ سے پیوستہ ہو گا۔
۔
Must Read Urdu column Boseedah lateefa aur naya record By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang