مولانا زندہ باد – جاوید چوہدری
میں مولانا طارق جمیل کا فین ہوں‘ دوستی کو بھی 15 سال ہو چکے ہیں‘ میں شروع میں جب ان سے ملا تھا تو ان کے ساتھ ایک ایگریمنٹ ہوا تھا ’’یہ مجھے خراب نہیں کریں گے اور میں انھیں نہیں کروں گا‘‘ ۔یہ معاہدہ آج بھی قائم ہے‘ مولانا نے 15 برسوں میں مجھے تبلیغ نہیں کی اور میں نے بھی انھیں کبھی ’’راہ راست‘‘ پرلانے کی کوشش نہیں کی چناں چہ ہم اپنی اپنی گلیوں میں مزے کے ساتھ ٹہل رہے ہیں تاہم میں دل سے سمجھتا ہوں مولانا عظیم انسان ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ دین کی بات کرتے ہیں اور یہ لوگوں کو اللہ اور نبی اکرمؐ سے جوڑتے ہیں اور دنیا میں اس سے بڑی سعادت کوئی نہیں ہوتی‘ اللہ یہ کام انبیاء اور صوفیاء سے لیتا تھا‘ نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے جب کہ صوفیاء کرام آج کی ’’ڈیجیٹل ورلڈ‘‘ میں ’’فٹ ان‘‘ نہیں ہیں لہٰذا قدرت اب دعوت کے لیے مولانا طارق جمیل جیسے لوگوں سے کام لیتی ہے۔
میں ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ’’منتخب نمائندے‘‘ کہتا ہوں‘ اللہ دنیا میں رینگنے والے ہم جیسے لوگوں میں سے کسی کو چنتا ہے اور اس کے ہاتھ میں لاٹھی دے کر گم راہ بھیڑوں کو باڑے میں واپس لانے کی ذمے داری دے دیتا ہے اور بلاشبہ مولانا طارق جمیل ان لوگوں میں سے ایک ہیں‘اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان میں بے انتہا اثر رکھا ہوا ہے‘ یہ لفظوں کی ڈوریاں پھینک کر دلوں کو کھینچ لیتے ہیں‘ یہ آیات‘ احادیث اور واقعات کا سمندر بھی ہیں‘ ان کی یادداشت ان کی زبان سے جڑی ہوئی ہے‘ یہ بولتے جاتے ہیں اور واقعات گوگل کی طرح ان کی زبان پر اترتے جاتے ہیں‘ یہ وصف اللہ تعالیٰ بہت کم لوگوں کو عطا کرتا ہے‘ میں ان کا فین تھا‘ میں ہوں اور میں ہمیشہ رہوں گا لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں میں ان سے اختلاف یا شکوہ نہیں کر سکتا‘ انسان کو شکوے اور اختلاف کا حق تو اللہ تعالیٰ بھی دیتا ہے اور انسان اپنا یہ حق قدرت کے سامنے بھی استعمال کرتا ہے لہٰذا میں اپنا یہ حق آج مولانا کے سامنے بھی استعمال کروںگا‘ مجھے یقین ہے مولانا میرے اعشاریہ ایک فیصد سچ کا برا نہیں مانیں گے۔
وزیراعظم ہاؤس میں ٹیلی تھون تھی‘ میرے صحافی اور اینکر دوستوں نے وزیراعظم کے ساتھ مل کر چندہ مانگا اور الحمد للہ پوری دنیا سے 55 کروڑ روپے کے وعدے نازل ہوئے جب کہ ٹیلی تھون پر چینلز کا ایک ارب روپے کا کمرشل ٹائم خرچ ہوا‘ حکومت اگر اس خواری کی بجائے ٹیلی ویژن چینلز کو حکم دیتی آپ اپنے تین گھنٹے کمرشل کر دیں‘ شام چار بجے سے سات بجے تک صرف اشتہار اور ’’پیڈ کانٹینٹ‘‘ چلائیں اور اس سے جتنی رقم ملے وہ آپ کورونا فنڈ کو دے دیں تو یقین کریں 55 کروڑ روپے سے زیادہ رقم جمع ہو سکتی تھی لیکن ہم کیوں کہ بھیک کا عالمی ریکارڈ قائم کرنا چاہتے تھے لہٰذا ہم نے وہ قائم کر دیا‘ کورونا اس وقت 210 ملکوں میں ہے لیکن ہمارے وزیراعظم دنیا کے واحد حکمران ہیں جنہوں نے ’’لاک ڈاون‘‘ میں پھنسے لوگوں سے چندہ مانگا اور آخر میں صرف 55 کروڑ روپے کے وعدے ملے‘ ملک میں روز اس سے دگنا ٹول ٹیکس جمع ہو جاتا ہے۔
