مندر کے نام پر سیاست! – انصار عباسی

Ansar Abbasi

اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے معاملہ پر جہاں ایک طرف سیاست ہو رہی وہیں جھوٹا پروپیگنڈہ بھی خوب کیا جا رہا ہے جس کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔

این جی اوز میدان میں نکل آئیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی بیان جاری کر دیا، سول سوسائیٹی اپنی آواز بلند کر رہی اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مذہبی طبقہ کا بھی رد عمل سامنے آ رہا ہے۔

یہ معاملہ ایک تنازعہ کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ آیا مندر اسلام آباد میں بننا چاہیے یا نہیں۔ کیس کے حقائق کو جانے بغیر اقلیتوں کے حقوق کے نام پر پارلیمنٹ تک میں تقریریں کی جارہی ہیں اور مغرب کو خوش کرنے کے لیے ایسی ایسی باتیں کی جا رہی ہے جو پہلے کبھی نہ دیکھیں نہ سنی۔

ن لیگ کے ایک ذمہ دار نے جوش خطابت میں یہ تک کہہ دیا کہ کسی مذہب کو کسی دوسرے مذہب پر فوقیت نہیں۔ اس پر جب جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی کی طرف سے اعتراض کیا گیا تو جماعت اسلامی کو طعنہ سازی کا نشانہ بناتے ہوئےبغیر کسی معذرت اور شرمندگی کے وضاحت یہ کی گئی کہ آئین کہتا ہے کہ تمام شہریوں کے بنیادی حقوق برابر ہیں چاہے کسی کا کسی بھی مذہب سے تعلق ہو۔

جو بات پہلے کی گئی اُس بات سے مختلف تھی جو بعد میں کی گئی۔ پہلی بات سے مغرب کو خوش کیا جا سکتا ہے اور ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ن لیگ تو ایک لبرل جماعت ہے جبکہ دوسری بات سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ کہنے کا مطلب وہ نہیں تھا جو سمجھا گیا بلکہ وہ تھا جس کی وضاحت کی گئی۔ بحرحال قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے حقوق پر دونوں اطراف سے تقاریر کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ مندر کو تعمیر کیا جائے۔

اب زرا حقاق سن لیں۔ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے لیے نواز شریف دور حکومت (2016) میں چار کنال زمین کی جگہ سی ڈی اے کی طرف سے متعین کی گئی۔

تحریک انصاف کی حکومت آنے کےبعد حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ قومی خزانہ سے پچاس کڑور روپیہ مندر کی تعمیر کے لیے مختص کیا جائے جس پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ حال ہی میں سی ڈی اے سے بغیر منظوری کے مندر کے لیے مختص پلاٹ پر دیواریں بنانا شروع کر دی گئی جس پر قانونی طور پر سی ڈی اے نے نوٹس جاری کیا۔

قانون کے مطابق کسی قسم کی تعمیر کے لیے سی ڈی اے سے منظوری لینا لازم ہے۔ نوٹس ملنے پر یہ ایشو بنا دیا گیا کہ سی ڈی اے نے مندر کی تعمیر روک دی جس کی وجہ قانونی نہیں بلکہ مذہبی ہے جو سراسر جھوٹ ہے لیکن اس جھوٹ کو خوب پھیلایا جا رہا ہے اور اسی جھوٹ کی بنیاد پر ایمنسٹی انٹرنیشنل، این جی اوز اور ایک مخصوص طبقہ اپنی اپنی دکانیں چمکا کر رہے ہیں۔

کوئی ان سے پوچھے کیاامریکا، برطانیہ، یورپ میں بغیر اجازات کے کوئی مسجد، کوئی مندر حتیٰ کہ کوئی گرجاگھر بنانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟؟ اگر نہیں تو سی ڈے اے اگر قانون کی عملداری کے لیے مندر کی غیر قانونی تعمیر کو روکنے کے لیے نوٹس جاری کر رہا ہے تو اس پر اتنا شور کیوں۔

جس دن مندر کی تعمیر کے غیر قانونی کام کو روکنے کے لیے سی ڈے اے نے نوٹس جاری کیا اور اسے اقلیتوں کے حقوق کے خلاف اقدام گردانا گیا اُسی روز اسلام آباد کے ہی علاقہ سہالہ میں ایک ایسی مسجد کو شہید کیا گیا جس کے بارے میں سی ڈی اے کا کہنا ہے تو وہ غیر قانونی تعمیر تھی۔ کیا اس مسجد کے شہید کیے جانے پر ایمنسٹی انٹرنیشنل، این جی اوز ، میڈیا اور ہماری پارلیمنٹ میںکوئی بات ہوئی؟؟؟ بلکل نہیں۔

سی ٖڈی اے نے ایک نہیں بلکہ کئی اور مساجد کو نوٹس جاری کیے اور ماضی میں کئی ایسی مساجد کو شہید بھی کیا گیا جن کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اُن کی تعمیر غیر قانونی تھی۔ گویا مندر کی تعمیر کے قانونی معاملہ کو مذہبی رنگ دینا دراصل ایک غیر قانونی عمل کی حمایت کرنا ہے جس پر کوئی بات نہیں کر رہا۔

جہاں تک مندر کی تعمیر کے مذہبی معاملہ کی بات ہے تو اس پر محترم مفتی تقی عثمانی نے سوشل میٖڈیا کے ذریعے اپنا جو بیان جاری کیا وہ پاکستان اور اسلام کے خلاف پروپیگندہ کرنے والوں کی جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔

مفتی تقی عثمانی صاحب نے کہا کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو حق ہے کہ جہاں ان کی آبادی کے لیے ضروری ہو وہ اپنی عبادت گاہ برقرار رکھیں اور پاکستان جیسے ملک میں جو صلح سے بنا ہے وہ ضرورت کے موقع پر نئی عبادت گاہ بھی بنا سکتے ہیں لیکن حکومت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے خرچ پر مندر کی تعمیر کرے خاص طور پر ایسی جگہ جہاں ہندو برادری کی آبادی بہت کم ہو اس لیے اسلام آباد میں حکومت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے خرچ پر مندر تعمیر کرائے۔

تقی صاحب نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ نہ جانے اس نازک وقت میں کیوں ایسے شاخصانے کھڑے کیے جا تے ہیں جس سے انتشار پیدا ہونے کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Mandir k Nam pe Siasat By Ansar Abbasi

Leave A Reply

Your email address will not be published.