عرض کیا ہے یا فرمایا ہے؟ – عطا ء الحق قاسمی
میں اپنی بات ایک دوست کی روایت سے شروع کرتا ہوں۔ اس نے بتایا کہ ایک مذہبی تقریب میں ان کی ڈیوٹی کسی بہت بڑے عالمِ دین کو مدعو کرنے پر لگائی گئی۔ ڈیوٹی لگانے والا اس کا باس تھا، جو ایک بہت بڑے ادارے کی قیادت کی صفِ اوّل میں شامل تھا۔ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے اس آفیسر نے جید عالم دین سے کہا کہ میرا ماتحت بتا رہا تھا کہ آپ بہت بڑے عالم دین ہیں، شیخ الحدیث ہیں، آپ کی بہت مہربانی آپ تشریف لائے اور ہماری عزت افزائی فرمائی۔ عالم دین نے انکسار سے کہا ’’نہیں جناب، میرے یہ نصیب کہاں، میں تو دین کا ایک معمولی سا طالبعلم ہوں‘‘۔ تقریب کے اختتام پر باس نے اپنے اس ماتحت کو بلایا، راوی بیان کرتا ہے کہ صاحب غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے۔ ماتحت ملازم جونہی باس کے کمرے میں داخل ہوا، انہوں نے چلاتے ہوئے کہا ’’تم کو جھوٹ بولتے ہوئے شرم نہ آئی، میں نے کہا تھا کہ اس عظیم الشان تقریب کی صدارت کے لئے بہت بڑے عالم دین کو بلائو، تم نے اس کی جگہ ایک طالبعلم کو صدارت کی کرسی پر بٹھا دیا‘‘۔ ماتحت نے عرض کی ’’سر، وہ طالبعلم نہیں بہت جید عالم دین ہیں، بطور عالم ان کی شہرت اور احترام صرف پاکستان نہیں، پورے عالم اسلام میں ہے‘‘۔ اس پر باس کے غصے کا پارہ مزید چڑھ گیا اور گرجتے ہوئے کہا کہ ’’ایک تو تم نے اتنی بڑی تقریب کی عزت خاک میں ملا دی، اوپر سے جھوٹ بولتے ہو، تمہیں شرم نہیں آتی‘‘۔ یہ سن کر ماتحت نے کہا ’’سر آپ سے کس نے کہا کہ وہ ایک معمولی طالبعلم ہیں‘‘۔ باس نے پہلے سے بھی زیادہ گرجدار آواز میں کہا ’’خود اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ معمولی طالبعلم ہے، جسے تم شیخ الحدیث اور اللہ جانے کیا کیا کہہ رہے تھے‘‘۔
تو خواتین و حضرات میں نے بھی اپنی گفتگو کا آغاز اسی جملے سے کرنا تھا کہ میں ادب کا ایک معمولی طالبعلم ہوں، مگر متذکرہ واقعہ سے عبرت پکڑتے ہوئے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں بہت بڑا رائٹر ہوں اور چار دانگ عالم میں میری مزاح نگاری کی شہرت ہے‘‘۔
اصل میں انکسار کا زمانہ ہی نہیں رہا، ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ کے بونے خود کو عالم چنا قرار دیتے ہیں اور لطیفہ یہ ہے کہ کچھ لوگ مان بھی لیتے ہیں، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے حصے کے بیوقوف پیدا کئے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اس خیال پر پکے ہو جاتے ہیں کہ وہ عالم چنا ہی ہیں۔ میرے دیرینہ دوست مرزا عبدالقیوم نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ ان کے بچپن میں ایک شخص خدائی کا دعویدار تھا، اس کی بدقسمتی کہ اسے اپنے حصے کا کوئی بے وقوف نہ ملا، چنانچہ اسے اس بات سے سخت الجھن ہوتی تھی کہ آخر لوگ اسے خدا کیوں نہیں مانتے، وہ اکثر دانت کچکچا کر کہتا ’’یہ قوم تباہ ہو جائے گی، اگر اس نے مجھے خدا تسلیم نہ کیا‘‘۔ خدائی کے اس دعویدار کے ساتھ مرزا عبدالقیوم کے والد محترم اسماعیل مرحوم کی بہت دوستی تھی، ایک دن اس ’’خدا‘‘ نے حقے کا کش لگاتے ہوئے بےحد دکھ بھرے لہجے میں کہا ’’یار اسماعیل تم تو میرے بچپن کے دوست ہو، تم بھی واقعی یہی سمجھتے ہو، کہ میں خدا نہیں ہوں؟‘‘
