عوام اور سلطان عادل – عبدالقادر حسن

Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

عوام کے مسائل کے بارے میں کوئی اور سوچتا ہو یا نہ ہو عوام خود اپنے مسائل کے بارے میں مسلسل غور و فکر کرتے رہتے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کے بارے میں ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ اپنے مسئلوں کا کسی اخبار نویس سے ذکر کر دیں اور اپنی ذمے داری سے آزاد ہو جائیں۔

ان کے خیال میں ذرایع ابلاغ ہی شاید وہ واحد ذریعہ بچ گیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے روزمرہ کے مسائل کو اجاگر کر کے ان کا حل تلاش کر سکتے ہیں، کیونکہ حکومتی ذرایع سے مایوس ہونے کے بعد وہ میڈیا کو استعمال کر کے اپنا حق لینا چاہ رہے ہیں۔ ہمار ے معاشی مسائل اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ ان کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی کیونکہ ہمارے معاشی مسائل کے تین فریق ہیں۔ ایک حکومت پاکستان، دوسرے عالمی ادارے جو ہمیں قرض دیتے ہیں اور تیسرے عوام جو ان قرضوں کی ادائیگی پر مجبور ہیں۔ لیکن اس معاشی تگڈم میں اگر کسی کو نہیں پوچھا جاتا تو وہ تیسرا اہم ترین فریق عوام ہیں جو ان قرضوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں لیکن کوئی بھی ان عوام کی نمایندگی نہیں کرتا اور نہ ہی حکومت عوام کو پوچھتی ہے۔

جناب عالی! صورتحال کچھ یوں ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے شروع میں کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اسے قرض لینے پر مجبور کرتے ہیں پھر اسے جکڑ لیتے ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد میں تاشقند گیا تو وہاں پاکستان کے چند پرانے ریٹائرڈ افسروں کو بہت مصروف دیکھا۔ معلوم ہوا کہ یہ عالمی مالیاتی اداروں اور مقامی حکومت کے درمیان مالی امداد یعنی قرض کے سلسلے میں مصروف ہیں اور اپنے پاکستانی تجربات کی وجہ سے امداد دینے والوں اور لینے والوں کے در میان رابطہ کاکام کر رہے ہیں۔ میں نے ایک بڑے افسر سے عرض کیا کہ آپ تو اس ظلم کا ذریعہ نہ بنیں لیکن ان کے پا س اس نئے ملک ازبکستان کی ترقی کی کوئی دوسری صورت موجود نہیں تھی۔ چنانچہ جلد ہی یہ خبر ملی کہ ورلڈ بینک نے ازبکستان کو اربوں ڈالر کا قرض تھوپ دیا ہے۔

اوراس کے ساتھ ہی ان مراعات میں کمی شروع کر دی ہے جو سوویت یونین کے زمانے سے عوام کو حاصل تھیں یعنی مکان، بجلی، پانی، گیس، تعلیم اور علاج وغیرہ قریب قریب مفت۔ شروع شروع میں پاکستان کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا گیا اور جب کوئی ملک ایک بار مقروض ہو جاتا ہے تو پھر وہ مقروض ہی چلا جاتا ہے۔ آج ملک پر اتنے قرضے ہیں کہ یہ ملک رہن پڑ چکا ہے۔ یہ قرضے حکمرانوں نے لیے، ان کا ایک بڑا حصہ ان قرضوں کے جلو میں آنے والے زبردستی کے ماہرین اپنی مشاورت کی فیس کے بدلے واپس لے گئے جو بچ رہا وہ وہ سیاسی و غیر سیاسی حکمران اور ان کے افسر کھا گئے، البتہ چند قطرے عوام کے حلق میں بھی ٹپکائے گئے۔

آج حکومت ہر اس سہولت کے معاوضے میں اضافہ کیے چلی جا رہی ہے جو اس کی طرف سے عوام کو ملتی ہے یعنی تیل، بجلی، گیس وغیرہ۔ بڑے سرکاری افسر اور حکمران یہ اشیاء مفت استعمال کرتے ہیں۔ ان کی قیمت صرف عوام ادا کرتے ہیں چونکہ قرضے زیادہ ہیں اس لیے ان اشیاء کی قیمتیں بھی زیادہ ہیں اور چونکہ قرضوں کا سود اور اصل بھی مسلسل بڑھتا جاتا ہے اس لیے ان اشیاء کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھتی جاتی ہیں اور اس اضافے کا بوجھ براہ راست عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ لیکن اس تگڈم اور تکون کے تیسرے فریق عوام سے قطعاً کچھ نہیں پوچھا جاتا اور جب وہ احتجاج کرتے ہیں تو اس کی سزا کے طور پر مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے۔

اسلامی دنیا میں تیسرا فریق گزشتہ چودہ صدیوں سے بے زبان اور بے اثر چلا آ رہا ہے۔آنحضرت ﷺ نے مدینہ میں جو ریاست قائم کی اس میں ہر فرد ایک آزاد شہری تھا اور بنیادی حقوق میں کسی حکمران اور عام شہری میں کوئی فرق نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سربراہ مملکت کی کھلے بندوں باز پرس کی جاتی تھی اور ایک امیر المومنین سے پوچھ لیا جاتا ہے کہ تمہارے لباس کا کیا معاملہ ہے۔ اس وقت اسلامی ریاست میں تمام برابر کے شہری تھے۔ اس کے بعد جب خلافت راشدہ ختم ہوئی اور بادشاہت اور ملوکیت کا دور شروع ہوا تو یہ تمام شہری بیک قلم رعایا قرار پائے اور رعایا کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ حکمرانوں سے باز پرس کرے۔ تب سے اب تک مسلمان ممالک میں چند قابل ذکر وقفوں کو چھوڑ کر مسلمانوں نے رعایا بن کر زندگی بسر کی ہے۔

ان کی آزاد شہریت مدتوں پہلے ختم کر دی گئی تھی ۔ دنیا کے غیر مسلم ممالک نے الٹا سفر شروع کیا ان کے ہاں پہلے عوام رعایا ہوتے تھے لیکن صدیوں کی جدو جہد کے بعد وہ شہری بن گئے۔ لیکن مسلمانوں نے بادشاہ پر سات خون معاف جیسی کہاوتیں وضع کر لیں اور سلطان عادل کا تصور ایجاد کیا۔ حالانکہ سلطانیت اور بادشاہت بذات خود اسلام کی خلاف ورزی ہے۔ چنانچہ ہم شہری نہیں رعایا ہی ٹھہرے اور رعایا بوجھ اٹھاتی ہے آہ نہیں کرتی۔ ہمیں ایک بار پھر آنے والے نا معلوم اچھے دنوں کی خبریں سنا کر قربانی کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ ایسے نامعلوم اچھے دن جن سے قوم ستر برسوں میں ابھی تک آشنا نہیں ہو سکی لیکن ہر بار یہ بھولی بھالی قوم چالاک اور شاطر حکمرانوں کی باتوں میں آکر ان کی جانب سے سہانے مستقبل کے خواب دکھا کر ان پر اعتبار کر بیٹھتی ہے۔ یہ قوم اس کے سوا کر بھی کیا سکتی ہے۔ اس لیے اوپر جو کچھ نافذ کیا جا رہا ہے جو بوجھ ڈالا جا رہا ہے اسے اٹھاؤ ورنہ فوت ہو جاؤ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.