کوہ طور سے اترتے ہوئے – جاوید چوہدری
کوہ طور مقدس پہاڑ ہے‘ یہ اگر مقدس نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اس کی قسم نہ کھاتا‘ حضرت موسیٰ ؑ کو دنیا سے پردہ فرمائے تین ہزار دو سو سال ہو چکے ہیں‘ یہ پہاڑ اس وقت سے مقدس چلا آ رہا ہے‘ زائرین تین ہزارسال تک کوہ طور پر ننگے پاؤں آتے رہے‘ سفر انتہائی مشکل اور دشوارہوتا تھا‘ پتھر بھی نوکیلے تھے چنانچہ 99فیصد زائرین کے پاؤں زخمی ہو جاتے تھے‘ لوگ پہاڑ سے گر کر مر بھی جاتے تھے یوں ہر سال سیکڑوں لوگوں کی جان چلی جاتی تھی‘ سو سال قبل عیسائی‘ یہودی اور مسلمان علماء اکٹھے ہوئے اور زائرین کو جوتوں سمیت پہاڑ پر چڑھنے کی اجازت دے دی یوں یہ سفرنسبتاً آسان ہو گیا‘ دوسرا کمال سینٹ کیتھرائن کے کسی نامعلوم درویش نے کیا۔
اس نے اکیلے پہاڑ تراشا اور زائرین کے لیے سیڑھیاں بنا دیں‘ اس ایک شخص نے 25 سال دن رات محنت کر کے 3750 سیڑھیاں بنائیں‘ میں اللہ کے کرم سے قطب شمالی اور قطب جنوبی جا چکا ہوں اور میں تبت کے ان علاقوں تک بھی پہنچا ہوں جہاں آکسیجن اتنی کم ہوتی ہے کہ ناک اور منہ سے خون آنا شروع ہو جاتا ہے لیکن آپ یقین کیجیے کوہ طور کی چوٹی پر پہنچنا ان تمام مقامات سے زیادہ مشکل تھا‘ مجھے درمیان میں محسوس ہوا میں یہاں سے واپس نہیں جا سکوں گا لیکن اللہ تعالیٰ کے کرم سے میں تین بار اس چوٹی پر پہنچا اور مجھے مقام موسیٰ پر کھڑے ہو کر دعا کی توفیق بھی ہوئی‘ طور کے دامن میں عربی بدو آباد ہیں‘ انھوں نے ہر کلومیٹر بعدپہاڑ پر چائے خانے بنا رکھے ہیں۔
یہ کچے کوٹھے ہیں لیکن یہ زائرین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں‘ آخری چائے خانے میں کرائے پر کمبل بھی مل جاتے ہیں‘کمبل گندے اور بدبودار ہوتے ہیں لیکن یہ شدید سردی میں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے‘ لوگ کمبل اوڑھ کر چائے خانے کے کونوں میں دبک جاتے ہیں‘ یہ ایک دوسرے کے ساتھ چپک کر بھی بیٹھ جاتے ہیں‘ ہم خیال اس چائے خانے میں داخل ہوئے تو دس بائی پندرہ فٹ کے اس کچے کوٹھے میں پچاس کے قریب لوگ کمبل اوڑھ کر بیٹھے تھے‘ اکثریت یورپی زائرین کی تھی‘ ان میں یہودی بھی تھے اور عیسائی بھی‘ کمبل اوڑھ کر کوہ طور پر سونے کی روایت یہودی ہے‘ یہ لوگ شادی کے فوراً بعد کوہ طور پر آتے تھے اور اپنی پہلی رات طور کے راستے میں کمبل کے اندر گزارتے تھے۔
ان کا خیال تھا یہ عمل صالح اولاد کے لیے ضروری ہے‘ یہ روایت آج بھی قائم ہے‘ طور کی چوٹی دنیا کا واحد مقام ہے جہاں تینوں آسمانی مذاہب کے زائرین اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہیں‘ یہ وہ مقام ہے جہاں کوئی بندہ رہتا ہے اور نہ کوئی بندہ نواز لیکن جوں جوں سورج چڑھتا جاتا ہے اور لوگ طور سے نیچے اترتے جاتے ہیں‘ یہ لوگ توں توں دوبارہ یہودی‘ عیسائی اور مسلمان ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ طور کے دامن میں سینٹ کیتھرائن پہنچ کریہ دوبارہ ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں‘ یہ صرف کوہ طور کی برکت ہے چند لمحوں کے لیے تینوں مذاہب کے درمیان موجود دیواریں گرجاتی ہیں اور اللہ کے بندے صرف اللہ کے بندے بن جاتے ہیں۔
