شاباش گروپ – جاوید چوہدری
پیرس کے اوپیرا ہاؤس میں مشرقی یورپ کے ایک نامور موسیقار نے پرفارمنس کے لیے آنا تھا‘ اوپیرا کے تمام ہالز اور گیلریز کے ٹکٹ بک چکے تھے اورتماشائی کوریڈورز اور سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر بھی موسیقار کی پرفارمنس دیکھنے کے لیے تیار تھے‘ شو کا ٹائم ہو گیا‘ پیرس کے شائقین اپنے شاندار لباس میں خوشبو لگا کر اوپیرا ہاؤس پہنچ گئے اور بے تابی سے موسیقار کی پرفارمنس کا انتظار کرنے لگے لیکن پھر انتظار کی گھڑیاں طویل ہونے لگیں‘ وقت گزرتا چلا گیا اوراوپیرا ہاؤس میں بیٹھے مرد وزن بے چینی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
اچانک پردہ اٹھا اور شو کا منتظم مائیک تھام کر اداس لہجے میں بولا’’خواتین وحضرات میں دلی دکھ کے ساتھ اعلان کرتا ہوں ہمارے محبوب موسیقار کو دل کا دورہ پڑ گیا‘ ہمارا اسٹاف اسے اسپتال لے گیا ہے‘ ہمیں افسوس ہے آپ اس کا فن دیکھنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں لیکن انسان قدرت کے کاموں میں دخل نہیں دے سکتا‘ بہرحال ہمارے پاس پیرس کا ایک نوجوان موسیقار موجود ہے۔
یہ موسیقار بھی اتنا ہی خوبصورت وائلن بجاتا ہے جتنااچھا وائلن سننے کے لیے آپ یہاں جمع ہوئے ہیں‘ آپ سے میری درخواست ہے آپ اس نوجوان کو پرفارم کرنے کا موقع دیجیے آپ مایوس نہیں ہوں گے‘‘ اس کے ساتھ ہی منتظم نے ایک غیر معروف نام لیا اور ایک تیس بتیس سال کا جوان شخص وائلن لے کر اسٹیج پر آ گیا‘ اس نے وائلن بجانا شروع کیا لیکن وہ تماشائیوں کو متاثر نہ کر سکا‘ لوگ بوریت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے یا آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔ وہ جوان موسیقار وائلن بجاتا رہا‘ بجاتا رہا جب تھک گیا تو داد کے لیے ہال میں موجود لوگوں کے سامنے بار بار جھکنے لگا لیکن ہال میں ایک خوفناک خاموشی تھی۔
موسیقار مکمل طور پر مایوس ہو گیا‘ وہ واپس جانے کے لیے مڑا لیکن پھر اچانک مہمانوں کی گیلری سے ایک بچہ اٹھا‘ وہ سیٹ پر کھڑا ہوا اور پوری رفتار سے تالیاں پیٹ پیٹ کر نعرے لگانے لگا ’’یو آر ونڈر فل‘ یو آر ونڈر فل‘ میں نے آج تک اتنا اچھا وائلن نہیں سنا‘ ویل ڈن پیٹر‘ ویل ڈن پیٹر‘‘ موسیقار کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی ‘ اس نے ہونٹوں پر انگلیاں رکھ کربچے کو ہوائی بوسا دیا اور لوگوں کے سامنے جھک گیا۔
ہال میں موجود خواتین وحضرات نے مہمانوں کی گیلری میں کھڑے بچے کی طرف دیکھا‘ اسے دیوانہ وار تالیاں پیٹتے پایا توانھیں محسوس ہوا موسیقار کی پرفارمنس اتنی بری نہیں تھی چنانچہ ہال میں موجود تمام لوگ اپنی اپنی سیٹوں سے اٹھے اوردیوانہ وار تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ یہ سب لوگ ’’ویل ڈن پیٹر‘‘ کہہ رہے تھے ۔ وہ جوان موسیقار ساری رات وائلن بجاتا رہا اور تماشائی اس کے اعزاز میں تالیاں پیٹتے رہے یہاں تک کہ رات کے پچھلے پہر وہ جوان پیرس کا مقبول ترین وائلن نواز بن چکا تھا‘ اس کا نیا کیریئر شروع ہو چکاتھا اور اس کا یہ کیریئر آٹھ سال کے ایک بچے کی تالیوں کا مرہون منت تھا۔
