توقعات کے گھوڑے – جاوید چوہدری
’’میں شروع میں سمجھتا تھا ہم نے پورا ملک اٹھا کرنا تجربہ کاروں کے حوالے کر دیا‘ کارسرکار ریشم کاتنے کی طرح حساس اور باریک کام ہے‘ یہ اناڑیوں کے حوالے نہیں کیا جاتا‘ یہ بالکل ایسے ہے جیسے آپ بوئنگ جہاز لیں‘ لوگوں سے بھریں اور یہ جہاز ناتجربہ کار عملے کے حوالے کر دیں‘یہ پائلٹ کی بھی پہلی فلائیٹ ہو اور انجینئر‘ ائیر ہوسٹسز اور سٹیورڈز نے بھی پہلی بار جہاز میں قدم رکھا ہو‘ یہ ظلم‘ یہ زیادتی ہے‘‘ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور دیر تک خالی سڑک کو دیکھتے رہے۔
ہم رات کے پچھلے پہر واک کر رہے تھے‘ سڑکیں سنسان اور شہر ویران تھا‘ ہم نے منہ پر ماسک چڑھائے ہوئے تھے‘ ہاتھوں پر دستانے تھے اور ہم ایک دوسرے سے چھ فٹ کے فاصلے پر چل رہے تھے‘ ہماری کوشش تھی ہم ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے بھی بات نہ کریں‘ قرنطینہ واک اور ورزش کرنے والے لوگوں کے لیے بہت بڑی سزا ہے‘ ان کا انگ انگ نشئیوں کی طرح ٹوٹنے لگتا ہے‘ ہم بھی تقریباً پاگل ہو گئے تھے لہٰذا ہم نے ڈاکٹر سے مشورہ کیا اور رات بارہ بجے واک شروع کر دی۔
ہم روز دس پندرہ کلو میٹر چل لیتے ہیں‘ میرے ساتھی سینئر افسر ہیں‘ یہ 38 سال سے سرکار کے ملازم ہیں‘ سارا دن دفتر رہتے ہیں‘ شام کو کتابیں پڑھتے ہیں اور ہفتے میں ایک دن میرے ساتھ واک کرتے ہیں‘ واک کے دوران یہ میرے ساتھ ماضی اور آج کی کتابیں شیئر کرتے ہیں اور میں انھیں تازہ ترین فلموں اور ویڈیوز کے بارے میں بتاتا ہوں‘ ہم ایک دوسرے کے ساتھ آیات کا ترجمہ بھی شیئر کرتے رہتے ہیں‘ یہ اس دوران میرے ساتھ کوئی سرکاری راز شیئر نہیں کرتے اور میں ان سے سیاسی گفتگو نہیں کرتا لیکن کل رات یہ شاید اندر سے بری طرح پکے ہوئے تھے چناںچہ یہ خود ہی بول پڑے‘ یہ بولتے چلے گئے اور میں خاموشی سے سنتا رہا۔
ان کا کہنا تھا ’’میں شروع میں سمجھتا تھا یہ ملک کے ساتھ زیادتی ہے لیکن پھر مجھے محسوس ہونے لگا یہ ملک کے خلاف سازش ہے‘ آپ کسی بھی ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ وہ ملک ناتجربہ کاروں کے حوالے کر دیں‘ ہزار سال پرانی ریاست چند برسوں میں زمین بوس ہو جائے گی‘ رومن ایمپائر ہو‘ پرشین ہو یا پھر گریکس ہوں یہ تمام سولائزیشنز ناتجربہ کار حکمرانوں کے ہاتھوں تباہ ہوئی تھیں چناں چہ مجھے محسوس ہونے لگا یہ دنیا کی واحد اسلامی جوہری طاقت کے خلاف سازش ہے‘ ملک بیٹھ جائے گا اور ہم ملک بچانے کے لیے ہر قسم کے کمپرومائز پر مجبور ہو جائیں گے۔
ہمارے پاس آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور ایف اے ٹی ایف کی بات ماننے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہو گا لیکن میں اب ایک تیسری رائے پر مجبور ہو گیا ہوں‘ مجھے محسوس ہو رہا ہے یہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے خلاف سازش ہے‘‘ مجھے جھٹکا لگا اور میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔وہ ماسک ٹھیک کر کے بولے ’’مجھے یقین تھا میں آپ کو بے وقوف یا دیوانہ لگوں گا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے محسوس ہو رہا ہے یہ عمران خان کے خلاف سازش ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان ایک تیسری طاقت بن کر ابھر رہے تھے‘ پورا ملک ان کے ساتھ تھا‘ یہ نوجوانوں کی امنگ اور پسے ہوئے طبقوں کی مراد تھے بس ان میں دو خامیاں تھیں‘ ٹیم اور تجربہ‘ یہ لوگ کبھی سرکار اور سسٹم کا حصہ نہیں رہے تھے اور سسٹم چلانے کے لیے آپ کا سسٹم سے آگاہ ہونا ضروری ہوتا ہے‘ 2013ء میں انھیں کے پی کے میں حکومت بنانے کا موقع مل گیا‘ یہ اگر 2018ء میں وفاق کے بجائے سندھ‘ پنجاب یا بلوچستان میں حکومت بناتے تو یہ اپنی ٹیم بھی ٹیسٹ کر لیتے اور انھیں حکومت کا تجربہ بھی ہو جاتا چناں چہ یہ جب 2023ء میں اقتدار میں آتے تو ان کے پاس ٹیم اور تجربہ دونوں ہوتے اور یہ لوگ پھر پورے سسٹم کو ہلا کر رکھ دیتے۔
یہ روایتی سیاست کو جڑوں سے اکھاڑ دیتے مگر انھیں ناکام بنانے کے لیے پانچ سال پہلے اقتدار دے دیا گیا اور یہ اب ہر گزرتے دن کے ساتھ غیر مقبول ہوتے چلے جا رہے ہیں‘ ان کا ہر قدم غلط اور غیر پختہ ثابت ہو رہا ہے لہٰذا ملک میں اگر آج الیکشن ہو جائیں تو عمران خان بری طرح پٹ جائیں گے‘ یہ اپنی سیٹ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے‘‘ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ’’مجھے محسوس ہو رہا ہے 2020ء میں روایتی سیاسی جماعتیں پوری طاقت کے ساتھ واپس آ جائیں گی‘ یہ حکومت جوں جوں اپنا وقت پورا کرنے کی کوشش کرے گی پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں مضبوط ہوتی چلی جائیں گی‘ یہ کم بیک کرنے لگیں گی‘‘۔
وہ رکے‘ ماسک کے پیچھے سے ہنسے اور بولے ’’مجھے اب حکومت پر ترس آ رہا ہے‘ میں وزیراعظم کا چہرہ دیکھتا ہوں تو میرے اندر ممتا کا احساس پیدا ہونے لگتا ہے‘ یہ سسٹم چلانا ان بے چاروں کے بس کی بات نہیں‘ ان کا سارا منشورتوقعات پر مبنی تھا‘ ان کا خیال تھا یہ آئیں گے تو تارکین وطن ڈالروں کی بارش کر دیں گے‘ خزانہ بھر جائے گا اور یہ سو بلین ڈ الر اس کے منہ پر ماریں گے اور دوسرے سو بلین ڈالر اس کے منہ پر جڑ دیں گے‘ ان میں سے کسی نے یہ نہیں سوچا تھا تارکین وطن کی تیسری نسل باہر جوان ہو گئی ہے‘ پاکستان اب ان کا ملک نہیں رہا‘ وہ اس ملک میں کیوں پیسہ بھجوائیں گے؟
ان کا خیال تھا یہ آٹھ ہزار ارب روپے ٹیکس بھی جمع کر لیں گے‘ ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے ہمارے اخراجات ہیں‘ اڑھائی ہزار ارب روپے بچ جائیں گے اور حکومت موجیں مارے گی‘ ان میں سے کسی کو پتا نہیں تھا ٹیکس اکانومی کے سائز کے مطابق اکٹھا ہوتا ہے‘ ہمارے ملک میں انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق ایک بھی کھرب پتی نہیں‘ حکومت اگر ٹیکسٹائل انڈسٹری اور چینی کو سبسڈی نہ دے تو یہ دونوں صنعتیں بھی بیٹھ جاتی ہیں‘ ملک کی آدھی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے‘ ہم ہر سال ایک کروڑ 45 لاکھ پڑھے لکھے بے روزگار پیدا کرتے ہیں‘ ملک کا 80 فیصد ٹیکس 300 کمپنیاں دیتی ہیں‘ یہ رک جائیں تو ٹیکس 20 فیصد پر آ جائے۔
ان کا خیال تھا ملک میں روز 10 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے‘ یہ سال میں تین ہزار چھ سو ارب روپے بنتے ہیں‘ ہم یہ روک دیں گے تو ملک چل پڑے گا‘ یہ سرے سے نہیں جانتے تھے ہماری ٹوٹل ایکسپورٹس 20 بلین ڈالر سالانہ ہیں‘ ملک میں 10 ارب روپے روزانہ کرپشن کیسے ہو سکتی ہے؟ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا! ان کا خیال تھا یہ کرپٹ لوگوں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالیں گے اور یہ تین تین‘ چار چار ہزار ارب روپے سامنے رکھ دیں گے‘ ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا الزام لگانے کے بعد ثبوت بھی دینے ہوتے ہیں اور ان ثبوتوں کو عدالتوں میں ثابت بھی کرنا پڑتا ہے اور واٹس ایپ اور ٹویٹر ثبوت نہیں ہوتے۔