طور سے واپسی کا سفر چڑھائی سے زیادہ مشکل ہوتا ہے‘ زائرین کھلی آنکھوں سے خطرناک سیڑھیاں اور ہولناک گھاٹیاں دیکھتے ہیں اور ہر بار رک رک کر یہ سوچتے ہیں کیا کل رات ہم اس مقام سے بھی گزرے تھے اور یہ سوچ کر ان کی روح تک کانپ جاتی ہے‘ پورے پہاڑ پر گھاس کا تنکا تک نہیں ہوتا‘ کوئی پرندہ اور کوئی جانور بھی نہیں تھا اور پانی کا کوئی چشمہ بھی نہیں تاہم اس بار چوٹی پر ایک پرندہ نظر آیا اور ہمارے ایک ساتھی نے اس کی ویڈیو بنا لی‘ سورج براہ راست طور پر دستک دیتا ہے اور یوں صبح آٹھ بجے ہی گرمی ناقابل برداشت ہو جاتی ہے‘ لوگ جیکٹس اور مفلر اتارتے چلے جاتے ہیں۔
مقامی لوگوں نے بتایا کوہ طور کا سیزن نومبر میں شروع ہوتا ہے اور اپریل میں ختم ہو جاتا ہے‘ باقی چھ ماہ رات کے وقت بھی ناقابل برداشت گرمی ہوتی ہے‘ پہاڑوں پر چڑھائی مشکل ہوتی ہے اور اترائی مشکل ترین‘ کوہ طور دنیا کے تمام پہاڑوں سے اس معاملے میں بھی آگے ہے‘ اس کی اترائی گھٹنوں اور کمر کا سیدھا سادہ قتل ہوتا ہے لہٰذا ہم جب نیچے سینٹ کیتھرائن پہنچے تو ہمارے جسم کے تمام جوڑ پلاسٹک کے پائپ کی طرح کھوکھلے ہو چکے تھے‘ ہم اٹھتے تھے توکڑک کی آواز آتی تھی اور بیٹھتے تھے تو اندر ٹھک ٹھک ہوتی تھی‘یہ احساس ہمارے بدن میں ابھی تک موجود ہے‘ ہم کوہ طور مصر میں چھوڑ آئے لیکن اس کی یادیں اور اس کا درد پوری زندگی ہمارے جسم میں زندہ رہے گا۔
سینٹ کیتھرائن کوہ طور کے دامن میں ہے‘ یہ درگاہ چوتھی صدی عیسوی میں عیسائی پادریوں نے بنائی تھی‘ حضرت موسیٰ ؑ پر پہلی وحی یہاں اتری تھی‘ آپؑ آگ لینے کے لیے یہاں پہنچے تھے‘ وہ جھاڑی آج تک قائم ہے جس میں آپؑ کو آگ دکھائی دی تھی‘ آپؑ نے جہاں اللہ کے حکم پر جوتے اتارے تھے وہ بھی موجود ہے‘چرچ کی انتظامیہ نے وہاں لکڑی کی رکاوٹ لگا کر راستہ بند کر دیا ہے‘ لوگ اس سے آگے نہیں جا سکتے‘ سامنے پتھر کا پلیٹ فارم ہے اور پلیٹ فارم کے اندر سے وہ جھاڑی باہر لٹک رہی ہے جہاں سے حضرت موسیٰ ؑکو ندائے خداوندی سنائی دی تھی‘ یہ جھاڑی 33 سو سال سے ہری بھری ہے‘ نباتات کے ماہرین نے اس کے مختلف حصے دنیا کے مختلف خطوں میں کاشت کرنے کی کوشش کی لیکن یہ ناکام رہے‘ یہ دنیا کی کسی زمین پر کاشت نہ ہو سکی‘ آخری کوشش میں اس کی قلم جھاڑی سے چند فٹ کے فاصلے پر بودی گئی۔
پودہ نکل آیا لیکن وہ جھاڑی سے بالکل مختلف تھا‘ نباتاتی سائنس دانوں نے اس کے بعد جھاڑی کو معجزہ تسلیم کر لیا اور مزید کوشش ترک کر دی‘ یہودی تین ہزار سال سے جھاڑی کی زیارت کے لیے یہاں آ رہے ہیں‘ قریب ہی حضرت موسیٰ ؑ سے منسوب کنواں بھی ہے‘ مقامی لوگ اسے وہ کنواں کہتے ہیں جہاں حضرت موسیٰ ؑ حضرت شعیب ؑ کی صاحبزادیوں سے ملے تھے لیکن یہ درست نہیں کیونکہ یہ ملاقات مدائن میں ہوئی تھی اور مدائن اردن میں سعودی عرب کی سرحد پر واقع تھا‘ حضرت شعیب ؑ کا مزار اور مسجدبھی اردن میں ہیں‘ سینٹ کیتھرائن سے ذرا سے فاصلے پر حضرت ہارون ؑ کا مزار بھی موجود ہے لیکن مجھے یہ مزار بھی درست نہیں لگتا‘ حضرت ہارون ؑ کا انتقال اردن میں پیٹرا کے قریب ہوا تھا اور وہ پیٹرا کے قریب جبل ہارون پر مدفون ہوئے تھے۔