ہم سب انسان ہیں اور انسان کے لیے داد‘ تالیاں‘ ویل ڈن‘ شاباش‘ بہت خوب اور آپ نے کمال کر دیا جیسے لفظ آکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں‘ ہم زندگی میں جو کچھ کرتے ہیں‘ ہم روزانہ جس مشقت سے گزرتے ہیں اور ہم صبح سے شام تک پیشے‘ فن اور کام کی جو صلیب کندھے پر اٹھا کر پھرتے رہتے ہیں اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے ویل ڈن ‘ واہ جی واہ‘ شاباش اور کیا بات ہے۔ بس۔
ہماری ساری زندگی‘ ہماری ساری مشقت ان چند لفظوں سے بندھی ہوتی ہے‘انسان اور جانوروں میں صرف تخلیق کا فرق ہوتا ہے‘ انسان نے اپنی ہر محرومی کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے شکست دے دی جب کہ جانور ایسا نہیں کر سکے مثلاً اللہ تعالیٰ نے انسان کو رات دی‘ انسان نے مشعل‘ چراغ‘ موم بتی اور برقی قمقمے کے ذریعے اس رات کو دن میں بدل دیا‘ قدرت نے انسان کو کھلے آسمان کے نیچے ننگی زمین پر پیدا کیا‘ اسے پسینے کی بو دی‘ اسے ننگے بدن اور ننگے پاؤں زمین پر بھجوایا۔
اسے کمزور ٹانگیں اوربغیر پنجوں کے پیدا کیا‘ اس کی جلد کو نرم رکھا اور اس کے جسم کو پروں‘ سر کو سینگ اور منہ کو تیز نوکیلے دانتوں سے محروم رکھا لیکن انسان نے اپنی ان تمام محرومیوں کو خوفناک ہتھیار‘ تیز رفتار گاڑیوں‘ بلٹ پروف جیکٹس‘ مضبوط جوتوں‘ دیدہ زیب کپڑوں‘ خوشبودار صابن‘ شیمپو اور پرفیومز‘زلزلہ پروف گھروں‘ ہوائی جہازوں اور چھتریوں کی ایجاد سے دور کر لیا جب کہ انسان کے مقابلے میں دنیا کا کوئی جانور آج تک کوئی مکان بنا سکا‘ کوئی جہاز بنا سکا‘ پیزا ایجاد کر سکا‘ شیمپو ایجاد کر سکا اور نہ ہی یہ ٹوتھ پیسٹ کرنا سیکھ سکا۔
دنیا کے پہلے انسان اور آج کے اکیسویں صدی کے انسان کے لائف اسٹائل میں سات آسمان کا فرق ہے جب کہ دنیا کی پہلی بھیڑ اور آج کی اکیسویں صدی کی بھیڑ‘ حضرت آدم ؑ کے زمانے کی بھینس اور آج کی سپرسانک اور لیزر ایج کی بھینس کے لائف اسٹائل میں کوئی فرق نہیں‘ بھینس کل بھی بھولی تھی اور یہ آج کے پیزا دور میں بھی چارہ ہی کھا رہی ہے! یہ ہے فرق انسان اور جانور میں لیکن یہ فرق پیدا کیسے ہوا؟ یہ فرق تالیوں‘ شاباش اورواہ جی واہ کا مرہون منت ہے۔ انسان میں دوسروں کو متاثر کرنے کی خوفناک خواہش موجود ہے‘ یہ اپنی شہرت کو ’’ٹائم لیس‘‘ بنانا چاہتا ہے‘ اس کی خواہش ہوتی ہے صدیوں بعد بھی جب اس کا نام لیا جائے تو لوگ سیٹوں سے اٹھ کرتالیاں بجائیں۔