حکومت نے آخر میں چندے میں برکت ڈالنے کے لیے مولانا طارق جمیل کو بھی ٹیلی تھون میں جھونک دیا اور مولانا نے دعا سے پہلے پوری قوم کو میڈیا سمیت جھوٹا قرار دے دیا‘ میں مولانا کی آبزرویشن کی توہین نہیں کرتا‘ مولانا جانتے ہیں قوم میں تبلیغی جماعت کے ایک کروڑ کارکن بھی شامل ہیں‘ اگر پوری قوم جھوٹی ہے تو پھر یہ مبلغ سچے کیسے ہو سکتے ہیں؟ پیچھے رہ گیا میڈیا تو میں میڈیا ورکر کی حیثیت سے چند سچ سامنے رکھنا چاہتا ہوں‘ مولانا خود فیصلہ کر لیں ہم لوگ کتنے جھوٹے ہیں! وفاقی کابینہ میں ایک وزیر ہیں عمر ایوب‘ یہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے پوتے اور گوہر ایوب کے صاحب زادے ہیں‘ گوہر ایوب قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی رہے۔
وزیر خارجہ بھی اور پانی و بجلی کے وفاقی وزیر بھی‘ گوہر ایوب نے ’’ایوان اقتدار کے مشاہدات ‘‘کے نام سے 2007ء میں کتاب لکھی ‘اس کتاب میں گوہر ایوب نے ایک واقعہ لکھا‘یہ اس وقت وزیر خارجہ تھے‘ بقول گوہر ایوب ہم نے چین کو 250 ملین ڈالر کی امداد اور پانچ سو ملین ڈالر کی گرانٹ پر تیار کر لیا تھا‘ ہم وزیراعظم میاں نواز شریف کو چین لے گئے‘ وزیراعظم نے صرف کہنا تھا اور چین نے ہمیں ساڑھے سات سو ملین ڈالرز دے دینے تھے لیکن صبح ناشتے کی میز پر نواز شریف نے مجھے اور وزیرخزانہ سرتاج عزیز کو کہا‘ میں چین سے پیسے نہیں مانگوں گا‘ مجھے نواز شریف سے بچوں جیسی حرکت کی توقع نہیں تھی‘ مجھے وزیراعظم کے طرز عمل پر بہت افسوس ہوا۔آپ ذرا سوچیے جو وزیراعظم معاشی حالات کی خرابی کے باوجود چین سے امداد نہیں مانگ رہا وہ بچوں جیسی حرکت کر رہا تھا اور وہ جو ٹیلی تھون میں پوری دنیا سے مانگ رہا ہے وہ ایمان دار ترین ہے! ہم بھی کیا لوگ ہیں؟۔
یہ وفاقی وزیر عمر ایوب کے والد گوہر ایوب کا لکھا ہوا سچ ہے اور میں یہ صرف ’’ری پروڈیوس‘‘ کر رہا ہوں لیکن مجھے آج سارا دن جتنی گالیاں پڑیں گی مولانا ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور ہم لوگ اس فضا میں سچ بولتے اور لکھتے ہیں‘ مولانا خود اس چینل کے مالک کا نام نہیں لے رہے جس نے کہا تھا ’’چینل بند ہو سکتا ہے لیکن جھوٹ نہیں رک سکتا‘‘ لیکن وہ لوگ جو روز جابر حکمرانوں کے سامنے پورے نام لے کر سچ بولتے ہیں وہ سارے کے سارے جھوٹے ہیں‘ سچ تو یہ ہے اس ملک میں سچ کو مشکوک بنا دیا گیا ہے‘ ہم جنرل پرویز مشرف‘ شوکت عزیز‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے اچھے کاموں کا اعتراف بھی کریں تو پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل پیجز سے گالیوں کے دہانے کھل جاتے ہیں ‘مولانا یہ بھی چھوڑ دیں صرف یہ بتا دیں کیا یہ سچ نہیں ہم ایک بھکاری ملک تھے‘ پوری دنیا ہمیں منگتا سمجھتی تھی لیکن ہم نے اب وزیراعظم کو بھی چندے پر لگا دیا۔
