ہاں یہ سازش ہے – جاوید چوہدری
’’تم اب کیا کہتے ہو؟‘‘ وہ غور سے میری طرف دیکھ رہا تھا‘ میں نے سر ہلا کر کہا ’’میرا دل نہیں مانتا لیکن میں اس کے باوجود تمہارے خیالات سے اتفاق پر مجبور ہو رہا ہوں‘‘ وہ ہنسا اور کپ پرچ میں رکھ کر بولا ’’تم دو ماہ انتظار کرو‘ تمہارا دل بھی مان جائے گا‘‘ میں نے کچھ سوچا‘ کہنے کے لیے منہ کھولا لیکن پھر خاموش ہو گیا۔
ہم دونوں کے درمیان دو سال سے بحث چل رہی تھی‘ وہ کہتا تھا ہمارے ملک کے خلاف ایک خوف ناک سازش ہو رہی ہے‘ ہمیں تین چار ملک مل کر پھنسا رہے ہیں‘ بھارت ان میں سب سے آگے ہے‘ یہ افغانستان میں بیٹھ گیا اور اس نے وہاں سے بلوچستان میں بھی گڑ بڑ شروع کر دی اور یہ طالبان کے ساتھ مل کر کے پی کے‘ پنجاب اورسندھ میں بھی تباہی پھیلانے لگا‘ ملک میں بم دھماکے ہوئے‘انٹرنیشنل میڈیا کے مالکان یہودی ہیں اور اسٹاف بھارتی چناں چہ یہ دھماکے پوری دنیا کے میڈیا میں بڑھا چڑھا کر دکھائے گئے۔
دنیا کے ذہن میں پاکستان کا منفی امیج پیدا ہو گیا‘ سرمایہ کار‘ سیاح اور خریدار پاکستان سے بھاگ گئے‘ سفارت خانوں میں بھی عملہ کم ہو گیا‘ پھر افغانستان میں امریکی فوجیوں اور افغان تنصیبات پر حملے کیے گئے اور الزام پاکستان پر لگا دیا گیا‘ امریکا اور پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں‘ پھر مقبوضہ کشمیر اور ہندوستان میں دہشتگردی کی وارداتیں ہوئیں اور بھارتی سرکار نے ’’یہ پاکستان سے ہو رہا ہے‘‘ اور ’’یہ لوگ ذمے دار ہیں‘‘ کا واویلا کر کے دنیا کی ہمدردیاں سمیٹ لیں‘ پاکستان کے لیے حالات مشکل ہو گئے‘ ہم نے پالیسی تبدیل کی اور دور کے بھائی کے بجائے ہمسائے کے چچا کو راضی کرنا شروع کر دیا‘ آصف علی زرداری نے روس کو ساتھ ملایا اور نواز شریف سی پیک کے ذریعے چین کو پاکستان لے آئے‘ ہمیں دو بڑی لائف لائنز مل گئیں لیکن پھر ملک کے اندر سے بار بار ایسی حرکتیں کی گئیں۔
جن کے نتیجے میں روس اور چین دونوں کا دل ٹوٹ گیا‘ سی پیک پر بھی کام بند ہو چکا ہے‘ اورنج لائن ٹرین منصوبے سمیت چین کے تمام پراجیکٹس بھی رک چکے ہیں‘ دس برسوں میں تھوڑی بہت غیر ملکی سرمایہ کاری ہو رہی تھی وہ بھی بند ہو گئی‘ ملک اٹھا کر ناتجربہ کاروں کے حوالے کر دیا گیا اور ناتجربہ کاروں نے ملک کی ہر چیز منجمد کر دی‘ ملک کے اندر تین معاشی سیکٹر چل رہے تھے‘ رئیل اسٹیٹ‘ موبائل فون اور پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز‘ یہ تینوں مل کر جیسے تیسے معیشت کا پہیا چلا رہے تھے لیکن پھر یہ بھی ’’سلو ڈاؤن‘‘ کرا دیے گئے‘ فیکٹریوں کو سسکنے پر مجبور کر دیا گیا‘ اسٹاک ایکسچینج کا جنازہ نکال دیا گیا اور تجارت اور کاروبار کو تالے لگا دیے گئے‘ ٹیکس اور شفافیت کا نام لے کر ہر چلتی چیز بند کر دی گئی‘ صرف جنگ کی کسر بچی تھی۔
یہ کسر بھی اب پوری ہوتی نظر آ رہی ہے اور یہ سب سازش کا حصہ ہے‘ عالمی طاقتیں ملک کو گھسیٹ کر 1971ء کی پوزیشن پر لے آئی ہیں‘ ہم اگر تاریخ پڑھیں تو امریکی صدر رچرڈ نکسن1971ء میں جنرل یحییٰ خان کو ساتویں بحری بیڑے کا لارا دیتے رہے تھے‘ ہم انکل سام کی راہ دیکھتے رہ گئے اور ملک ٹوٹ گیا‘ ہمیں اب ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کا لولی پاپ دے کر جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا‘ وہ ماضی میں بار بار کہتا تھا ’’ہم سازش کا شکار ہو رہے ہیں‘‘ لیکن میں نہیں مانتا تھا‘نئی حکومت آئی‘حکومت کے ہر قدم کے بعد میری عقل سمجھاتی رہی یہ بازی ٹھیک نہیں بیٹھ رہی مگر دل کہتا تھا یہ لوگ نیک نیت ہیں‘ یہ ملک کو تباہ نہیں ہونے دیں گے لیکن حکومت کے ایک سال بعد ہم جہاں پہنچ چکے ہیں یہ حالات نارمل نہیں ہیں‘ ہم تیس سال پیچھے جا چکے ہیں‘ ہم کھجور میں اٹکے ہوئے ہیں بس شاخیں ہلنے کی دیر ہے اور ہم دھڑام سے نیچے ہوں گے۔