اپنی خودی کو خدا کے مرتبے تک پہنچانے والے ایک سردار جی بھی تھے اور ظاہر ہے کوئی بھی ان کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتا تھا، لوگوں نے اس کے رب ہونے کے دعوے کی صداقت کے لئے صرف ایک گواہ کا مطالبہ کیا تو سردار جی نے انہیں ساتھ لیا اور ایک مکان کے باہر جاکر کنڈی کھڑکائی۔ اندر سے ایک عورت نے دروازہ کھولا، اس نے سردار جی کو دیکھا تو ماتھے پر ہاتھ مار کر بولی ’’ہائے اوئے میریا ربّا،توں فیر آگیاں اے‘‘ سردار جی نے اپنے ساتھ لانے والوں کو کہا ’’اب تم سب گواہ رہنا، اس نے مجھے ’’رب ‘‘ کہا ہے۔
اس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ بات لمبی ہو گئی ہے، دراصل انسان خوش ہو تو چہچہاتا بہت ہے، مجھے خوشی ہے کہ میرے بہت پیارے دوست قمر ریاض نے، جسے میں بیٹوں کی طرح عزیز رکھتا ہوں، ایک مثال قائم کی ہے کہ کسی کی زندگی میں اس کے نام کا ایوارڈ جاری کیا جائے۔ دوسری خوشی اس بات کی ہے کہ اس دور کے دو لیجنڈ اسد محمد خان اور ظفر اقبال ایوارڈ کی وصولی کے لئے ہمارے درمیان موجود ہیں۔ اسد محمد خاں آج فکشن اور ظفر اقبال شاعری میں سب لکھنے والوں کے لئے استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ اردو ادب کو انہوں نے جتنا کچھ دیا ہے اس کی مثال آج کے عہد میں نہیں ملتی۔ لمحۂ موجود میں پاکستان ہی نہیں انڈیا میں بھی ان کے پائے کا لکھنے والا کوئی نہیں۔
ہمارے جاوید چوہدری پاکستان کے متمول ترین کالم نگار ہیں، بروز جمعہ اُن کے والد ماجد کا دسواں تھا، چنانچہ وہ تقریب میں شامل نہ ہو سکے تاہم انہوں نے میرے حوالے سے جو میسج ریکارڈ کرایا، وہ مجھے بدہضمی کرنے والا ہے، نوجوان شاعر رحمان فارس خود بھی خوبصورت ہے اور اس کی شاعری اس سے زیادہ خوبصورت، میں آپ سب اور اپنے ان مہمانوں کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔ اللہ آپ سب کو آئندہ ان کے علاوہ مجھے بھی بڑا ادیب ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔ باقی رہ گیا قمر ریاض میں اس کی محبتوں کو علیحدہ نمٹوں گا۔
اب آخر میں ایک پرانا لطیفہ سن لیں، ایک شخص نے چراغ رگڑا تو حسبِ معمول ایک آسمان سے باتیں کرتے ہوئے قد کا جن دھوئیں کے مرغولے سے برآمد ہوا اور روایتی خوفناک قہقہہ لگانے کے بعد کہا ’’میرے آقا کیا حکم ہے؟ مگر ایک بات یاد رکھیں، میں معمولی سا جن ہوں، کوئی بہت بڑی خواہش نہ بتائیں‘‘ اس شخص نے کہا ’’ٹھیک ہے تم یوں کرو کہ لاہور سے نیویارک تک ایک پل بنادو‘‘۔ جن نے عرض کی ’’میرے آقا میں نے عرض کیا تھا، میں گریڈ بائیس کا جن نہیں ہوں، پانچویں گریڈ کا جن ہوں، کوئی آسان فرمائش کریں‘‘۔ اس شخص نے کہا ’’ٹھیک ہے، تم یہ بتا دو کہ عورت ذات آخر چیز کیا ہے؟‘‘ جن نے ایک منٹ سوچا اور پھر کہا ’’میرے آقا پل یکطرفہ بنانا ہے یا دو طرفہ‘‘۔
میں بھی گریڈ پانچ کا جن ہوں، مجھے گریڈ بائیس کے جناتِ ادب کے ساتھ بیٹھا دیا گیا، اس پر ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ، تاہم واضح رہے شیخ الحدیث کی طرح میں بھی انکسار سے خاصا کام لیا کرتا ہوں لہٰذا میرے انکسار کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔
(عطاء الحق قاسمی ادب و صحافت ایوارڈ کی تقسیمِ اعزازات کی تقریب میں پڑھا گیا)
Source: Jung News
Read Urdu column Arz kiya hai ya farmaya hai By Ata ul Haq Qasmi