ہم جب اس آٹھ سال کے بچے کی طرح اپنی سیٹ پر کھڑے ہو کر کسی کے لیے تالیاں بجاتے ہیں یا ویل ڈن بش یا شاباش بشیر کہتے ہیں تو اس کے حوصلے کو ایک سیکنڈ میں اٹھارہواں گیئر لگ جاتاہے‘ اس کے اندر موجود آئن اسٹائن محرومی کے چھلکے پر ٹھونگیں مارنے لگتا ہے اور اس کے اندر کابل گیٹس بطن کی دیواریں چھیلنے لگتا ہے۔ آپ دنیا کے نامور لوگوں کی ہسٹری دیکھ لیں آپ کو ہر شخص کی زندگی میں آٹھ سال کے بچے جیسا کوئی نہ کوئی مداح ملے گا جس نے سیٹ سے اٹھ کر اس کے لیے ویل ڈن کا نعرہ لگایاہو گا اور اس ایک نعرے نے اس کی ساری تلخیوں‘ اس کی ساری محرومیوں کے سارے داغ دھبے دھو دیے ہوں گے۔
انسان کو کام یابی کے لیے دوسرے انسانوں کی ہمت اور مدد درکار ہوتی ہے اور جس معاشرے میں لوگ دوسروں کی ہمت افزائی کو اپنے لائف اسٹائل کا حصہ بنا لیتے ہیں‘ جس میں لوگ دوسروں کی سپورٹ کو روٹین کی شکل دے دیتے ہیں‘ اس میں کام یاب لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور جس معاشرے میں لوگ دوسروں کی حوصلہ افزائی نہیںکرتے وہ معاشرے غار کی زندگی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ میں انسان کی اس فطرت کو سامنے رکھ کر جب اپنے معاشرے کو دیکھتا ہوں تو مجھے افسوس ہوتا ہے ‘ ہم لوگ دوسروں کے لیے تالی بجانے کے معاملے میں کتنے کنجوس واقع ہوئے ہیں؟
ہم مر جائیں گے لیکن ہمارے منہ سے دوسروں کے لیے ویل ڈن یا شاباش کا لفظ نہیں نکلے گا اور ہماری اس کنجوسی نے ہمارے معاشرے کو مصیبتوں کا گھر بنا دیا ہے۔ہم سب لوگ ٹینشن میں زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم لوگ شاباش کے بجائے شکوہ کے ماہر ہو گئے ہیں‘ آپ آج سے جائزہ لے لیں آپ کو محسوس ہوگا ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کی گفتگو شکوے سے اسٹارٹ ہوتی ہے اور شکوے پر ختم ہوتی ہے‘ ہم کسی دوست سے ملتے ہیں تو ہمارا پہلا فقرہ ہوتا ہے ’’یار اب تم تو مجھے ملتے ہی نہیں ہو‘ اوئے تم کہاں غائب رہے‘ بھائی جان میں نے آپ کو پندرہ فون کیے لیکن آپ نے اٹھایا ہی نہیں وغیرہ وغیرہ‘‘ دوسرا ہم لوگ دوسروں کی خوشیوں پر ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے ہمیںمعلوم ہی نہیں تھا اور ان دونوں رجحانات نے ہمارے معاشرے کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے ۔
میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک شاباش گروپ بنایا ہے‘ ہم لوگوں نے فیصلہ کیا ہے ہم زندگی سے شکوے کم کر دیںگے‘ ہم اپنی گفتگو کا آغاز کبھی شکوے سے نہیں کریں گے اور ہمیں جہاں کوئی شخص کوشش کرتا دکھائی دے گا ہم آٹھ سال کے بچے کی طرح اس کے لیے تالی بجائیں گے‘ اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ ہمارا یہ گروپ کام یاب جا رہا ہے‘ ہم اپنے سرکل میں صحت مندانہ تبدیلی بھی دیکھ رہے ہیں۔ میری خواہش ہے آج سے آپ بھی ہمارے اس گروپ کے ممبر بن جائیں‘ آج سے آپ بھی شکوہ کرنا بند کر دیں اور دوسروں کی خوبیوں اور کامیابیوں پر آٹھ سال کے اس فرنچ بچے کی طرح تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ یقین کیجیے آپ اور معاشرے کی تلخیاں کم ہو جائیں گی‘ ہم بھی انسانی معاشرہ بن جائیں گے۔
Must Read urdu column Shabash Group By Javed Chaudhry