یہ کل پھر آ گیا اور مجھ سے پوچھا ’’تم اب کیا کہتے ہو‘‘ میں نے جواب دیا ’’میرا دل اب بھی نہیں مان رہا‘‘ وہ دیر تک ہنستا رہا‘ مجھے پہلی مرتبہ محسوس ہوا یہ بات غلط نہیں کر رہا‘ ہمیں آئی ایم ایف نے صرف چھ بلین ڈالر کے لیے جس طرح ذلیل کیا‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتیں جس طرح بڑھائی گئیں‘ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جس طرح اجنبیت کی دیواریں کھڑی کر دی گئیں‘ احتساب کے نام پر جو کیا گیا‘ ڈالر کے ساتھ جو ہوا اور جس طرح ملک کو ایف اے ٹی ایف نے گرے لسٹ میں ڈال دیا اور ہمیں بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے جو شرائط دی گئیں یہ تمام چیزیں نارمل نہیں ہیں‘ آپ صرف ایف اے ٹی ایف کو لے لیجیے‘ ملک میں باہر سے جتنی رقوم آ رہی تھیں‘ یہ اب بین الاقوامی اداروں کی نظر میں ہیں۔
ہمیں جس دن کسی ملک سے غلطی سے بھی غلط رقم آ گئی ہم پھنس جائیں گے‘ نریندر مودی نے جان بوجھ کر مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا اور آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کر دیا‘ مقبوضہ کشمیر میں حالات خراب سے خراب تر کیے جا رہے ہیں‘ یہ سیدھا سادا پھندا ہے‘ ہم اگر کشمیر کی صورت حال پر خاموش رہتے ہیں تو 70 سال سے قربانیاں دینے والے کشمیری ہم سے ناراض ہو جائیں گے اور ہم اگر اپنے کشمیری بھائیوں کی عملی مدد کرتے ہیں‘ اگر آزاد کشمیر کے شہری اسلحہ لے کر مقبوضہ کشمیر پہنچ جاتے ہیں یا پھر بھارت میں دہشتگردی کی کوئی بھی واردات ہو جاتی ہے تو ہمیں ایف اے ٹی ایف بلیک لسٹ میں ڈال دے گی اور بلیک لسٹ کا سیدھا سادا مطلب ہو گا ڈالر پندرہ سو روپے کے برابر ہو جائے‘ پٹرول سمیت تمام درآمدات بند ہو جائیں‘ فلائٹ رک جائیں‘ سودے منسوخ ہو جائیں اوراوورسیز پاکستانیز بھی اپنی رقم ملک میں نہ بھجوا سکیں۔
ہم بری طرح دیوالیہ ہو جائیں‘ نریندر مودی ہم سے یہ غلطی بھی کرانا چاہتا ہے اور یہ ہمیں سلامتی کونسل میں بھی پھنسانا چاہتا ہے‘آپ سلامتی کونسل کی ہیت دیکھ لیں ‘سلامتی کونسل کے پانچ ممبر مستقل ہیں اور 10 عارضی‘ مستقل ملکوں میں امریکا‘ برطانیہ‘ روس‘ چین اور فرانس شامل ہیں جب کہ دس غیر مستقل ملکوں میں بیلجیم‘ کوٹے ڈی آئیوری (آئیوری کوسٹ)‘ ڈومینکن ری پبلک‘ ایکوا ٹوریل گنی‘ جرمنی‘ انڈونیشیا‘ کویت‘ پیرو‘ پولینڈ اور ساؤتھ افریقہ ہیں‘ ان پندرہ ملکوں میں صرف دو مسلمان ہیں‘ کویت اور انڈونیشیا‘باقی تمام ممالک چھوٹے بھی ہیں اور امریکا اور فرانس کے زیر اثر بھی‘ سلامتی کونسل کے 16 اگست کے بند کمرے کے اجلاس میں انڈونیشیا اور کویت دونوں نے ہماری مدد نہیں کی‘ کویت کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات بھی اچھے نہیں ہیں۔
کویت نے 2011ء سے پاکستانیوں کے ویزے بند کر رکھے ہیں جب کہ یہ 15 ملک بھارت کے ساتھ تجارتی اور دفاعی تعلقات میں بندھے ہوئے ہیں‘ بھارت اور امریکا کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 142بلین ڈالر‘ روس کے ساتھ ساڑھے آٹھ بلین ڈالر‘ چین کے ساتھ100 بلین ڈالر‘ برطانیہ کے ساتھ25 بلین ڈالر اور فرانس کے ساتھ 12ارب ڈالر ہے‘ یہ فرانس سے 60 بلین ڈالر کے رافیل طیارے بھی خرید رہا ہے‘ بھارت نے سلامتی کونسل کے غیر مستقل ملکوں کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔
ہم نے بے شک 16 اگست کو سلامتی کونسل میں پہلا مرحلہ عبور کر لیا‘ سلامتی کونسل نے کشمیر کو بھارت کا اندرونی مسئلہ ماننے سے انکار کر دیا‘ چین اور روس نے کھل کر ہمارا ساتھ دیا اور ہم نے پہلی دہلیز پار کر لی لیکن اس سے آگے کا سفر آسان نہیں کیوں کہ ہمارے سامنے اب دو سوال منہ کھول کر کھڑے ہیں‘ کیا ہم سلامتی کونسل میں اپنی قرار داد منظور کرا سکیں گے اور کیا اقوام متحدہ کشمیر کا مسئلہ حل کرا سکے گی؟ یہ دونوں کام آسان نہیں ہیں‘ کوئی معجزہ ہی ہو گا جس کے ذریعے ہم ریچھ کے کھچار سے شہد نکال لائیں چناں چہ مجھے خطرہ ہے ہم سلامتی کونسل کی دلدل میں دھنس کر رہ جائیں گے‘ دنیا کے پانچ بڑے ریچھ ہماری قرارداد کو قبول کر کے ہمیں خوش کر دیں گے اور یہ قرارداد کسی ریک میں رکھ کر بھارت کو بھی بغلیں بجانے کا موقع دے دیا جائے گا اور بس۔
وہ اب بھی کہہ رہا تھا ’’یہ حالات نارمل نہیں ہیں‘ ہمیں افغانستان میں بھی پھنسا دیا گیا‘ ہمیں بلوچستان میں بھی الجھا دیا گیا‘ ہماری بھارتی سرحد کو بھی گرم کر دیا گیا‘ ہمارے فاٹا میں بھی سیاسی بارودی سرنگیں بچھا دی گئیں‘ مقبوضہ کشمیر کا تنور بھی دہکا دیا گیا‘ ہماری معیشت کا بیڑہ بھی غرق کر دیا گیا‘ ہمارے لیے مہنگائی‘ بیروزگاری اور گورننس کے مسائل بھی پیدا کر دیے گئے‘ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بھی جنگ چھیڑ دی گئی‘ الیکشن اور حکومت کو بھی متنازع بنا دیا گیا‘ ہمیں آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے دروازے پر بھی جھکا دیا گیا اور آخر میں ہمیں اب جنگ کی طرف بھی دھکیلا جارہا ہے۔
یہ تمام حالات منہ سے بول رہے ہیں ہم ٹریپ ہو گئے ہیں‘ ہم کسی عالمی سازش کا رزق بھی بن رہے ہیں اور ہم ان جانے میں اس سازش کا اہم مہرہ بھی ہو چکے ہیں‘‘ وہ رکا اور بولا ’’مجھے خطرہ ہے آج نہیں تو کل عوام بے شمار سوال اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے‘ یہ پوچھیں گے ہم اگر اتنے ذہین تھے تو ہم نے وقت سے پہلے طوفان کا اندازہ کیوں نہیں کیا اور اپوزیشن اگر کرپٹ تھی تو ہم نے ان کرپٹ لوگوں سے کتنا مال مسروقہ برآمد کیا‘ وہ اربوں روپے کہاں ہیں جو یہ لوگ لوٹ کر کھا گئے تھے؟ یہ سوال آج اتنے خطرناک نظر نہیں آ رہے جتنے یہ کل خطرناک ہوں گے۔
ہم اگر کل تک زندہ رہے تو‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ مجھے پہلی بار اس کی بات میں مکمل وزن محسوس ہوا‘ ہم واقعی سازش کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ کوئی چھوٹی سازش نہیں‘ یہ پورے خطے کا جغرافیہ بدلنے کی سازش ہے اور ہمارے لوگ اس سازش کا حصہ ہیں‘ اس کا کہنا تھا ’’آپ بڑے سائز کا کاغذ لو‘ اس پر ملک کا نقشہ بناؤ‘ اندرونی اور بیرونی حالات کو توپوں کی شکل دو اور یہ توپیں مختلف جگہوں پر لگا دو‘ تمہیں ہر چیز سمجھ آ جائے گی‘ تمہیں اس سیناریو میں صرف دو چیزوں کی کمی نظر آئے گی‘ بیرونی جارحیت یا اندرونی خانہ جنگی اور بس‘ اﷲ کرم کرے‘ ہم اگر اندر سے لڑ پڑے یا پھر باہر سے جنگ آ گئی‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں بھی چپ ہو گیا‘ ہم دونوں منہ سے بری بات نہیں نکالنا چاہتے تھے۔
Must Read urdu column Haan yeh saazish hai By Javed Chaudhry