سیکولر، لبرل فاشزم کے یرغمال ’’ایلیٹ‘‘ تعلیمی ادارے
اس ادارے کی پہچان گذشتہ ڈیڑھ صدی سے ایک سیکولر، لبرل اور آزاد خیال ادارے کے طور پر رہی ہے۔ لاہور شہر کا ہر فیشن یہاں سے جنم لیا کرتا تھا۔ اب تو یہ نسبتاً روایت پسند ادارہ کہلاتا ہے، کیونکہ لاہور شہر میں چاروں جانب مذہبی اخلاقیات سے بغاوت اور جدید سیکولرلبرل تہذیب کی نرسریاں تعلیمی اداروں کی صورت کھل چکی ہیں۔ آپ ان تعلیمی اداروں میں داخل ہوں تو آپ کو وہاں ایک شاندار سی پکنک کا سا سماں محسوس ہوگا۔ رنگ برنگے ملبوسات، جدید فیشن میں تراشے ہوئے بال اور لب ورخسار کی آرائشیں آپ کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لئے کافی ہوگی۔ فیشن زدہ پھٹی ہوئی جینز سے لے کر مارکیٹ میں آئے ہوئے نئے برانڈ کے ملبوسات تک آپ کو سب کچھ وہاں نظر آئے گا۔ ایسے ماحول میں اگر آپ کو اس تعلیمی ادارے کی کسی ادبی، کلچرل یہاں تک کہ مذہبی سوسائٹی کے کسی فنکشن یا تقریب میں جانے کا موقع مل جائے تو آپ کو وہاں مذہب، تہذیبی کلچر و ثقافت اور ادب کے نام کی کوئی چیز نہیںملے گی۔ نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ نظر آئے گی جسے غزل، نظم، رباعی، مثنوی جیسی کسی چیز کا کچھ علم نہیں ہوتا۔ سٹیج سیکرٹری بھی ایسے گفتگو کررہا ہوگا، ’’آج ہمارے درمیان یونیورسٹی کے بے شمار پوئٹس (Poets) موجود ہیں جو آپ کے سامنے اپنی اپنی پوئٹری پیش کریں گے‘‘ اور نوجوان بھی سٹیج پر آکر کہے گا، ’’پوئٹری پیشِ خدمت ہے‘‘۔ اسی طرح کلچرل سوسائٹی والوں کو نہ پاکستانی تہذیب و ثقافت کا کچھ علم ہو گا اور نہ ہی اقداروروایات کا، بلکہ موسیقی میں بھی گانے والوں کا کسی قسم کے راگ، خیال، ٹھمری، دادرا، انترہ، استھائی جیسے تصوارت سے کوئی علاقہ نہیں ہوگا۔ گلوکار کو سٹیج پر بلاتے ہوئے کہا جائے گا، ’’تشریف لائے ہیں اپنا سونگ (Song) پیش کرنے ۔۔‘‘۔ مذہبی سوسائٹیوں کو تو جان بوجھ کر بین المذاہب سوسائٹیاں بنادیا گیا، تاکہ اسلام کی تھوڑی بہت شناخت بھی ختم کردی جائے۔ حیرت کی بات ہے کہ کسی چرچ میں اذان نہیں دی جاسکتی، کسی مسجد میں شیو کی پوجانہیں ہو سکتی، کسی گردوارے میں کالی دیوی کا مجسمہ نہیں رکھا جا سکتا اور کسی مندر میں حضرت عیسیٰؑ اور سیدہ مریمؑ کی تصویریں نہیں لگائی جا سکتیں۔ لیکن پاکستان کے ان سیکولرلبرل تعلیمی اداروں میں یہ بارہ مصالحے کی چاٹ بنائی اور بیچی جاسکتی ہے۔ سیکولر لبرل چورن یہاں خوب بیچا جا تا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد صرف اور صرف طلبہ کے سامنے دین کا تصور مسخ کرنا ہے۔ ایک زمانے میں تعلیمی اداروں میں اسلامک سوسائٹی ہوتی تھی، تو وہ کسی ایسے صاحبِ علم مذہبی سکالر بلالیتی تھی، جسے مغرب کے علوم پر بھی عبور ہوتا تھا تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ طالب علموں میں اسلام کا درست تصور پیدا ہوتا۔ لیکن ان ایلیٹ تعلیمی اداروں کا مقصد صرف ایک ہی ہے، کہ ہر مذہب کو انسان کی تخلیق ثابت کیا جائے اور مذہبی مقدس شخصیات خواہ سیدالانبیاء ﷺ ہوں، سیدنا ابوبکر صدیق ؓیا سید نا علی ؓ ہوں، ان کو الیگزینڈر، ہمورابی، سقراط یا افلاطون کی طرح معلم (Reformer) جیسی ہستیاں ثابت کیا جائے۔یہ ہے لاہور کے جدید ایلیٹ کلاس کے سیکولر، لبرل اور روشن خیال تعلیمی اداروں کا عمومی ماحول۔ ایسے میں وہ قدیم تعلیمی ادارہ جو ان کا ’’مرشدِ اوّل‘‘ تھا، وہ کیسے پیچھے رہتا۔ اس کو اپنی آزاد خیالی کی رفتار ہی تھوڑا تیز کرنا تھی، جو اس نے بحسن دخوبی کردی اور آج وہ انہی اداروں کے شانہ بشانہ ہے۔ گذشتہ دنوں اس ادارے میں جانے کا اتفاق ہوا تو جس حقیقت سے میری آنکھیں چار ہوئیں وہ یہ تھی، کہ ہمارے ملک کے ایلیٹ اداروں کا تعلیمی نظام لبرل، سیکولر، روشن خیال، فاشسٹ مافیا کے ہاتھوں میں مکمل طور پر یرغمال بن چکا ہے۔ ادارے کے پرنسپل کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا، تو کاغذات کے درمیان مجھے نسبتاً ایک موٹی سی مجلد کتاب نظر آئی۔ ایسی کتاب جسے حسنِ ترتیب کے اعتبار سے کاغذوں کے درمیان رکھنا مجھے عجیب سا لگا اور مجھے اپنے آرٹسٹ پرنسپل دوست سے اس بدذوقی کی توقع بھی نہیں کر رہا تھا۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر کتاب کو درست جگہ رکھنے کیلئے کتاب پکڑی تو وہ قرآن پاک کی تفسیر تھی، جسے ’’اشفاق احمد‘‘ اور ’’حنیف رامے‘‘ کے مرشد ’’بابا فضل‘‘ نے تحریر کیا تھا۔ میرے دوست پرنسپل نے ایک دم کہا، ’’آپ کو معلوم ہے کہ یہاں ایسی کتابیں چھپا کر پڑھنی پڑھتی ہیں‘‘۔ یہ میرے لئے ایک انتہائی خوفناک انکشاف اس لئے بھی تھا کہ ایسی مرنجا مرنج قسم کی امن و آشتی کا درس دینے والے بابوں، صوفیوں اور بزرگوں کی کتابیں تو ان اداروں میں کبھی فیشن کے طور پر پڑھی جاتی تھیں اور ان کی تشریحات کرتے ہوئے سگریٹ کے مرغولے بناتے، اپنے ہوش و حواس سے بیگانے صوفی آرٹسٹ پیداہوا کرتے تھے۔ پرنسپل صاحب مجھے دروازے تک چھوڑنے آئے تو اپنا ایک اور دکھ بیان کر گئے۔ کہنے لگے کہ میں ایک محفل میں سے اچانک اٹھ کر جانے لگا تو دوست یاروں اور ہم پیشہ استادوں نے پوچھا کہ کہاں جارہے ہو، میں نے کہا نماز پڑھنے جا رہا ہوں تو کتنی دیر تک پہلے میرا تمسخر اڑایا جاتا رہا، پھر بحث ہوتی رہی، اس دن کے بعد سے میں نے اکثر نماز پڑھنے جانا ہو تو خاموشی سے نکل جاتا ہوں۔ یہ ماحول ان ’’ایلیٹ‘‘ (Elite) تعلیمی اداروں میں نظر آتا ہے، جنہیں پرویز مشرف کے دور سے ایک خاص منصوبے کے تحت ایک کھلی چھٹی دی گئی تھی۔ اسی طرح کے ایلیٹ ادارے اسی انداز کے ساتھ اسلام آباد اور کراچی میں بھی اسی سیکولر، لبرل، آزاد خیال مافیا کے ہاتھ میں یرغمال ہیں۔ یہاں پر کام کرنے والے اساتذہ ہوں یا طلبہ، سب کو اس سیکولر لبرل فاشزم اور آمریت کا سامنا ہے۔ ایک ادارے میں میرے ایک دوست نے اپنی بیٹیوں کو داخل کیا جو عموماً حجاب پہنتی تھیں۔ انہیں یہ کہہ کر نکال دیا گیاکہ، ’’ہمارے ہاں حجاب پہن کر نہیں آیا جاسکتا کیوں کہ اس سے تفریق ہوتی ہے‘‘۔ ان اداروں میں آپ کسی ایسے صحافی، دانشور، اینکرپرسن کو بھی مدعو نہیں کر سکتے جس کے خیالات مذہبی نوعیت کے ہوں، کسی مولوی یا عالم دین کو بلانا تو بہت دور کی بات ہے۔ ان سیکولر لبرل روشن خیال مافیاز نے اپنے ہاتھ میں ہتھیار کے طور پر ایک لفظ پکڑا ہوا ہے۔ نفرت انگیز گفتگو اور پھر اس کا بے دریغ استعمال ہر اس شخص کے خلاف کیا جاتا ہے، جو اسلام کا نام لیتا ہے۔ ایسے سکولوں کا المیہ یہ ہے کہ ’’صرف لڑکیوں‘‘ (All Girls) سکول کہ کر ان میں لوگوں کی بچیوں کو داخل کرتے ہیںمگر وہاں بھی مرد استادوں اور سٹاف کو تعینات کردیتے ہیں اور گذشتہ دنوں جب جنسی ہراسگی کے لاتعداد سکینڈل سامنے آئے اور سکول کا کاروبار ٹھپ ہو جانے کا خوف ہوا تو، انہوں نے اعلان کیا کہ ’’ہم اب صرف خواتین استاد رکھیں گے‘‘۔ اس اعلان پر پاکستانی سیکولر لبرل مافیاز کے اینکرز چیخ اٹھے کہ یہ ’’مرد و زن‘‘ کی علیحدگی ہمیں برداشت نہیں۔ ان میں ایک ایسے اینکر بھی شامل ہیں کہ جب پنجاب ٹیکسٹبورڈ میں ایک ایسی کتاب پر پابندی لگائی گئی جس میں بچوں کو گنتی سکھانے کیلئے ایک دو تین کے آگے تین سئوروں کی تصویریں لگائیں تھیں، تو انہوں نے کہا اس میں کیا حرج ہے۔ ہو سکتا ہے انہوں نے اپنے گھر میں سؤر پال رکھے ہوں اور وہ اپنے بچوں کو انہی سے گنتی سکھاتے ہوں، لیکن کیا کریں اس ’’بدقسمت‘‘ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کے بچوں کو سؤر پالنے کی یہ سہولت میسر نہیں۔ وہ بیچارے تو بکریاں اور مرغیاں ہی دکھا کر گنتی سکھا سکتے ہیں۔ ان سیکولر لبرل مافیاز کے ہاتھوں یرغمال تعلیمی اداروں میں ہولی تو منائی جاسکتی ہے، ویلنٹائن ڈے، ہیلووین ڈے منایا جاسکتا ہے، دیوالی پر چراغ جلائے جا سکتے ہیں مگر ان اداروں میں سید الانبیاء ﷺ کا میلاد، سیدنا امام حسینؓ کی قربانی کا تذکرہ اور امہات المومنینؓ اور سیدہ فاطمہ ؑ کے حجاب کی گفتگو ’’نفرت انگیز‘‘ میں آتی ہے۔ ایسے تمام مقرروں پر پابندی ہے۔ یہ ہے وہ مافیا جس کے کنٹرول میں پاکستان کے ’’ایلیٹ تعلیمی‘‘ اداروں کا پورا نظام آچکا ہے۔