یہ بھی اب ’’ دل کھول کر دیں‘‘ کی صدا لگا رہے ہیں اور لوگ اس کے بعد جب کہتے ہیں ’’خدا خوفی کریں‘‘ تو جواب آتا ہے وزیراعظم کون سا اپنی ذات کے لیے مانگ رہے ہیں‘ ہم نے ملک میں اپنی آنکھوں سے بڑے بڑے دل چسپ واقعات دیکھے ہیں لیکن یہ منظر پہلی مرتبہ دیکھا‘ عبدالستار ایدھی کے صاحبزادے فیصل ایدھی خود لوگوں سے چندہ لے کر چندے کا چیک بناتے ہیں اور یہ چیک وزیراعظم کو دے دیتے ہیں اور وزیراعظم وہ وصول بھی کر لیتے ہیں‘ وفاقی وزیر صحت عامر کیانی پر کرپشن کا الزام لگتا ہے‘ انھیں عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے لیکن ان کے خلاف تحقیقات نہیں ہوتی ہیں اور پھر تین ماہ بعد انھیں پارٹی کا سیکریٹری جنرل بنا دیا جاتا ہے‘ وفاقی مشیر عبدالرزاق داؤد کی کمپنی کو 309ارب روپے کا ڈیم بنانے کا ٹھیکہ دے دیا جاتا ہے۔
ایف آئی اے کی تحقیقات میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار پر چینی اور آٹے میں اربوں روپے بنانے کا الزام لگ جاتا ہے لیکن خسرو بختیار کو پہلے سے بہتر وزارت دے دی جاتی ہے اور جہانگیر ترین کو موسم انجوائے کرنے کا وسیع موقع فراہم کر دیا جاتا ہے‘ پشاور میٹرو مکمل نہیں ہوتی‘ نیب کیس کھولنے لگتا ہے تو کے پی کے حکومت عدالت سے اسٹے لے لیتی ہے‘ الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کی فائل کھلتی ہے اور حکومت سامنے کھڑی ہو جاتی ہے اور وزیراعظم خود ڈیوس میں کھڑے ہو کر کہہ دیتے ہیں میرا یہ دورہ میرے دوست عمران چوہدری نے اسپانسر کیا تھا اور یہ سچ کی اس فہرست کے وہ اعشاریہ ایک فیصد سچ ہیں جو جبر کے اس موسم میں بھی میڈیا نے بولے لیکن تاریخ کی ایمان دار ترین حکومت کیا کرتی ہے؟ یہ رپورٹس ’’لیک‘‘ ہونے کے بعد ’’ہم نے رپورٹ جاری کر دی‘ ہم نے رپورٹ جاری کر دی ‘‘کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتی ہے اور بس‘ مولانا صاحب یہ کیا جنون ہے‘ یہ کیا عشق ہے جس میں روز’’ لیلیٰ نظر آتا اور مجنوں نظر آتی ہے‘‘ ہو رہا ہے اور اہل ایمان تماشا دیکھ رہے ہیں۔
میں آخر میں یہ مانتا ہوں اللہ تعالیٰ نے پہلی مرتبہ دنیا کے ایک انسان کے لیے اپنا اصول بدل دیا‘ اللہ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے ’’ہم ظالموں میں سے بعض کو بعض پر والی( حکمران) بنا دیتے ہیں (سورۃ الانعام‘ آیت 129) لیکن اللہ تعالیٰ نے اس بار دنیا کی جھوٹی ترین قوم پر ایک سچا ترین اور ایمان دار ترین لیڈر اتار دیا‘ ہمارا کیا بنتا ہے یہ تاریخ ہی بتائے گی لیکن کم از کم قدرت اس کے بعد یہ دعویٰ نہیں کر سکے گی ’’ہم قوموں پر قوموں جیسے لیڈر ہی اتارتے ہیں‘‘ یہ اصول کم از کم تبدیل ہو گیا اور میں سمجھتا ہوں اس میں مولانا کی دعاؤں اور رقت کا بہت عمل دخل ہے‘ یہ نرگس کا ہزاروں سال کا وہ گریہ ہے جس کے بعد چمن میں دیدہ ور پیدا ہوجاتا ہے اور پوری دنیا اب وضو کر کے ہمارے دیدہ ور کا دیدار کر رہی ہے‘ مولانا زندہ باد اور پاکستان پائندہ باد۔
Must Read urdu column Moulana Zindabad by Javed Chaudhry