حضرت موسیٰ ؑ جب تورات ملنے کے بعد کوہ طور سے واپس تشریف لائے تھے تو سامری جادوگر اور اس کے بچھڑے کا واقعہ پیش آگیا‘ بچھڑابعد ازاں چٹان میں اتر گیا‘ چٹانوں میں آج بھی بچھڑے کے آثارموجود ہیں اور حضرت موسیٰ ؑسامری جادوگر کے واقعے کے بعد حضرت ہارون ؑ اور بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر فلسطین کی طرف نکل گئے‘ حضرت ہارون ؑ دوران سفر پیٹرا کے قریب وصال فرما گئے جب کہ حضرت موسیٰ ؑ نے بحرمردار (ڈیڈ سی) کے قریب کوہ نبو کے قریب وصال فرمایا چنانچہ میرے خیال میں سینٹ کیتھرائن اور گاؤں طور میں حضرت ہارون ؑ سے منسوب مزار درست نہیں‘ باقی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے‘ کوہ طور کی اترائی میں حضرت الیاس ؑ سے منسوب غار بھی موجود ہے‘ یہ طور پر واحد جگہ ہے جہاں دو قدیم درخت ہیں‘ یہ غار اور درخت طور سے اترتے ہوئے صاف دکھائی دیتے ہیں‘ حضرت الیاس ؑ بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے۔
قرآن مجید نے انھیں الیاس جب کہ بائبل نے ایلیا کے نام سے مخاطب کیا‘ آپؑ بعلبک شہر کے رہنے والے تھے اور یہ شہر لبنان میں شام کی سرحد پر واقع ہے‘ حضرت ابراہیم ؑ نے بھی اس شہر میں قیام کیا تھا‘ اہل شہر بعل نام کے بت کی پرستش کرتے تھے‘ بت 60 فٹ بلند تھا اور سونے کا بنا ہوا تھا‘ یہ شہر بعد ازاں حضرت سلیمان ؑ نے حق مہر میں ملکہ بلقیس کو دے دیا تھا‘ حضرت الیاس ؑ کا مزار بعلبک میں ہے‘ آپؑ اپنی قوم سے تنگ آ کر کوہ طور تشریف لے آئے تھے‘ آپؑ نے یہاں قیام بھی فرمایا اور اعتکاف بھی‘ آپؑ واپس بعلبک تشریف لے گئے لیکن آپؑ کا غار آج بھی برکتوں کا مرکز بن کر کوہ طور کی اترائیوں پر موجود ہے اور اہل ایمان یہاں کھڑے ہو کر دعا بھی کرتے ہیں‘ آپؑ سینٹ کیتھرائن میں بھی تشریف لائے تھے لیکن یہ مقام اس وقت تک چرچ نہیں بنا تھا‘ یہ محض ایک چٹان اور برننگ بش تک محدود تھا‘ آپؑ نے جہاں قیام فرمایا تھا وہاں بعد ازاں چرچ بن گیا‘ یہ چرچ آپؑ کی یادگار ہے۔
میں اس بار بھی ساتھیوں کو لے کر اس مقام تک پہنچا لیکن میں ساتھیوں کی تھکاوٹ کی وجہ سے اس بار بھی انھیں مقام الیاس اور اس چرچ کے بارے میںزیادہ نہیں بتا سکا‘ سینٹ کیتھرائن میں نبی اکرمؐ سے منسوب وہ خط بھی موجود ہے جس پر آپؐ نے اپنے دست مبارک کا نشان لگا کر عیسائی کمیونٹی کو قیامت تک جان‘ مال اور عبادت گاہوں کے تحفظ کی گارنٹی دی تھی‘ یہ ایک دل چسپ واقعہ تھا‘ سینٹ کیتھرائن کے عیسائی پادری مدینہ منورہ آئے‘ رسول اللہ ﷺنے خود ان کی میزبانی فرمائی‘ وہ واپس جانے لگے تو آپؐ نے فرمایا‘ میری‘ میرے ساتھیوں اور میری امت کی طرف سے قیامت تک آپ کی جان‘ مال اور عبادت گاہیں محفوظ ہیں‘ پادریوں نے عرض کیا‘ آپؐ یہ عہد نامہ تحریر فرما دیں۔
آپؐ نے عہدنامہ لکھوایا اور اپنے دست مبارک کا نشان لگاکر ان کے حوالے کر دیا‘ عہدنامے کی کاپی آج تک سینٹ کیتھرائن میں موجود ہے‘ میں تیسری مرتبہ وہاں پہنچا‘ رسول اللہﷺ کے عہدنامے سے اپنی گناہ گار آنکھوں کو وضو کرایا اور آنسو سنبھالتا سنبھالتا باہر آ گیا‘ باہر سینٹ کیتھرائن کے سامنے کوہ طور رنگ بدل رہا تھا‘ سرخی سیاہی میں ڈھل رہی تھی‘ اللہ تعالیٰ کی تجلی آج بھی موجود تھی اور ہر رگ سنگ سے جھانک کر کہہ رہی تھی‘ بے شک اکبر صرف اور صرف اللہ ہے اور وہ اگر آپ کے ساتھ ہے تو پھر کوئی غم‘ کوئی تاسف نہیں‘ یہ دنیا‘ مصیبتوں کا یہ گھر پھر جنت سے کم نہیں‘ میں نے ایک لمبا سانس لیا‘ اللہ کا شکر ادا کیا اور ہوٹل کی طرف روانہ ہو گیا۔
Must Read urdu column Koh e toor se utarte howe By Javed Chaudhry