اتنی گہری لمبی نیند (3) – حسن نثار

hassan-nisar

ناغہ کیلئے معذرت خواہ ہوں لیکن کیا کرتا طبیعت ہی ڈانواں ڈول ہو گئی تھی بہرحال ……توانائی کے نئے ذرائع میں اہم پیشرفت پٹرول اور اس کی مصنوعات کو 19ویں صدی کے وسط تک بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا تھا کیونکہ افادیت اور دستیابی دونوں ہی محدود تھیں کہ 1859ء میں ایڈون ڈریک نے پنسلوانیا میں ڈرلنگ کے ذریعہ تیل کا اک بڑا ذخیرہ دریافت کر لیا لیکن آج یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حضرت انسان اور پٹرول پمپ اکٹھے ہی پیدا ہوئے تھے حالانکہ یہ کل کی بات ہے ۔1876ء میں نکولس اونونے پہلا کامیاب اندرونی احتراقی انجن بنا لیا جس کا نتیجہ موٹر ایج کی صورت میں نکلا۔ 1897ء میں رڈولف ڈیزل نے ڈیزل استعمال کرنے والا انجن بنا لیا۔

صنعتی انقلاب کے اس دوسرے مرحلے میں آٹومیٹک مشینری، بڑی مقدار میں صنعتی پیداوار اور محنت کی تخصیص و تقسیم شامل ہیں۔ یہ تمام ’’کارنامے‘‘ پہلی جنگ عظیم سے پہلے مکمل ہو چکے تھے ۔اس دوسرے مرحلہ میں ٹرانسپورٹیشن اور ابلاغ کی رفتار بہت بڑھ چکی تھی ۔1890ء تک اکیلے برطانیہ میں 20000مین ٹریک تھا ۔1868ء میں ایئربریک، سلیپنگ کار اور ڈائیننگ کار نے سفر کو مزید بہتر بنا دیاتھا ۔ریلوے کا اہم ترین حریف آٹو موبیل تھا جس میں بسیں اور ٹرک وغیرہ بھی شامل تھے ۔ایک اہم ترین موڑ ہوا بھرا ٹائر ٹیوب تھا جسے ڈنلپ نے 1888ء میں حتمی شکل دی تھی ۔1910ء میں چارلس کیٹرنگ نے گاڑی میں الیکٹرک سیلف سٹارٹر لگایا لیکن اگر ہنری فورڈ کی ذہانت نہ ہوتی تو گاڑی مکمل ہونے پر بھی رؤسا کا کھلونا ہی رہتی اور مڈل کلاس کی پہنچ سے دور رہتی ۔یہ فورڈ کا وژن تھا کہ تھوڑے منافع پر زیادہ کاریں بیچ کر منافع بھی زیادہ کمایا جاسکتا ہے، لوگوں کو بھی سہولت مل سکتی ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ 1982ء تک آٹو موبیل کی صنعت امریکہ میں سب سے بڑی صنعت کا درجہ حاصل کر گئی۔ 20کی دہائی سے ہی جہاز نقل وحمل کا مقبول ذریعہ بننے لگے ۔یہ خیال تو بہت پرانا تھا کہ انسان کبھی نہ کبھی ہوائوں میں اڑے گا۔راجر بیکن نے 13ویں صدی میں کچھ تجاویز بھی دی تھیں ۔لیونا رڈو کے ذہن میں بھی کچھ خاکے آئے جنہیں اس جینئس نے کاغذوں پر بھی اتارا لیکن اصل کوشش 19ویں صدی کی 90کی دہائی میں شروع ہوئی ۔سب سے پہلے اوٹو لینتھل، سیموئیل پی لینگلے وغیرہ نے ہوا سے بھاری اڑن مشینوں پر تجربے کئے ۔رائٹ برادرز نے اس کام کو آگے بڑھایا جس کے بعد پیشرفت میں بہت تیزی آ گئی ۔1908ء میں رائٹ برادرز نے تقریباً سو میل لمبی پرواز کی۔ 1919ء تک لندن اور پیرس کے درمیان مسافر بردار ہوائی سروس شروع ہو چکی تھی ۔

اسی طرح ویکیوم ٹیوب کے موجد لی ڈی فارسیٹ کے کام نے ریڈیو کی ایجاد کو ممکن بنایا۔ ٹیلی وژن پر بنیادی تحقیق POULRENاور فیسنڈن نے کی تھی ۔1920ء میں ریڈیو کی کمرشل سروس کا آغاز ہوا۔ انگلینڈ اور امریکہ کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ 1927ء میں شروع ہوا۔ ٹیلی ویژن کا زیادہ تر کریڈٹ سکاٹ لینڈکے J.L.BAIRDکو جاتا ہے جس کا زیادہ تر کام 1926ء تک مکمل ہو گیا تھا لیکن اسے عملی استعمال میں آتے آتے مزید 15سال لگ گئے ۔بجلی کا بلب بھی صنعتی انقلاب کے دوسرے مرحلہ کی پیداوار ہے جس سے معدنی کانوں میں کام کئی گنا بڑھ گیا، سرجری اس کے بغیر ممکن نہیں، نائٹ لائف کا آغاز اسی سے ہوا ….رہن سہن، بودو باش، آرام کے علاوہ بجلی کے بلب نے انسان کو بہت کچھ دیا ۔

اسی صنعتی انقلاب کے سبب مالیاتی سرمایہ داری کو غلبہ حاصل ہوا ۔سرمایہ کار بینک، انشورنس کمپنیاں، ہولڈنگ کمپنیاں، انتظام اور ملکیت کی علیحدگی ….سب اسی کے انڈے بچے ہیں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج جس دنیا میں ہم بس رہے ہیں، صرف دو تین صدیوں کی کہانی ہے اور جن لوگوں نے انسانی زندگیوں کو ہر حوالے اور اعتبار سے ’’ری شیپ‘‘ کیا وہی اس کی قیادت بھی کر رہے ہیں، غالب بھی وہی ہیں تو اس میں کچھ قصور تو ان قوموں کا بھی ہے یا نہیں جنہوں نے انسان کو یہاں تک پہنچانے میں رتی برابر بھی کونٹری بیوٹ نہیں کیا اور آج بھی سوائے ’’صارف‘‘ کے کچھ بھی نہیں ۔

خدا جانے یہ ALSO RAN ٹائپ میں کبھی علم و ہنر ….سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف متوجہ ہوں گی بھی یا صرف ’’قبضہ گروپ‘‘ ہی ایجاد کرتی رہیں گی۔(ختم شد)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Itni Ghehri Lambi Neend 3 By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.