بہت سادہ سے سوالات ہیں۔ ان پر سنجیدگی سے غور کریں۔ شاید آپ کے اندر سے کوئی آواز آئے اور آپ کو ان سوالات کا جواب مل جائے اور پھر آپ یہ بھی جان جائیں گے کہ آپ تاریخ کی رائٹ سائیڈ پر کھڑے ہیں یا رانگ سائیڈ پر۔
سادہ ترین سوال یہ ہے کہ اگر سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے خلاف آئین کی دفعہ چھ کی خلاف ورزی کے الزام میں قائم مقدمے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو پاکستان کو فائدہ ہو گا یا نقصان؟ کچھ دن پہلے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس نے بڑے فخر سے پوری قوم کو بتایا تھا کہ آئین توڑنے والے ڈکٹیٹر کے خلاف مقدمے کا فیصلہ آنے والا ہے۔
پھر عمران خان کی حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کر دی اور مشرف کا ٹرائل کرنے والی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا گیا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ وزارتِ داخلہ مشرف کے خلاف مقدمے میں مدعی ہے اور وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ مشرف پر غداری کا الزام غلط ہے بلکہ اُنہوں نے تو پاکستان کے لئے بڑی خدمات سر انجام دی ہیں۔
بہرحال مشرف کا ٹرائل کرنے والی عدالت نے سابق ڈکٹیٹر کو 5دسمبر تک اپنا بیان ریکارڈ کرانے کی مہلت دے دی جس کے بعد مشرف صاحب دبئی کے ایک اسپتال میں داخل ہو گئے۔
ذرا اپنے آپ سے پوچھئے کہ اگر آئین توڑنے والے ڈکٹیٹر کا ٹرائل التوا کا شکار ہوتا ہے تو اس ملک کی عدالتوں اور وہاں بیٹھے ججوں کی عزت و توقیر بڑھے گی یا کم ہو گی؟ آئین کی بالادستی کا تصور کمزور ہوگا یا مضبوط؟ کیا یہ تاثر مضبوط نہیں ہوگا کہ کچھ افراد قانون سے بالاتر ہیں؟ کچھ لوگ اس بات پر معترض ہیں کہ مشرف پر غداری کا الزام کیوں لگایا جا رہا ہے حالانکہ وہ فوج کے سربراہ تھے، فوج اور اس کے سربراہ کو اس معاملے میں کیوں گھسیٹا جا رہا ہے؟ کیا مشرف نے آئین نہیں توڑا اور کیا آئین کی دفعہ چھ کی خلاف ورزی کو غداری قرار نہیں دیا گیا؟ اگر آپ دفعہ چھ کی تعریف کو نہیں مانتے تو یہ آئین سے انکار ہے۔
حقیقت میں مشرف ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں لیکن کچھ لوگ اُنہیں فوج کے پیچھے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مشرف کو ٹرائل سے بچانے کی کوشش اُنہیں مزید مشکوک بنا رہی ہے۔ پاکستان کی کوئی عدالت موصوف کا ٹرائل مکمل کر پاتی ہے یا نہیں لیکن وہ تاریخ کی عدالت کے فیصلے سے کبھی نہیں بچ پائیں گے۔
پاکستان کی تاریخ میں جو ’’غلطیاں‘‘ مشرف صاحب نے کیں وہ اگر کسی سیاستدان سے سرزد ہو جاتیں تو وہ اب تک پھانسی پر لٹک چکا ہوتا۔ مجھے کسی کو پھانسی پر لٹکتا دیکھنے کا کوئی شوق نہیں۔ زندگی اور موت کے ساتھ ساتھ عزت اور ذلت بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
آپ کسی کو ٹرائل سے بچا سکتے ہیں لیکن ذلت سے نہیں۔ آج میں یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ یہ ناچیز بھی کشمیر کے نام پر مشرف کے ہاتھوں بیوقوف بن گیا تھا۔
جنوری 1999ء میں پرویز مشرف نے مجھ سمیت چند دیگر صحافیوں کو افطار پر بلایا۔ وہاں لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان اور اس وقت کے ڈی جی ایم آئی احسان الحق بھی موجود تھے۔
مشرف نے ہمیں کہا کہ وہ صرف تین دن میں کشمیر آزاد کرا سکتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے ایک ممکنہ منصوبے کے بارے میں ہمیں جو کچھ بتایا وہ چند ماہ کے بعد کارگل آپریشن کی صورت میں سامنے آ گیا اور میں دیوانہ وار کارگل آپریشن کی حمایت کرتا رہا کیونکہ مجھے کشمیر کی آزادی کا خواب دکھایا گیا تھا لیکن اس آپریشن کا نتیجہ پاکستان میں ایک سیاسی بحران کی صورت میں نکلا۔
