اُلٹی شلوار – منٹو
صاحب !! اب میرا کام ھو جائے گا نا ؟؟
اس نے دیوار کی طرف رُخ موڑا اور تیزی سے کپڑے پہننے لگی۔
"ھاں ھاں بھئی” ۔۔۔ میری سانسیں ابھی بھی بے ترتیب تھیں ۔
پھر میں پیسے لینے کب آؤں ؟
دوپٹے سے اس نے منہ پونچھا اور پھر جھٹک کر لپیٹ لیا ۔
پیسے ملنے تک تمہیں ایک دو چکر تو اور لگانے ھی پڑیں گے۔ کل ھی میں مالکان سے تمہارے شوھر کا زکر کرتا ھُوں.میں نے شرٹ کے بٹن لگائے ، ھاتھوں سے بال سنوارے اور دفتر کے پیچھے ریٹائرنگ روم کے دروازے سے باھر جھانک کر آس پاس احتیاتاً ایک طائرانہ نظر دوڑانے لگا ۔
ویسے تو نیا چوکیدار وقتا فوقتا چائے پانی کے نام پر میری طرف سے ملنے والی چھوٹی موٹی رقم کے بدلے میں میرا خیر خواہ تھا مگر پھر بھی میں کسی مشکل میں گرفتار نہیں ھونا چاھتا تھا ۔
"پھر میں کل ھی آجاؤں” وہ میرے پختہ جواب کی منتظر تھی ۔
کل نہیں !!
میں روز اُس کے یہاں آنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا اس لیے بس آہ بھر کر رہ گیا۔ ھائے غریبوں کو بھی کیسے کیسے لعل مل جاتے ھیں۔ میں نے نظروں سے اسکے جسم کے پیچ و خم کو تولتے ھُوئے سوچا۔
ارے سنو !! تم نے شلوار اُلٹی پہن لی ھے ۔
وہ چونک کر اپنی ٹانگوں کی طرف جھکی اور خجل ھو گئی ۔
اسے اتار کر سیدھی کرلو ۔ میں چلتا ھوں پانچ منٹ بعد تم بھی پچھلے دروازے سے نکل جانا۔ اور ھاں احتیاط سے کوئی دیکھ نہ لے تمہیں ۔
اُس کا شوھر زیمل خان کئی سالوں سے ھماری فیکٹری میں رات کا چوکیدار تھا تین ہفتے پہلے فیکٹری میں داخل ھونے والے ڈاکوؤں کے ساتھ مزاحمت میں ٹانگ پر گولی کھا کر گھر میں لاچار پڑا ھُوا تھا ۔ مالکان اسکے علاج کے لیے پچاس ھزار روپے دینے کا اعلان کر کے بھول گئے تھے ۔ سو اسکی بیوی اسی سلسلے میں بار بار چکر لگا رھی تھی ۔ میں نے اس کی مدد کا وعدہ کیا اور چھٹی کے بعد شام میں اُسے فیکٹری آنے کا اشارہ دے دیا اور وہ اِسی سلسلے میں آئی تھی۔
عمر ! عمر!
اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ھُوئے مجھے عقب سے اپنی بیوی کی آواز سنائی دی ۔ اُس کے اور میرے گھر لوٹنے کا وقت تقریبا ایک ھی تھا اور کبھی کبھار ھم اسی طرح اکھٹے گھر میں داخل ھوتے تھے ۔ وہ ایک بینک میں کلرک تھی ۔
سنو !! ایک خوشخبری ھے قدرے فربہی مائل وجود کو سنبھالے وہ تیزی سے اُوپر آرھی تھی اور خوشی سے اُس کی بانچھیں کھلی جا رھی تھیں۔
مینیجر صاحب میرے کام سے بہت خوش ھیں اور آج ھی انہوں میرے پروموشن کی بات ھے۔
دروازے کے سامنے رک کر اس نے ہینڈ بیگ ٹٹولا اور چابی نکالی
انہوں نے کہا ھے تھوڑا وقت لگے گا مگر کام ھوجائے گا
ارے واہ مبارک ھو ، میں نے خوشدلی سے اسے مبارکباد دی۔
وہ بولی ، "تمہیں پتا ھے مجھ سمیت پانچ امیدوارھیں ، اور وہ آصفہ ھے نا وہ بھی میرے حق میں نہیں مگر ڈائیریکٹر صاحب میرے کام سے بہت خوش ھیں۔ کیوں نہ ھوں میں اتنی محنت جو کرتی ھُوں اور ویسے بھی ۔ ۔ ۔ ۔۔وہ گھر کے اندر داخل ھوتے ھُوئے بھی مسلسل بولے چلی گئی۔
میں اُس کی پیروی کرتے ھُوئے اُس کی فتح کی داستان سے محظوظ ھو رھا تھا کہ اچانک میری نظریں اُس کی الٹی شلوار کے ریشمی دھاگوں میں اُلجھ گئیں