ان کا خیال تھا عمران خان پوری دنیا میں پاپولر ہیں‘ یہ جس عالمی لیڈر کے سامنے بیٹھیں گے یہ اسے قائل کر لیں گے‘ ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا ملک شخصیات سے بالاتر ہوتے ہیں‘ یہ صرف اور صرف اپنا مفاد دیکھتے ہیں‘ یہ اگر شخصیات سے متاثر ہوتے تو بل گیٹس‘ وارن بفٹ‘ جیف بیزوس‘ ٹام کروز‘ انتھونی ہاپکنز اور سچن ٹنڈولکر جیسے لوگ پوری دنیا کو آگے لگا لیتے اور ان کا خیال تھا ہم قوم کو ساتھ لے کر چلیں گے اور ہمارے ٹائیگرز پورا سسٹم بدل دیں گے مگر ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا پرانا سسٹم بدلنے کے لیے نیا سسٹم بنانا پڑتا ہے اور نیا سسٹم بنانا بچوں کا کھیل نہیں ہوتا‘ ہم 72 برسوں میں اپنا آئین ٹھیک نہیں کر سکے۔
ہمیں ہر سال دو سال بعد اس میں بھی ترمیم کرنا پڑ جاتی ہے‘ ہم 47برسوں میں آئین میں 26ترامیم کر چکے ہیں جب کہ امریکا کا آئین 1789ء میں بنا تھا اور اس میں231برسوں میں صرف 27ترامیم ہوئی ہیں‘ یہ دو برسوں میں ڈھنگ کا وزیر قانون تلاش نہیں کر سکے‘ یہ گر پڑ کر پھر بابر اعوان کو لے آتے ہیں‘ یہ دو برسوں میں چینی اور آٹے کا نظام نہیں سمجھ سکے اورپوری حکومت ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود پشاور کی میٹرو نہیں چلا سکی‘یہ نیا سسٹم کیسے بنائیں گے؟‘‘وہ خاموش ہو گئے۔
میں انھیں پہلی بار جذباتی دیکھ رہا تھا‘ وہ ہوا میں بار بار سر چلا رہے تھے اور بول رہے تھے’’ مجھے عمران خان پر ترس آ رہا تھا‘ یہ نیک نیت تھا‘ ایمان دار تھا‘ یہ قوم کے لیے کچھ کرنا بھی چاہتا تھا مگر افسوس یہ شخص ضایع ہو گیا‘ یہ توقعات کو گھوڑا سمجھ کر اس پر چڑھ بیٹھا تھا اور آدھا سفر کرنے کے بعد اسے محسوس ہوا یہ کاغذ کے گھوڑے پر بیٹھا ہے اور کاغذ کا یہ گھوڑا ہوا کے دبائو میں مسافر سمیت کبھی دائیں مڑ جاتا ہے اور کبھی بائیں۔
میں روز دیکھتا ہوں عمران خان اس گھوڑے سے نیچے چھلانگ لگانا چاہتا ہے لیکن اس کی انا‘ اس کی طبیعت کی سختی اسے روک لیتی ہے اور یہ دوبارہ توقعات کے گھوڑے کی سمت ٹھیک کرنے میں جت جاتا ہے مگر کب تک‘‘ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ’’مگر کب تک !عمران خان کو بہرحال گھوڑے سے اترنا پڑے گا‘اس کا چہرہ بتا رہا ہے یہ میدان چھوڑ دے گا‘‘ وہ رکے‘ ان کے اندر سے آہ نکلی اور وہ بولے ’’ مجھے یقین ہو رہا ہے یہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے خلاف سازش تھی‘ روایتی سیاسی جماعتوں اور دوسو سال پرانے سسٹم نے عوام کی امیدوں کو انڈوں کے اندر ہی کچل دیا‘ پھل کچا توڑ کر ضایع کر دیا گیا‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ سڑک پر سناٹے اور کورونا کے خوف کے سوا کچھ نہیں تھا اور اس کچھ نہیں میں دو سائے آہستہ آہستہ چل رہے تھے‘ حکومت کی طرح بے سمت اور مایوس۔
Must Read urdu column Towaqooaat k GHoraay by Javed Chaudhry