مشرف نے نواز شریف کو ہٹا کر خود اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ کچھ عرصہ کے بعد جولائی 2001ء میں آگرہ میں واجپائی کے ساتھ مشرف کے مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات کی کوریج کے لئے میں بھی بھارت گیا اور میں نے دہلی میں کشمیری رہنما سیّد علی گیلانی سے ملاقات کی۔ گیلانی صاحب کی مشرف سے ملاقات ہو چکی تھی۔
اُنہوں نے مشرف کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کیا اور مجھے کہا، اس شخص پر اعتبار نہ کرنا۔ حریت کانفرنس کے ایک اور رہنما پروفیسر عبدالغنی بھٹ نے مشرف کی بھرپور حمایت کی۔
پھر نائن الیون ہو گیا۔ مشرف نے افغانستان کے ساتھ ساتھ کشمیر پر بھی یو ٹرن لے لیا اور کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف کی پالیسی بنا لی۔ 2004ء میں منموہن سنگھ بھارت کے وزیراعظم بنے تو مشرف نے بھارت کے ساتھ بیک ڈور چینل سے مذاکرات شروع کئے اور نئے نئے فارمولے پیش کرنا شروع کر دیے جو کشمیر پر سرنڈر کے سوا کچھ نہ تھے۔ سید علی گیلانی نے یہ فارمولے مسترد کر دیے۔
اس وقت خورشید قصوری وزیر خارجہ تھے۔ اُنہوں نے بھی اپنی کتاب Neither a Hawk Nor a Doveمیں لکھا ہے کہ وہ دہلی میں سیّد علی گیلانی کو ملے تو اُنہوں نے مشرف حکومت پر بہت تنقید کی۔ 2005ء میں مشرف بھارت کے دورے پر گئے تو دہلی میں حریت کانفرنس کے وفد سے ملاقات کے دوران اُنہوں نے سیّد علی گیلانی سے بدتمیزی کی جس کے بعد مشرف بھارتی میڈیا کی ڈارلنگ بن گئے۔
مشرف کے ایک ساتھی لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ میں لکھا ہے کہ مشرف ہندوستان سے مذاکرات کی آڑ میں کشمیر کو خیرباد کہنا چاہتے تھے۔ اسی کتاب میں انہوں نے یہ تفصیل بھی لکھی کہ مشرف نے اپنے کور کمانڈروں کو دھوکے میں رکھ کر پاکستان کے فوجی اڈے امریکہ کے حوالے کر دیے۔
مشرف اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے تھے لیکن شاہد عزیز اور دیگر کور کمانڈر نہیں مانے۔ مشرف اور علی گیلانی میں سرد جنگ اتنی بڑھی کہ گیلانی صاحب نے مشرف کو غدارِ کشمیر قرار دے دیا اور مشرف نے اُنہیں پاگل بڈھا کہنا شروع کر دیا۔ مشرف کو ایک طرف سیّد علی گیلانی سے نفرت تھی تو دوسری طرف اکبر بگٹی سے بھی نفرت تھی۔
بگٹی صاحب نے کبھی پاکستان کے خلاف اعلانِ بغاوت نہیں کیا تھا لیکن اُنہیں بلوچستان کے پہاڑوں میں شہید کر دیا گیا اور اس کے بعد سے آج تک بلوچستان کے حالات معمول پر نہیں آئے۔ پاکستان کی سیاست میں این آر او بھی مشرف نے متعارف کرایا۔
پہلے نواز شریف پھر بینظیر بھٹو کے ساتھ این آر او کیا گیا۔ اس این آر او کی آڑ میں 2007ء میں آئین معطل کیا گیا تو بینظیر بھٹو نے مشرف کے ساتھ ڈائیلاگ ختم کر دیا جس کے بعد اُنہیں قتل کرا دیا گیا۔ 2007ء میں مشرف نے ایک نہیں درجنوں ججوں کو نظربند کیا۔
12؍مئی 2007ء کو کراچی میں ہونے والے قتل عام کا ذمہ دار بھی یہی شخص تھا، حیات اللہ خان سمیت کئی صحافیوں کے اغوا اور قتل کے واقعات بھی مشرف دور میں شروع ہوئے، عمران خان سمیت کئی سیاستدانوں نے لاپتا افراد کے لئے آواز اٹھانا شروع کی تو مشرف اس ملک کا حکمران تھا لیکن آج وزیراعظم عمران خان کا ایک وزیر شیخ رشید احمد کہتا ہے کہ مشرف مجرم نہیں، ہمارا ہیرو ہے۔ مشرف کو شیخ رشید احمد اپنا ہیرو بنا سکتا ہے لیکن سیّد علی گیلانی کی نظروں میں وہ کشمیریوں کا مجرم ہے۔
کشمیریوں کا مجرم پاکستان کا مجرم ہے جس پر اکبر بگٹی اور بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش کا الزام بھی ہے۔ پاکستان کی کوئی عدالت آج مشرف کے بارے میں فیصلہ دے یا نہ دے لیکن سیّد علی گیلانی اپنا فیصلہ دے چکے ہیں۔
یاد رکھئے گا! آج نہیں تو کل، پاکستان کی کوئی نہ کوئی عدالت مشرف اور اس کو بچانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف فیصلہ ضرور سنائے گی کیونکہ اس دنیا میں دیر ہے، اندھیر نہیں۔
Source: Jung News
Read Urdu column Dair to hai andher nahin By Hamid Mir