کس نے ہمیں پکارا۔ ہم آگئے فریادی – اوریا مقبول جان
دنیا جس دن نیو ایئر نائٹ منانے کی تیاریوں میں مصروف تھی، رات بارہ بجے ٹائمز اسکوائر نیویارک، بگ بین لندن اور ایفل ٹاور پیرس جیسے مقامات پر رنگ و نور، رقص و سرود اور فحاشی و عریانی کا سیلاب امڈنے والا تھا، اس دن یعنی 31 دسمبر 2019 کو چین کے ماہر ڈاکٹروں نے عالمی ادارہ صحت کو اطلاع دی کہ ہمارے شہر ووہان میں بہت سے مریض ایک عجیب وغریب نمونیے کا شکار ہوئے ہیں، جن کے مرض کا کچھ اندازہ نہیں ہو رہا۔ یہ ایک معمول کی درخواست تھی جو اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کی راہداریوں میں نئے سال کی تقریبات کی رنگینیوں میں گم ہوگئی۔ لیکن دوسری جانب ووہان شہرمیں مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ پتہ چلا کہ انکی اکثریت سمندری حیات کے گوشت کی مارکیٹ میں کام کرتی ہے۔ یکم جنوری کو وہ مارکیٹ مکمل طور پر بند کر دی گئی۔ دنیا ابھی تک سو رہی تھی، لیکن چین کے ڈاکٹر اس نئی قسم کے وائرس سے لڑنے میں مصروف تھے۔ انہوں نے ”سارس” وائرس سے اسکا موازنہ کیا جو 2002 میں چین میں ہی پھیلا تھا اور وہ 770 جانیں لے گیا تھا۔ماہرین نے 5 جنوری کو بتادیا کہ یہ وائرس ”سارس” نہیں ہے اور دو دن کے بعد 7 جنوری کو اس نومولود کا نام ”کرونا” رکھا گیا اور اس کی علامات کے بارے میں پوری دنیا کو باخبر کردیا گیا۔
علامات دنیا تک پہنچیں تو اگلے ہی دن واشنگٹن میں ایک تیس سالہ مریض میں اس وائرس کی تصدیق ہوگئی اور ساتھ ہی جاپان، کوریا اور تھائی لینڈ نے کرونا کے مریضوں کی خبر دینا شروع کر دی۔گیارہ جنوری کو ووہان میں پہلا مریض چل بسا۔چین میں ہنگامی صورتحال نافذ ہو گئی۔ایک کروڑ سے زیادہ آبادی کا شہر ووہان پوری دنیا سے کاٹ دیا گیا۔ اس وقت وہاں بے شمار پاکستانی طلباء موجود تھے۔ جن میں سے 12 جنوری کو چار طلبہ میں وائرس کی نشاندہی ہوئی۔ پاکستان میں ایک عجیب و غریب بحث چل نکلی۔ سیاستدان اور میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ کوئی والدین کی فرمائش پر بچوں کی واپسی پر بیان بازی کر رہا تھا اور کوئی انہیں وہیں رک کر علاج کروانے کا کہہ رہا تھا۔مگر چین نے اس ضمن میں کوارنٹین کے عالمی اصولوں کے مطابق سختی کی اور کسی کو وہاں سے اس وقت تک نکلنے نہ دیا جب تک اسے صحت مند نہ قرار دیا گیا۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اپنے ملک گیا تو وہاں موجود چینی سفارتخانے نے اسے چودہ دن اپنی نگرانی میں کوارنٹین میں رکھا۔ یہ وہ قدم تھا جس نے پاکستان میں چین سے وائرس کی آمد کا راستہ مکمل بند کر دیا۔ ایک ماہ بعد 19 فروری کو ایران کے مقدس شہر قم میں دو بزرگ کرونا کی وجہ سے انتقال کرگئے۔ ایران جانے والے زائرین دو مقامات پر حاضری دیتے ہیں۔ ایک مشہد میں امام رضا ؓکا مزار اور دوسرا قم میں ان کی ہمشیرہ فاطمہ بنت موسیٰ الکاظم ؓکا مرقد۔ ایران کے وزیر صحت نے 23 فروری کو قم کے ایک تاجر پر الزام لگایا کہ وہ اکثر چین جاتا تھا اور وہ وہاں سے اس وائرس کو لے کر آیا۔ اگلے دن 24 فروری کو قم میں 61 مریض تھے اور بارہ افراد جاں بحق ہوچکے تھے۔ ایک افراتفری کا عالم پیدا ہوا۔ ہر کسی کو وطن واپس لوٹنے کی جلدی ہوئی۔ صرف آٹھ دن میں وائرس ایران کے 31 صوبوں میں سے 24 میں پھیل چکا تھا۔اب افغانستان، آذربائجان، بحرین، کینیڈا، جارجیا، کویت، لبنان، عمان، متحدہ عرب امارات اور پاکستان میں کرونا کے ایسے مریض سامنے آئے جو ایران سے ہو کر آئے تھے۔
ایران میں کرونا پھیلنے کی وجوہات خالصتا سیاسی فیصلے تھے۔ایرانی حکومت گیارہ فروری کو انقلاب ایران کی سالگرہ اور 21 فروری کو پارلیمانی الیکشن کی وجہ سے کرونا کو اہمیت نہیں دینا چاہتی تھی۔ الیکشن گزرنے کے بعد ایران نے آہستہ آہستہ نیم دلی سے پابندیوں کا آغاز کیا۔ پہلے ہفتے بازاراور دکانوں پر سپرے کیا گیا۔ پھر بارہ صوبوں میں سکول کالج اور تفریحی مقامات پر پابندی لگائی گئی، تمام کھیل منسوخ کئے اور چوبیس صوبوں میں جمعہ کے اجتماعات پر پابندی لگائی گئی۔حالات خراب ہوئے تو آخر کار جمعہ 28 فروری کو تین دن کے لیے ایران میں لاک ڈاؤن کیا گیا۔ لیکن اس نیم دلی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے ایران، امریکہ اور یورپ کی طرح مشرق وسطی میں کرونا کا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔ آج وہاں 53,183مریض ہیں، 3,294جان بحق ہوچکے ہیں اور روزانہ مریضوں میں ہزاروں کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کا معاملہ بھی ایران سے ملتا جلتا ہے۔لیکن یہاں سیاسی کشمکش، نیم دلی اور یورپ پلٹ ماہرین کی پالیسی سازی پر گرفت اسے مزید خراب کر سکتی ہے۔فیصلہ سازی ان کے ہاتھ میں ہے جنہیں پاکستان کے معروضی حالات کا بالکل اندازہ تک نہیں۔ چند غیرملکی پاکستانیوں کا یہ جتھہ ہے جو اکثر چھٹیاں گزارنے پاکستان آیا کرتے تھے اور چند دن لوگوں سے الگ تھلگ وقت گزار کر پاکستان کی حکومت اور عوام کو برا بھلا کہہ کر واپس چلے جاتے تھے، آج یہ ” ماہرین ” حکومت کے مشیران خاص ہیں۔ پاکستان ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن پلٹ مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے 26 فروری کو بتایا کہ پاکستان میں کرونا وائرس کے دو مریضوں کی نشاندہی ہوئی ہے جو ایران سے واپس آئے تھے اور پھراسی ہفتے ایسے تین مریضوں کا اضافہ ہوگیا۔ ایران سے بلوچستان کے شہر تفتان میں زائرین کی واپسی شروع ہوئی تو وہاں ایک ایسا مرکز قائم کیا گیا تھا جس پر کسی مہاجر کیمپ کا گمان ہوتا تھا۔ جو زائرین وہاں موجود تھے ان میں پریشانی اور افراتفری تو لازمی تھی۔ ظفر مرزا وہاں گئے اورواپس آکر عمران خان کو یہ خبر سنائی کہ تفتان میں تو کوئی عمارت ہی نہیں ہے، بندوبست کہاں کریں۔عمران خان نے یقین بھی کر لیا۔ کاش ظفرمرزا قریب ہی سیندک کی اسلام آباد نما کالونی دیکھ لیتے، تالاب کے علاقے کا دورہ کرلیتے۔ تفتان کے ہوٹل دیکھتے جو زائرین کے لیے بنے ہوئے ہیں۔بہرحال فیصلہ ہوا اور وہاں سے زائرین کی سکھر اور دیگر شہروں میں منتقلی ہو گئی۔
جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو اس دوران پورا ملک پی ایس ایل کے میچوں کی رنگینیوں میں گم تھا اور خان صاحب کے ایک اور یورپ پلٹ ساتھی احسان مانی کویہ احساس تک نہیں تھا کہ میچ وائرس کے پھیلاؤ میں کسقدر خطرناک ہیں۔سندھ میں زائرین پہنچے تو انہیں سنگینی کا احساس ہوا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اس آفت کا سب سے پہلے ادراک سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ نے کیا اور یکم مارچ کو تمام تعلیمی ادارے بند کردیے۔ابھی تک عمران خان کی حکومت فیصلہ سازی سے محروم تھی جبکہ اس وقت تک 213 مریضوں کی شناخت ہو چکی تھی۔ سندھ حکومت نے پریشانی میں بارہ مارچ کو پی سی بی کے چیئرمین کو درخواست کی کہ حالات کی سنگینی کی وجہ سے باقی میچ منسوخ کیے جائیں۔ پی سی بی نے یہ فیصلہ کرنے کیلئے پانچ دن لیئے۔ حالات سنگین ہوئے تو سندھ حکومت نے 21 مارچ کو مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا، پنجاب حکومت نے بھی ایسا ہی اعلان کیا مگر اگلے دن فیصلہ واپس لے لیا۔ عمران خان صاحب روز روز قوم سے خطاب کرنے لگے اور کہتے ایسا کیا تو ایسا ہو جائے گا، ایسا کیا تو ایسا ہو جائے گا مگر کوئی فیصلہ نہ کر پائے۔ پورے ملک کی انتظامیہ کو بالکل پتہ نہیں کہ آج کا حکم نامہ کتنے دن چلے گا۔کیا کچھ کب تک بند رکھنا ہے اور کب تک کھولنا ہے۔پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا فائٹرز کی طرح کرونا ٹائیگرز کون ہیں، کہاں سے آئیں گے، کیا کریں گے، ان کی تربیت کون کرے گا کچھ پتا نہیں، البتہ خوبصورت شرٹس تیار ہوچکی ہیں۔ ایک خوبصورت رنگارنگ دنیا ہے جو اسلام آباد میں سجی ہے۔ اس میں مغرب پلٹ ماہرین ہیں، بریفنگز ہیں، پریس کانفرنسیں ہیں۔ کمپیوٹر پورٹل تیار ہیں۔ نوکنڈی، مِٹھی روجھان اوربونیر کا بھوکامریض، بے روزگار اور جھونپڑی میں رہنے والا پہلے موبائل خریدے گا، اور وہ بھی ایسا موبائل جس میں انٹرنیٹ ہو، پھر چلانا سیکھے گا اس کے بعد عمران خان صاحب کے یورپ پلٹ مشیروں کے پورٹل پر دستک دینے کے قابل ہوگا۔درخواست پورٹل پر جمع ہو گی اور پھر۔۔۔ آواز آئے گی۔۔۔ کس نے ہمیں پکارا۔ ہم آگئے فریادی۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Kiss ne Hum ko Pukara – Hum a Gaye Faryadi se By Orya Maqbool jan